WE News:
2025-11-16@05:19:28 GMT

سارے بچے من کے اچھے

اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT

بچے جب اسکول سے گھر لوٹے تو ان کے ہاتھوں میں کوری ماؤنٹ اسکول کا سہ ماہی رسالہ تھا۔ میں نے یونہی وقت گزاری کے لیے اس کے اوراق پلٹنے شروع کیے تو ایک اشتہار پر نگاہ ٹھہر گئی۔

اشتہار میں تحریر تھا:

’ذہنی اور جسمانی معذور بچوں کے لیے فوسٹر کیریئرز کی فوری ضرورت۔

تین ماہ کا مفت کریش پروگرام، اسمارٹ تنخواہ، اور تربیت کے اختتام پر روزگار کے مواقع۔‘

نیچے ایک رابطہ نمبر اور ادارے کا پتا درج تھا۔

دل میں تجسس جاگا، فوراً نمبر ملایا۔ دوسری جانب سے نہایت عجلت بھری آواز سنائی دی، جیسے انہیں واقعی فوری طور پر لوگوں کی ضرورت ہو۔ چند رسمی سوالات کے بعد اگلے ہی روز کے لیے میرا انٹرویو طے کر لیا گیا۔

دوسری صبح میں نے اپنی 2 سالہ بیٹی کو پرام میں بٹھایا اور وقتِ مقررہ پر دفتر پہنچ گئی۔ یہ ادارہ لیڈز سٹی کونسل کے ماتحت تھا، اور حیرت انگیز طور پر وہاں قریباً ایک چوتھائی ملازمین پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔

انٹرویو لینے والی خاتون بھی پاکستانی نژاد تھی۔ نرم گفتار، مگر نہایت پیشہ ور۔ انہوں نے میرے کاغذات دیکھے، چند رسمی سوالات کیے، اور مسکراتے ہوئے کہا:

’آپ کل سے ہی کورس جوائن کر سکتی ہیں۔ ہم آپ کی بچی کو ڈے کیئر میں شامل کر دیتے ہیں تاکہ آپ بآسانی اپنی تربیت مکمل کر سکیں۔‘

یوں اگلے ہی دن سے میرا 3 ماہ کا کریش پروگرام شروع ہوا۔ کورس کے دوران جو کچھ سکھایا گیا، وہ میرے لیے بالکل نیا اور کئی لحاظ سے چونکا دینے والا تھا۔ تربیت میں نہ صرف معذور بچوں کی جسمانی ضروریات، بلکہ ان کے نفسیاتی رویوں، سیکھنے کے انداز، سماجی شمولیت، اور والدین کی رہنمائی سے متعلق گہرے نکات شامل تھے۔

مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ذہنی و جسمانی معذور بچوں کی دیکھ بھال کس قدر پیچیدہ اور ذمہ دارانہ عمل ہے اور یہ کہ ریاست اس حوالے سے کس قدر منظم اور حساس ہے۔

تاہم جو بات سب سے زیادہ حیران کن تھی، وہ یہ حقیقت کہ برطانیہ میں پاکستانی نژاد خاندانوں میں معذور بچوں کی شرح دیگر نسلی گروہوں کے مقابلے میں خاصی زیادہ تھی۔

تربیت دینے والی ماہرین نے بتایا کہ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادیوں کا رواج، جینیاتی بیماریوں کی منتقلی، اور بعض اوقات صحت و تعلیم کی آگاہی کا فقدان شامل ہیں۔

یہ بات میرے لیے نہ صرف نیا انکشاف تھی بلکہ فکر انگیز بھی کہ ہماری برادری میں اس قدر اہم مسئلہ موجود ہے، مگر ہم میں سے بیشتر اس پر بات کرنے یا مدد حاصل کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

ان 3 مہینوں کی ٹریننگ اور پھر اس شعبے میں 2 سال وہاں ملازمت نے مجھے نیا سماجی شعور دیا۔

برطانیہ سے اسلام آباد واپسی پر میں نے ایک ایسے ادارے میں کام شروع کیا جو ذہنی یا سیکھنے میں دشواری رکھنے والے بچوں یعنی لرننگ وِد ڈس ایبلٹی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ غیر منافع بخش بنیادوں پر چل رہا تھا، اور یہاں ہر عمر، ہر طبقے اور مختلف سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے شامل تھے۔

کوئی بچہ آٹزم کا شکار تھا، کوئی ڈاؤن سنڈروم کا، کوئی مرگی سے نبرد آزما تھا تو کوئی ڈس لیکسیا سے، کسی کو بولنے یا سمجھنے میں دشواری تھی، اور کوئی ایسا تھا جو صرف تھوڑا سا پیار اور توجہ مانگتا تھا تاکہ وہ باقی دنیا کے ساتھ قدم ملا سکے۔

شروع کے چند دنوں میں ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ تجربہ برطانیہ میں گزارے گئے وقت سے بالکل مختلف ہونے والا ہے۔ برطانیہ میں میں نے دیکھا تھا کہ ریاست، معاشرہ، اور خود والدین تینوں ایک منظم دائرے میں مل کر کام کرتے ہیں۔

