Express News:
2025-11-19@01:28:02 GMT

کون ہیں یہ بچے؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

’’ کیا کروں آنٹی، یہ تو کچھ کرتا ہی نہیں ہے فون کے بغیر… کھانا نہیں کھاتا، دودھ نہیں پیتا، سوتا نہیں اور تو اور حاجت کے لیے بھی فون کے بغیر نہیں بیٹھتا۔‘‘ وہ میرے سوال کرنے پر وضاحت کر رہی تھی۔ میںنے تو اتنا ہی کہا تھا کہ بچوں کو یوں اپنے قیمتی فون دینا اور ان کا اتنی چھوٹی چھوٹی اسکرین پر کارٹون اور بچوںکے پروگرام دیکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ’’ میں توآنٹی خود اپنے خاندان کی سب ماؤں کو ٹوکا کرتی تھی کہ بچوں کو انھوں نے بری عادتیں ڈالی ہوئی ہیں، اس وقت تک جب کہ میرے اپنے بچے نہیں تھے۔ بلکہ میرا بڑا بیٹا جو کہ اب آٹھ سال کا ہے، اس کے ہاتھوں میں ہم نے کبھی فون نہیں دیا تھا مگر اب یہ دو سال کا بچہ بلک بلک کر ہمیں اتنا بے بس کر دیتا ہے کہ مجبورا کوئی نہ کوئی اسے اپنا فون دے دیتا ہے، دادا اور دادی تو اسے ایک منٹ نہیں رونے دیتے اور اپنے فون اسے دے دیتے ہیں۔ سال بھر کی عمر سے بھی پہلے اسے علم تھاکہ فون کس بٹن سے کھلتا ہے اور کس طرح اسے swipe کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔ ‘‘

’’ ظاہر ہے بیٹا کہ ہر آنے والی نسل، پچھلی نسل سے زیادہ تیز و طرار ہوتی ہے، آج کل کی نسل تو لگتا ہے کہ کمپیوٹر اور فون کا استعمال سیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔‘‘

’’ ایسا ہی ہے بالکل، میرا آٹھ سال کا بیٹا، مجھ سے زیادہ کمپیوٹر ، فون اور ٹیبلٹ کا استعمال جانتا ہے۔ میرے اسمارٹ فون کے کتنے ہی فیچر ہیں جن کا مجھے علم بھی نہیں اور وہ مجھے بتاتا ہے۔‘‘

 اپنے خاندان میں کتنی ہی مثالیں ہیں اس ’’اسمارٹ نسل ‘‘ کی جو کہ سب کچھ فون کے ساتھ ساتھ کرتی ہے۔ ان کا کھانا نہ نگلا جاتا ہے اور نہ ہضم ہوتا ہے ہاتھ میں اسمارٹ فون لیے بغیر۔ وہ بچے نہاتے بھی تب ہیں جب باتھ روم میں ان کے سامنے فون کو کسی میز یا کرسی پررکھ کر اس پر ان کی پسند کا پروگرا م چلایا جائے۔ ایک لفظ سمجھ میں نہیں آتا نہیں اس گفتگو کا جو کہ وہ کارٹون کریکٹر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کے لہجوں کی اور حرکتوں کی نقالی کرتے، شکلیں بگاڑتے ہوئے بھاگتے دوڑتے اور اچھلتے کودتے بچے دیکھتی ہوں تو خود ہی ورطہء حیرت میں چلی جاتی ہوں اور سوال کرتی ہوں ، ’’ کون ہیں یہ بچے؟؟‘‘ کہاںکی مخلوق ہیں۔

یہ معصوم بچے جنھیں سب سے پہلے مائیں خود ہی اپنا فون پکڑا دیتی ہیں کہ بچہ فون پر مصروف رہی اور وہ اپنے کام کر لیں، وہ ان کارٹو نزکو دیکھ کر خوش ہی نہیں ہوتے بلکہ ان سے سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے لہجے میں باتیں کرتے ، ان کی طرح اچھلتے کودتے اور ناچتے گاتے ہیں۔

