کیا آج کا وائٹ ہاؤس درست فیصلہ کر پائے گا؟ٖ
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
بات آج کے امریکا، آج کے وائٹ ہاؤس اور آج کے صدر امریکا پر کرنی ہے۔ ان کے طرزعمل اور کس طرح امریکا اپنے ’بیگیج‘ کواتارنے میں ناکام رہنے سے اپنے یورپ کے قابل اعتماد اتحادیوں سے محروم ہو رہا ہے۔ وہ بیگیج یا بوجھ کون ہے، کیا کرنا چاہیے، اس پر مختصر سی بات کریں گے، مگر پہلے 4 عشریقبل تاریخ کے ایک باب کی سیر کرتے ہیں۔
23 فروری 1986 3 بجے سہ پہر۔۔۔ وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں ایک ہنگامی میٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ صدر ریگن کے تمام اہم مشیر موجود ہیں۔ ان میں نائب صدر جارج بش، وزیر خارجہ جارج شلز، وزیر دفاع کیپ وائن برگر، سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی۔
صدر کے چیف آف اسٹاف ڈان ریگن‘ مشیر برائے قومی سلامتی جان پوائن ڈیکسٹر اور دوسرے اہم آفیشلز بے تابی سے امریکی صدر کا انتظار کر رہے ہیں۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے اور صدر رونلڈ ریگن اندر داخل ہوتے ہیں۔ انہیں کیمپ ڈیوڈ سے اپنا ویک اینڈ ادھورا چھوڑ کر آنا پڑا۔ صدر نے رسمی گفتگو سے گریز کرتے ہوئے میٹنگ شروع کرنے کا اشارہ کیا۔ ریگن سینیٹر فلپ کی جانب دیکھ کر کہتے ہیں‘ ’میں آپ کا تجزیہ سننا چاہتا ہوں‘ مگر پہلے انٹیلی جنس رپورٹ سن لی جائے۔ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان پوائن ڈیکسٹر نے چند جچے تلے فقروں میں بریفنگ دی‘ ’ہم فلپائن میں ایک سنگین مخمصے سے دوچار ہیں۔
ایک طرف ہمارا پرانا وفادار ساتھی مارکوس ہے جس نے خطے میں امریکی پالیسیوں کو بڑی سعادت مندی سے آگے بڑھایا اور ہماری کوئی بات نہیں ٹالی۔ دوسری طرف فلپائنی عوام ہیں جو اس وقت مارکوس کے شدید مخالف ہیں۔ مارکوس فلپائن میں نفرت کی علامت بن چکا ہے۔ فلپائنی عوام نے اپنے غصے کا اظہار الیکشن میں مارکوس کے خلاف ووٹ دے کر کیا، مگر مارکوس نے عوام کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ مسز اکینو کی جیت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ مارکوس اپنے مخالفین کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آ رہا۔ ہمیں جلد کچھ کرنا ہو گا۔ ہم نے فلپائن میں تعینات امریکی سفیر کے ذریعے مارکوس کو پیغام بھجوایا کہ وہ انتخاب جیتنے والی جمہوری قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا عمل شروع کرے‘ مگر مارکوس اپنے اختیارات چھوڑسکتا ہے اور نہ ہی فلپائنی عوام اسے مزید برداشت کرنے کو تیار ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی نے 2 فقروں میں اپنی بات مکمل کر دی۔ ’صورتحال بہت نازک ہے‘ مارکوس فلپائنی فوج کی حمایت سے بھی محروم ہو گیا۔ اس کے چند ہزار وفادار دستے اس کے ساتھ ہیں‘ مگر وہ لاکھوں افراد کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘۔
