ماضی میں تعلقات بگاڑے گئے، آج پاکستان کی مشرق سے مغرب تک عزت ہے: عطا تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیوجرسی: وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون مستحکم ہورہا ہے۔
نیو جرسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا، جس سے پاکستان کے مؤقف کو عالمی سطح پر تقویت ملی ہے۔
انہوں نے سابق حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا تھا، لیکن اب مہنگائی، انٹرسٹ ریٹ اور دیگر معاشی اشاریے بہتری کی طرف جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے حکمرانوں نے اپنی انا کی خاطر دوست ممالک سے تعلقات خراب کیے جبکہ موجودہ حکومت نے مشرق سے مغرب تک دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بحال کیا ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کی معاشی اور سفارتی پالیسیوں کے اثرات اب عالمی سطح پر بھی نمایاں ہو رہے ہیں اور پاکستان کی ساکھ بہتر ہو رہی ہے۔
ویب ڈیسک
دانیال عدنان
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلیاں
ہماری کائنات کی عمر 1380 کروڑ سال ہے۔ گوگل نے ایک پاور فل چپ بنائی ہے ۔ جس کا نام Willow چپ ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ہماری کائنات سنگل نہیں ملٹی پل یونیورس ہے ۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ایک سے زیادہ ہیں ۔ جب کہ موجودہ کائنات میں ہی کروڑوں کہکشائیں ہیں اور ان میں ہر ایک میں اربوں ستارے ہیں ۔جن کا فاصلہ زمین سے کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر ہے ۔
روشنی 3لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہے ۔اس کو آپ دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سال میں ضرب دیتے جائیں تو اسے ایک نوری سال کہتے ہیں ۔ کوانٹم کمپیوٹر کی وجہ سے اتنی تیزی آئے گی کہ جو کام 30، 50 ،70سال میں ہو گا وہی کام صرف 6ماہ میں ہوجائے گا۔ لاعلاج امراض کینسر شوگر وغیرہ کی ادویات بہت کم وقت میں دریافت ہوجائیں گی ۔ کوانٹم کمپیوٹرکی بدولت مستقبل میں انسان کی عمر بڑھ کر ڈیڑھ سو سے دوسو برس تک ہوجائے گی ۔ تازہ ترین امریکی سروے کے مطابق 71فیصد امریکی نوجوان جن کی عمریں 19سال سے کم ہیں دماغی بیماریوں کا شکار ہیں یا ہونے جارہے ہیں ۔
عدد71فیصد پر غور فرمائیں یعنی ذہنی طور پر صحتمند امریکی نوجوان صرف 29فیصد ہی رہ جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ موبائل اور لیپ ٹاپ اسکرین اور اس کی نیلی روشنی ہے اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں طالبعلموں پر پڑھائی کا بے پناہ بوجھ ہے ۔ ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں بچتا کہ وہ کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں ۔ گھر کے لیے بھی انھیں اتنا ہوم ورک دے دیا جاتا ہے کہ انھیں سر کھجانے کا موقع نہیں ملتا یہاں تک کہ وہ صحیح سو بھی نہیں پاتے اس طرح سے ہماری نوجوان نسل بڑی تیزی سے نوجوانی میں ہی ان دماغی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے جس کا امکان بڑھاپے میں ہوتا ہے ۔ اس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کا از سر نو جائزہ لے کر اسے نوجوان نسل کے لیے سہل بنائیں ۔ ہمارا نظام تعلیم اس لیے بھی مشکل ترین بن گیا ہے کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ جس کے لیے ہمیں انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ۔
خاص طور پر سائنسی مضامین انگریزی میں ہیں دوسرے ملکوں کے برعکس جب کہ دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہے ۔ خاص طور پر چین ، فرانس ، جرمنی ،جاپان، سنگا پور ، ملیشیاء اور ترکی وغیرہ ہیں ۔ ان ملکوں میں بھی انگریزی زبان سیکھی اورپڑھی جاتی ہے ۔ لیکن اسے اوڑھنا بچھوڑنا نہیں بنایا جاتا۔ مندرجہ بالا یہ تمام ممالک اپنی مادری زبان میں ہی سائنسی مضامین پڑھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ ترین مقام پر ہیں ۔
ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ طالبعلموں کو انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ۔ دوسرا سائنسی مشکل مضامین کو انگریزی میں پڑھنا اور سمجھنا ہوتا ہے یہ تو دوہری محنت ومشقت ہے ۔ مادری زبانوں میں سائنسی مضامین پڑھنا سمجھنا اور مہارت حاصل کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مندرجہ بالا ملکوں نے ترقی کی دوڑ میں تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ انگریزوں نے پاکستان چھوڑتے وقت جس اشرافیہ کو اقتدار منتقل کیا وہ انگریزی زبان میں مہارت رکھتی تھی۔ ان کی بھی پالیسی یہی تھی کہ عوام پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مادری زبان کے بجائے انگریزی کو پاکستانی عوام پر مسلط کیا جائے ۔ انھوں نے اپنے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنائے باقی پاکستانی عوام کو فرسودہ اور پسماندہ نظام تعلیم کے حوالے کردیا۔
عام امتحانوں کو تو ایک طرف چھوڑیں اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں پرچہ لیک اور نقل ہونا عام سی بات بن گئی ہے ۔ بقول عظیم افریقی لیڈر نیلسن منڈیلا کے کسی بھی قوم کو مستقل پسماندہ زیر نگیں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پرچے لیک اور نقل کو معمول بنا دیا جائے ۔ نالائق اور کم اہلیت کے اساتذہ بھرتی کیے جائیں ۔ انگریزی زبان کو ہتھیار بنا کر اس اشرافیہ نے پاکستانی عوام کو صدیوں سے اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ان کی بودی دلیل یہ ہے کہ اگر نظام تعلیم انگریزی میں نہ ہوا تو پاکستان ترقی کیسے کرے گا۔ جواب یہ ہے کہ یورپی ممالک روس ، چین ، امریکا ، جاپان ، جرمنی ، فرانس آخر اپنی مادری زبان ہی کے ذریعے ترقی کے بام عروج پر پہنچے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کی دھوکا بازی کا کوئی جواب ہے ۔ جو یہ قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل کر رہے ہیں ۔ انگریزی نظام تعلیم اپنا کر پاکستان میں نظام تعلیم کا ایسا بیڑہ غرق ہوا ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں صرف چند سو ہی پاس ہو پاتے ہیں ۔
27ویں ترمیم کے ڈانڈے مشرق وسطی سے ملتے ہیں ، سابق بلیک امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کے خواب کی تعبیر ری برتھ آف مڈل ایسٹ مکمل ہونے جارہی ہے ۔ کیونکہ پاکستان بھی مشرق وسطی کا حصہ ہے اسی لیے پاکستان کو بھی اس کے قیام کے بعد برصغیر سے کاٹ کر مشرق وسطی کا حصہ بنا دیا گیا تھا ۔ اسی لیے مشرق وسطی کے پچھواڑے کی چوکیداری کئی دہائیوں پہلے پاکستان کے حصے میں آگئی تھی ۔اب ان ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہونے والا ہے ۔
سعودی ولی عہد کا اٹھارہ نومبر سے دورہ امریکا جو سات سال کے بعد ہونے جا رہا ہے غیر معمولی طور پر اہمیت رکھتا ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے اس سال دسمبر تک مزید عرب ممالک ابراہام اکارڈ کا حصہ ہوں گے ۔ تقسیم کے وقت ستاروں کی ایک ایسی پوزیشن اسٹرلوجی کے مطابق بن گئی تھی جس کے نتیجے میں برصغیر تقسیم ہو گیا ۔ اب ستاروں کی ایسی پوزیشن بن گئی ہے جو اسے دوبارہ سے ری یونائیٹ کردے گی۔ سرحدیں سوفٹ ہو جائیں گی۔ تجارت ومعیشت کا آزادانہ سلسلہ شروع ہو گا ۔ مشرق وسطی کی ری برتھ امریکی مفادات کے لیے بھی ضروری ہے ۔ اس کے بغیر اس خواب کی تعبیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
2026اور2027 اس حوالے سے فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