ان کی زبان جلد سیکھتے ہیں اور سمجھنا بھی شروع کردیتے ہیں۔ بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے، ٹھوس غذا کھانا شروع کرتا ہے تو وہ اس خوراک کو رد کرتا ہے کیونکہ اسے اس سے پہلے اس غذا کو نگلنا یا چبانا نہیں آتا تھا۔ اس مشکل وقت میں ہم مائیں کوشش کر کے غذا کو پر ذائقہ اور پرکشش بنانے کی کوشش کرتی تھیں تا کہ بچے کو وہ غذا جاذب نظر لگے اورشوق سے کھا لے۔ آج کی ماؤں نے اس کا حل بھی فون میں تلاش کر لیا ، کوئی ایسا کارٹون ڈھونڈ نکالتی ہیں جس میں کارٹون کریکٹر کھا رہے ہوں گے تو بچہ ان کو دیکھ دیکھ کر کھانا شروع کر دے گا۔

یہ ایک دن کی بات نہیں ہے، ا س کے بعد بچے کو اس کی چاٹ پڑ جائے گی، وہ غذا اور کارٹون کو بھی آپس میں منسلک کر لیتا ہے۔ڈائپر چھڑوانے کا وقت آتا ہے، مائیں بچوں کو potty training شروع کرتی ہیں تو بھی بچہ ٹک کر بیٹھنے سے انکار کر دیتا ہے اور مائیں اس کا حل پھر فون میں نکال لیتی ہیں، بچوں کو کارٹون لگا کر دے دیتی ہیں اور بچے اصل میں تو پوری توجہ کارٹون پر مرکوز کردیتے ہیں اور باقی کام قدرت کا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط رجحان ہے، صرف بچوں میں ہی نہیں بلکہ بڑوںمیں بھی اپنے ساتھ ٹائیلٹ یا غسل خانے میں اپنا فون ساتھ لے کر جانا کئی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔

ہمیشہ سے بچوںکی تربیت میں اہم اصول ہے کہ جب آپ بچے کو کچھ پڑھنے کو دیں، کوئی کتاب یا کہانی تو پہلے اسے خود پڑھیں اور تصدیق کرلیں کہ اس میں کوئی ایسا مواد نہ ہو جو ہمارے مذہبی عقائد، ملکی مفادات اور معاشرتی حالات سے متصادم ہو۔ اسی طرح اگر آپ بچے کو کوئی ٹیلی وژن پروگرام دیکھنے کی اجازت دے رہے ہوں، حتی کہ وڈیوگیمز کھیلنے کو دیں یا دیکھنے کو کارٹون تو ان میں بالخصوص چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ ان میں بھی ایسی زبان استعمال نہ ہوئی ہو، آج کے بچے ان الفاظ کو اپنی روزمرہ گفتگومیں بالکل مناسب سمجھتے ہیں جن الفاظ کے بولنے تو کجا، سننے پر بھی ہم پابندی لگایا کرتے تھے۔

جن اصطلاحات کو ہم آج بھی نہیں سمجھتے، ان کے بارے میں معلومات ہمارے بچوں کے پاس کیسے کمال کی ہیں کہ ہم سنتے اور سر دھنتے ہیں ۔ میرے پاس ایک کپڑا تھا جس میں قوس قزح کے رنگ تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ اس سے کیا بناؤں، خاندان کا ہی ایک بچہ جس کی عمر سات سال سے چند ہفتے کم ہی تھی، مجھ سے سوال کرنے لگا کہ میں اس کپڑے سے کیا بنانے والی تھی۔ میں نے کہا شاید کسی بچی کا فراک…

’’ آپ اس سے LGBTQ کا جھنڈا کیوں نہیں بنا لیتیں اور ہمارے خاندان میں کون ایسا بچہ ہے جس کو آپ اس سے بنا ہوا کپڑا پہنائیں گی۔ میں تو اس بچے کی بات سمجھ ہی نہ سکی تھی، آج کل کے بچے بہت ذہین ہیں، ہم مانتے ہیں مگر ہم بھی کیسے گھامڑ ہیں کہ ہمیں کچھ علم ہی نہیں، اس وقت تو میں خاموش رہی مگر بعد میں جب اس ٹرم کو میں نے Google سے پوچھا تو میں ششدر رہ گئی اور اس بچے کی معلومات اور جرات پرحیران۔