ریگن کے چہرے سے پریشانی مترشح تھی۔ انہوں نے اب فلپ کی جانب دیکھا جو فلپائن کے دورے سے صبح ہی لوٹا تھا۔ تجربہ کار سینیٹر فلپ نے ایک لمحے کا توقف کیا پھر بولا ’جناب صدر! مارکوس کا دور ختم ہو چکا، فلپائن میںتبدیلی کو نہیں روکا جا سکتا‘۔ ریگن یہ بے لاگ تبصرہ سن کر جیسے سناٹے میں آ گیا۔ چند لمحوں کے بعد صدر نے مزید وضاحت طلب کی تو فلپ نے بتایا، ’فلپائن کی فوج اب حکومت سے علیحدہ رہنا چاہتی ہے۔مسلسل غیر یقینی سے ملکی معیشت تباہ ہونے کو ہے۔ جہاں تک مارکوس کا تعلق ہے، ادھر اپنے اقدامات سے لگتا ہے کہ مارکوس اپنے حواس کھو بیٹھا۔ وہ جس انداز میں اپنے ملک کو چلاتا رہا، اب یہ ممکن نہیں‘۔ وزیر خارجہ جارج شلز نے تیزی سے بات کاٹی، ’صاف بات ہے کہ مارکوس اب اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ مارکوس کو ملک چھوڑنا پڑے گا‘۔ جارج شلز نے ریگن کو مخاطب کر کے کہا، ’جناب صدر! ماضی میں ہم نے ویت نام، ایران اور نکاراگوا میں تباہ کن غلطیاں کی تھیں۔ اب امریکا کو اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے یہ بحران ختم کرانا چاہیے‘۔
اس کے بعد شلز نے اپنا پلان پیش کیا، ’وائٹ ہائوس بحران ختم نہ ہونے کی صورت میں امریکی امداد روکنے کی دھمکی دے۔ مارکوس کوایک فیصلہ کن خفیہ پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، آنے والی سول حکومت کو امریکی امداد کی یقین دہانی بھی کرائی جائے‘۔
بریفنگ کے دوران ایک انٹیلی جنس رپورٹ میٹنگ میں پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ لاکھوں کی تعداد میں فلپائنی عوام ایوان صدر کی جانب (لانگ) مارچ کر رہے ہیں۔ سب سے آگے کیتھولک نرسیں ہیں، جنہوں نے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا رکھی ہے۔ یہ لوگ مارکوس کے محل کا گھیرا کرنا چاہ رہے ہیں۔ صدر ریگن نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’بس اسی کی کسر باقی تھی۔ اگر ایک بھی نن ماری گئی تو فلپائنوں کو ایک ’جون آف آرک‘ مل جائے گی‘۔
جب تمام مشیر اپنی بات کہہ چکے تو صدرریگن نے فیصلہ کن انداز میں کہا، ’مارکوس ایک ضدی شخص ہے، ہمیں اس سے طریقے کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ پہلے ہم اسے مشورہ دیتے رہے، اب اسے واضح طور پربتانا ہوگا، مگر الفاظ ایسے ہوں کہ اس کی انا مجروح نہ ہو۔ مارکوس کوپیغام بھیجو کہ اس کی اپنی حفاظت اور فلپائنی عوام کی بہتری کے لیے اسے ملک چھوڑنا ہوگا۔ امریکا اس کی مدد کرنا چاہتا ہے، مگر اس کے لیے مارکوس کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ ایسی صورت میں اسے محفوظ راستہ اور علاج کی سہولت ملے گی‘۔
24 فروری، 2 بجے دوپہر، جارج شلز کی زیرصدارت اسٹیٹ آفس کے آفیشلز کا اجلاس ہوا۔ اس سے پہلے صدر مارکوس نے اپنی آخری کوشش کرتے ہوئے مسز اکینوکی حکومت تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پیش کش کی، مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ شلز کی میٹنگ 30 منٹ تک جاری رہی، پھر پوائن ڈیکسٹرنے منیلا مارکوس کو فون ملایا۔ امریکی صدر کے مشیر کا پہلا فقرہ تھا، ’آپ کے جانے کا وقت آپہنچا ہے۔ جو چیزیں سمیٹنی ہیں، سمیٹ لیں‘۔ جواب میں اتنا لمبا وقفہ آیا کہ پوائن ڈیکسٹر نے سوچا شاید
مارکوس نے فون رکھ دیا ہے۔ پھر اپنے آپ کو فلپائن کا نجات دہندہ سمجھنے والے لیڈر کی کمزور، تھکی آواز ابھری، ’مجھے اس سے بہت مایوسی ہوئی‘۔