 اگر آج آپ کے پاس بچوں کے لیے تھوڑا وقت نہیں ہے تو کل کو آپ کے پاس سارا وقت اس پچھتاوے میں گزر جائے گا کہ آپ نے انھیں وقت نہیں دیا اور ان کی اچھی تربیت نہیں کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بچوں کو ہی نہیں ہیں اور نہیں ہے فون کے بچے کو

پڑھیں:

ٹرمپ اور بچوں کا بدنام زمانہ جنسی اسمگلر، ہوشربا انکشافات

اسلام ٹائمز: ہنٹر بائیڈن نے اس انٹرویو میں ٹرمپ خاندان اور ایپسٹین کے درمیان تعلقات کو "انتہائی وسیع اور گہرے" قرار دیا۔ وہ امریکی صحافی مائیکل وولف کی کتاب "فائر اینڈ فیوری: انسائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس" کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کتاب 2018 میں شائع ہوئی تھی اور ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران وائٹ ہاؤس کے اندرونی حالات سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کے باعث امریکہ میں شدید ہلچل کا سبب بنی تھی۔ خصوصی رپورٹ:

امریکہ میں بچوں کے ایک بدنام زامنہ جنسی اسمگلر کا کیس، امریکہ کے متنازع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران منظرِ عام پر آنے والی مختلف دستاویزات نے موجودہ امریکی صدر اور بچوں کے جنسی اسمگلر جفری ایپسٹین کے درمیان تعلقات کی گہرائی کے مزید پہلو آشکار کیے ہیں۔

ایپسٹین کون تھا؟:
1953 میں پیدا ہونے والا جفری ایپسٹین ایک امریکی سرمایہ کار تھا، جس نے خود کو ایک نہایت دولت مند مالیاتی مینیجر کے طور پر متعارف کروایا، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ نابالغ لڑکیوں کا جنسی استحصال کر کے انہی کی خرید و فروخت کے ایک وسیع نیٹ ورک کا اصل سرغنہ تھا۔ وہ 100 سے زائد نابالغ لڑکیوں کے جنسی استحصال اور اسمگلنگ کے الزامات کا سامنا کر رہا تھا، اور اس کے تعلقات سیاست دانوں، مشہور شخصیات اور ارب پتی افراد سمیت طاقتور طبقے کے متعدد لوگوں سے قائم تھے۔ ایپسٹین اپنے نجی جزیرے (یو ایس ورجن آئی لینڈز) پر مشکوک تقریبات منعقد کرتا تھا۔ 2008 میں اسے نابالغ لڑکیوں کے استحصال کے جرم میں سزا تو ملی، مگر ایک خفیہ ڈیل کے نتیجے میں اسے صرف 13 ماہ کی جیل کاٹنی پڑی۔ 

2019 میں اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا، وہ ایک ایسے مقدمے کا منتظر تھا جس میں اس کے سیاست دانوں، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل تھے۔ ان کے ساتھ تعلقات کے متعدد راز افشا ہونے کا امکان تھا۔ لیکن اچانک یہ اعلان ہوا کہ وہ نیویارک کی ایک جیل میں مردہ پایا گیا ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ اس نے خودکشی کی، لیکن ایپسٹین کے بااثر حلقوں سے تعلقات کے باعث یہ دعویٰ عام لوگوں میں شکوک سے بالاتر نہ ہو سکا۔ ایپسٹین کے پاس بل کلنٹن، ڈونلڈ ٹرمپ، شہزادہ اینڈریو اور بل گیٹس جیسے مشہور افراد کے بارے میں انتہائی حساس معلومات تھیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ اس کی موت کو ممکنہ عدالتی افشاگریوں کو روکنے کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔

یہ کیس مغرب کے طاقتور اور دولت مند طبقات میں پھیلی بدعنوانی کی علامت بن چکا ہے، اور حالیہ انکشافات کے بعد یہ معاملہ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس رپورٹ میں اس کیس میں ٹرمپ کے خلاف سامنے آنے والے اہم ترین انکشافات کا جائزہ لیا گیا ہے، تاہم اس سے پہلے ان دونوں افراد کی دوستی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔

1۔ دوستانہ تعلقات:
ایپسٹین کے کیس میں ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات، ای میلز اور بیانات شامل ہیں، جو امریکی عدالتوں اور کانگریس کی کمیٹیوں کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔
تاہم ان دستاویزات کے سامنے آنے سے پہلے ہی ٹرمپ اور ایپسٹین کی دوستی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔ دونوں کو ٹرمپ کے مارا لاگو کلب کی تقریبات میں ایک ساتھ دیکھا جاتا تھا، اور ان کی متعدد تصاویر بھی موجود ہیں جن میں ملانیا ٹرمپ اور ایپسٹین کی ساتھی مجرم گِسلین میکسویل بھی نظر آتی ہیں۔ 

پروازوں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے کم از کم سات بار ایپسٹین کے نجی طیارے میں سفر کیا۔ یہ پروازیں عموماً پالم بیچ جیسے تفریحی مقامات کی جانب جاتی تھیں، وہی جگہیں جہاں ایپسٹین نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اپنے بدنام زمانہ پروگرام اور پارٹیاں منعقد کرتا تھا۔ بعدازاں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ کبھی ایسے مقامات پر نہیں گئے، لیکن سامنے آنے والے دستاویزات نے اس دعوے کو غلط ثابت کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ آیا ٹرمپ ان پروازوں کے ماحول اور مقاصد سے واقف تھے یا نہیں۔

2- ایپسٹین کے بارے میں عوام کی رائے:
ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2002 میں نیویارک میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایپسٹین کو ایک غیر معمولی شخص قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ نوجوان اور خوبصورت لوگوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے، بالکل میری طرح۔ یہ بیان، جو کئی سال بعد دوبارہ منظرِ عام پر آیا، واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ ایپسٹین کے نوجوان خواتین کے حوالے سے ذوق کی تعریف کرتے تھے۔ یہی بات بعد میں اس دعوے سے متصادم ثابت ہوئی جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے 2004 میں ایپسٹین سے پوری طرح تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

3۔ ٹرمپ کی ایپسٹین کے جرائم سے آگاہی:
گزشتہ دس دنوں میں سامنے آنے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے اُس وقت بھی ایپسٹین سے اپنے تعلقات برقرار رکھے جب وہ ایپسٹین کی مجرمانہ سرگرمیوں اور اس کے جنسی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے بخوبی آگاہ تھے۔

4۔ مقدمے کی متاثرہ لڑکیوں سے ٹرمپ کا تعلق:
دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ ایپسٹین نے اپنی ساتھی مجرم گسلین میکسویل کو ایک ای میل میں لکھا تھا کہ ٹرمپ نے اس کے گھر میں کم عمر ایک متاثرہ لڑکی کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے۔ اسی ای میل میں ایپسٹین نے ٹرمپ کو "وہ کتا جو بھونکتا نہیں" قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ٹرمپ سب کچھ جانتے ہیں، سب دیکھ چکے ہیں، مگر اب تک اس بارے میں چپ رہے ہیں اور کچھ نہیں کہا۔

5۔ ٹرمپ کی سرگرمیوں کی خفیہ نگرانی:
دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایپسٹین کے عملے نے 2004 کے بعد بھی ٹرمپ کی پروازوں پر نظر رکھی اور اس کی سفری سرگرمیوں سے متعلق ای میلز ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نگرانی اس بات کا اشارہ ہے کہ ایپسٹین ٹرمپ میں مسلسل دلچسپی رکھتا تھا اور اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتا تھا۔

6۔ ٹرمپ کی بدعنوانی کے متعلق ایپسٹین کا اعتراف:
اسناد ظاہر کرتی ہیں کہ ایپسٹین ٹرمپ کی بدعنوانیوں سے بخوبی واقف تھا۔ 2018 میں اُس نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا کہ "میں جانتا ہوں کہ ڈونلڈ کتنا گندا ہے۔"
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ کے ایک فحش فلموں کی اداکارہ کے ساتھ تعلقات کی خبریں میڈیا میں گرم تھیں۔ ایپسٹین نے 2017 میں، ٹرمپ کی حلف برداری کے کچھ عرصے بعد، ایک اور ای میل میں لکھا کہ "یاد ہے میں نے کہا تھا کہ میں نے بہت بُرے لوگوں کو دیکھا ہے؟ ان میں سے کوئی بھی ٹرمپ جتنا خبیث نہیں۔ اس کے اندر ذرا سی بھی شرافت نہیں، تو ہاں، وہ خطرناک ہے۔"

7۔ ٹرمپ کی شادی میں ایپسٹین کا کردار:
حال ہی میں سابق امریکی صدر کے بیٹے، ہنٹر بائیڈن، نے ایک یوٹیوب پروگرام میں انکشاف کیا کہ ایک بدنام زمانہ جنسی دلال نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی موجودہ اہلیہ ملانیا ٹرمپ کی شادی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یوٹیوب پروگرام چینل 5 ود اینڈریو کالاغن کو دیے گئے اس انٹرویو میں ہنٹر بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ بچوں کے جنسی اسمگلر جفری ایپسٹین، جو 2019 میں مشکوک حالات میں جیل میں مردہ پایا گی۔ اس نے ہی ٹرمپ اور ملانیا کا آپس میں تعارف کرایا تھا۔ 

ہنٹر بائیڈن نے اس انٹرویو میں ٹرمپ خاندان اور ایپسٹین کے درمیان تعلقات کو "انتہائی وسیع اور گہرے" قرار دیا۔ وہ امریکی صحافی مائیکل وولف کی کتاب "فائر اینڈ فیوری: انسائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس" کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کتاب 2018 میں شائع ہوئی تھی اور ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران وائٹ ہاؤس کے اندرونی حالات سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کے باعث امریکہ میں شدید ہلچل کا سبب بنی تھی۔

8۔ ٹرمپ کی متنازع مبارکباد:
وال اسٹریٹ جرنل نے حالیہ دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2003 میں جفری ایپسٹین کو اس کے 50ویں یومِ پیدائش پر ایک مبارکباد کارڈ بھیجا تھا، جس میں ایک نیم برہنہ عورت کی تصویر اور ایک طنزیہ پیغام شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس کارڈ میں مزید نامناسب مواد بھی موجود تھا۔ ٹرمپ نے اس پیغام میں لکھا تھا کہ ہمارے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں، جفری۔ انہوں نے آخر میں یہ بھی تحریر کیا کہ سالگرہ مبارک اور امید ہے کہ ہر دن ایک نیا حیران کن راز لے کر آئے۔

9۔ روسی حکام سے ملاقات کی پیشکش:
ڈیموکریٹ اراکینِ کانگریس کی جانب سے منظرِ عام پر لائی گئی ایک ای میل کے مطابق، ایپسٹین نے ایک سابق یورپی عہدیدار ثوربیورن یاگلاند (سابق سیکریٹری جنرل، کونسل آف یورپ) کو تجویز دی تھی کہ وہ ولادیمیر پوتن اور سرگئی لاوروف (روسی وزیر خارجہ) کو کہیں کہ وہ “ٹرمپ کو بہتر سمجھنے کے لیے” اس سے بات کریں۔ یہ ای میل 2018 میں ہلسنکی میں ٹرمپ پوتن ملاقات سے پہلے کی ہے۔ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ پیغام ٹرمپ اور روس کے درمیان تعلقات کے کئی پراسرار پہلوؤں میں سے ایک اور اہم اشارہ ہے۔

10۔ پردہ پوشی کی کوششیں:
امریکی میڈیا نے چند ماہ قبل رپورٹ کیا تھا کہ FBI کوشش کر رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر بااثر شخصیات کے نام ایپسٹین سے متعلق کچھ دستاویزات سے حذف کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ بھی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق امریکی محکمۂ انصاف نے ایپسٹین فائل سے کئی دیگر ناموں کو ہٹانے کی کوششیں کیں۔

متعلقہ مضامین

  • مشہور زمانہ کارٹون ’دی سمپسنز‘ کے مصنف چل بسے، وجہ موت سامنے آگئی
  • بچے میری ریڈلائن، جنسی استحصال اور تشدد قبول نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • ٹرمپ اور بچوں کا بدنام زمانہ جنسی اسمگلر، ہوشربا انکشافات
  • پانچ بچوں کی ماں نے نہر میں چھلانگ لگا دی
  • بچوں کے خلاف جرائم کا جڑ سے خاتمہ کر دیں گے: مریم نواز شریف
  • ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین
  • بچوں کا عالمی دن! مگر غزہ کے بچوں کے نام
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • پنجاب میں سیلاب اور اسموگ سے متاثرہ معصوم بچی عائشہ کی کہانی
  • سارے بچے من کے اچھے