10 بجے رات مسز امیلڈا مارکوس نے امریکی خاتون اول نینسی ریگن کو فون کیا اور دریافت کیا کہ ہمیں کہاں لے جایا جائے گا؟ نینسی ریگن جواس صورت حال سے پوری طرح باخبر تھی، اس نے اپنے مخصوص سرد لہجے میں جواب دیا، ’مارکوس فیملی کو امریکا میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اگرچہ بہتر یہی ہوتا کہ آپ کسی دوسرے ملک چلے جاتے، مگر بدقسمتی سے کوئی ملک آپ کو لینے کے لیے تیار نہیں۔ اب مجبوراً ہم نے جزیرہ ہوائی میں آپ لوگوں کے رہنے کا انتظام کیا ہے۔ ’یوں 25 فروری کو امریکی وقت کے مطابق صبح 7 بجے مارکوس، اس کے اہل خانہ، ملازمین اور بعض قابل اعتماد مشیر (جنہیں سویلین حکومت سے سزا ملنے کا خدشہ تھا) 4 امریکی ہیلی کاپٹروں پرفلپائن سے روانہ ہوگئے، ۔۔۔ کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ صدر ریگن کے دور میں 6 سال تک وائٹ ہائوس کے ترجمان رہنے والے لیری اسپیکس نے اس سارے ڈرامے کی تفصیل اپنی کتاب میں رقم کی ہے۔ لیری اسپیکس نے اس فیصلے کو دانشمندانہ اور عقلمندانہ قرار دیا اور اس کا کریڈٹ صدر ریگن اور ان کی ٹیم کو دیا جنہوں نے ضد پر اڑے رہنے کے بجائے وقت کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھا۔
مزید پڑھیے: یہ وہ لاہور نہیں
امریکی پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ شاہ ایران کے ذلت آمیز انجام نے امریکا کو ایک خاص قسم کی نفسیاتی کیفیت میں لا کھڑاکیا ہے۔ اب ہرامریکی حکومت بے وفائی کے طعنے سے بچنے کے لیے اپنے کسی وفاداراتحادی یا ایجنٹ کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ اسے ہر طرح سے سپورٹ مہیا کی جاتی ہے۔ تاہم امریکیوں کے لیے انقلابی ایران کا تجربہ بڑا تلخ رہا۔ اس سے امریکیوں نے یہ سبق بھی سیکھا کہ ان کا کوئی قابل اعتماد ساتھی بھی جب ایک بیگیج، ایک فالتو بیکار بوجھ کی حیثیت اختیار کر جائے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرلینا ہی عقل مندی ہے۔
آج کے وائٹ ہاؤس، آج کے امریکا اور صدر امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج آکھڑا ہوا ہے۔ یہ ان کے ہمیشہ کے قابل اعتماد ترین حلیف اور مڈل ایسٹ میں ان کے فرنٹ کنٹری اسرائیل کے سفاک، بے رحم اور عاقبت نااندیش وزیراعظم نتن یاہو کو ڈیل کرنا ہے۔
ممکن ہے صدر ٹرمپ، ان کی ٹیم یا ایڈمنسٹریشن کو اس کا احسا س نہ ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت نے وہ تمام بلنڈرز کر ڈالے ہیں، وہ تباہ کن غلطیاں، حماقتیں اور بدترین مظالم جس کے بعد یورپ میں ان کے خلاف رائے عامہ کی شدید لہر امنڈ آئی۔ ایسی شدید اور طاقتور عوامی لہر کہ برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا جیسے امریکا کے قریبی دوست اور اتحادی ممالک بھی امریکی پالیسی کے خلاف جا کر فلسطین کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان ممالک کی حکومتوں کو مجبوراً ایسا کرنا پڑا، ورنہ ان کی عوامی مقبولیت اتنی کم ہوجاتی کہ اگلا الیکشن یہ لازمی ہار جاتے۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو امریکا کے لیے ایک ایسا بیگیج یا فالتو بیکار بوجھ بن چکا ہے کہ اس سے چھٹکار ا پانا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ افسوس کہ آج کے وائٹ ہاوس میں امریکی تاریخ کی سب سے ناتجربہ کار، عاقبت نااندیش اور حقیقی مشاورت سے عاری ایڈمنسٹریشن اور ان کا صدر موجود ہے۔ صدر ٹرمپ یہ بات سمجھ ہی نہیں رہے کہ امریکا جس قدر مزید اسرائیل کا ساتھ دے گا، اتنا ہی مزید نقصان ہوگا۔ اسرائیل کے قطر پر حملے ہی نے عرب دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ نئی صف بندی، نئے جوڑتوڑ اور نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا ایران خیر مقدم کرے گا؟ ایسا مگر ہوا ہے، ابھی مزید بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
امریکا مڈل ایسٹ میں اپنا اثروسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے، وہ ریئر ارتھ منرلز اور دیگر شعبوں میں اپنے آپ کو اہم اور متعلق رکھنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا غزہ میں امن کے حوالے سے فارمولا بھی سامنے آ چکا ہے۔ اہم مسلم ممالک نے بعض شرائط اور تحفظات کے ساتھ اس کی حمایت بھی کر دی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ایک منفرد کیس ہے، اسے ایزی نہ لیں
صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو یہ بات مگر سمجھنا ہوگی کہ مڈل ایسٹ میں امن تب ہی قائم ہوسکتا ہے جب وہ اسرائیل کے جارحانہ مزاج وزیراعظم کو روک سکیں، کنٹرول کر پائیں اور اسے امن کو سبوتاژ کرنے کا موقعہ نہ دیں۔ امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک خاص حد کے بعد ’بیگیج‘ خواہ وہ ضروری بھی ہو، نقصان دہ اور کربناک ہوجاتا ہے۔ بوجھ مسلسل اٹھائے رکھنا کمر توڑ دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ بارہا اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ تاریخ ساز رہنما ہیں، تاریخی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سب کے لیے انہیں حقیقت پسند بننا ہوگا، امریکا کے لیے مڈل ایسٹ میں سب سے بڑے ’بیگیج‘ کو اتار پھینکنا ہوگا، تب ہی نئی راہیں کھلیں گی اور دیرپا امن ممکن ہوپائے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
امریکا سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن صدر ٹرمپ کیمپ ڈیوڈ مارکوس نینسی ریگن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کیمپ ڈیوڈ مارکوس نینسی ریگن
پڑھیں:
بلال بن ثاقب کی وائٹ ہاؤس میں نئے کرپٹو ایڈوائزر پیٹرک وِٹ سے اہم ملاقات، ڈیجیٹل اثاثوں سے متعلق تعاون پر بات چیت
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر برائے کرپٹو و بلاک چین بلال بن ثاقب نے وائٹ ہاؤس میں نئے کرپٹو ایڈوائزر پیٹرک وِٹ سے اہم ملاقات کی۔ اس دو ران پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈیجیٹل اثاثوں اور بلاک چین ٹیکنالوجی میں تعاون بڑھانے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
ملاقات میں دونوں فریقین نے کرپٹو کرنسی اور بلاک چین کے شعبے میں نئے مواقع کو فروغ دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر بلال بن ثاقب نے کہا کہ پاکستان کرپٹو اور ڈیجیٹل اثاثوں میں عالمی قیادت کے لیے تیار ہے اور اس میدان میں امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون کو مزید آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
غزہ میں فوری جنگ بندی ہونی چاہیے، پاکستان آزاد اور خودمختار فسلطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے،وزیراعظم شہباز شریف
یہ ملاقات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے جو ڈیجیٹل معیشت اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں مشترکہ ترقی کی راہیں ہموار کرے گی۔
مزید :