معذور بچے وہاں شرمندگی نہیں، ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔

اسکولوں میں خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ، ہر بچے کے لیے انفرادی تعلیمی منصوبے، نفسیاتی مشیر، اسپیچ تھراپسٹ، آکیوپیشنل تھراپی اور سرکاری سطح پر فراہم کی جانے والی مالی معاونت، سب ایک مربوط نظام کا حصہ ہیں۔

حتیٰ کہ فوسٹر کیریئرز اور رضاکار تنظیمیں بھی ریاستی نگرانی میں کام کرتی ہیں تاکہ کسی بھی بچے کو محرومی یا تنہائی کا احساس نہ ہو۔

لیکن پاکستان لوٹنے کے بعد منظر بالکل مختلف تھا۔ یہاں ایسے بچوں کے ساتھ معاشرہ نہیں، بلکہ بے حسی چلتی ہے۔ اکثر والدین خود اپنے بچوں کو گھروں میں چھپا لیتے ہیں کہ کہیں لوگ کیا کہیں گے۔ کئی اسکول ایسے بچوں کو داخلہ دینے سے صاف انکار کر دیتے ہیں، اور جو ادارے ان کے لیے کام کر رہے ہیں وہ وسائل، تربیت یافتہ عملے، اور ریاستی توجہ، تینوں سے محروم ہیں۔

یہاں معذوری کو اب بھی عیب سمجھا جاتا ہے، بیماری نہیں۔ ایک بچے کی مشکل، پورے خاندان کی شرمندگی بن جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مسئلہ صرف سہولتوں کا نہیں، رویے کا بھی ہے۔

جہاں برطانیہ میں فوسٹر کیریئرز کو تربیت، مالی امداد اور سماجی احترام حاصل ہوتا ہے، وہیں پاکستان میں ایسے کام کرنے والے افراد کو قابل قدر سمجھنے کے بجائے تضحیک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ والدین کو بھی نہ رہنمائی ملتی ہے، نہ نفسیاتی سپورٹ۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے بچے جو درست تھراپی یا رہنمائی سے عام زندگی گزار سکتے ہیں، وہ عمر بھر محرومی اور سماجی تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔

برطانیہ میں کام کرتے ہوئے میں نے سیکھا تھا کہ معذوری انسانی کمزوری نہیں، بلکہ سماجی نظام کا امتحان ہے اور وہ نظام جو اپنے کمزور ترین فرد کا خیال رکھتا ہے، دراصل سب سے مضبوط ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں ہم نے اس امتحان میں خود کو اب تک تیار ہی نہیں کیا۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ مریم نواز نے کئی ذہنی و جسمانی معذور افراد کے لیے ادارے بنا کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔

لیکن ابھی بھی ملک میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معذوریوں کی وجوہ پر بھی بات کرنی چاہیے۔

اس کی سب سے اہم وجہ قریبی رشتہ داروں کی آپس میں شادیاں ہیں جو بچوں میں ڈاؤن سنڈروم، تھیلیسیمیا، مائیکرو سیفلی، آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر، اور بعض دیگر نیورولوجیکل بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔

دوسری بڑی وجہ دوران حمل کے دوران ماں کی غیر متوازن غذا، فولک ایسڈ یا آئرن کی کمی، یا کسی انفیکشن (مثلاً روبیلا، ٹاکسوپلاسموسس، زیکا وائرس) کا اثر بچے کی دماغی یا جسمانی نشوونما پر پڑتا ہے۔ دورانِ حمل تمباکو نوشی، الکحل یا ادویات کا بے جا استعمال بھی بچے کے دماغی خلیوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ بلڈ پریشر، ذیابطیس، یا تھائیرائڈ جیسے امراض اگر ماں میں قابو میں نہ رہیں تو بچے کی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔

وقت سے پہلے پیدا ہونا یا بچے کا وزن کم ہونا۔

پیدائش کے دوران دماغ میں آکسیجن کی کمی۔

زچگی میں تاخیر، یا غلط ڈلیوری کا طریقہ بھی دماغی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

بچپن کے امراض اور حادثات

میننجائٹس (دماغی جھلیوں کی سوزش) یا (دماغی سوزش) دماغ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

سر کی چوٹ، غیر متوازن غذا یا وٹامنز کی کمی بھی مستقل جسمانی یا ذہنی معذوری کا باعث بن سکتی ہے۔

سماجی عوامل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے جس میں غربت، والدین کی ناخواندگی، اور صحت کی سہولتوں تک محدود رسائی۔ نفسیاتی دباؤ، گھریلو تشدد یا غفلت بچوں کے ذہنی توازن پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔

ابتدائی تعلیم یا سماجی میل جول کی کمی بھی سیکھنے میں دشواری کا باعث بن سکتی ہے۔

ہمیں معذوری کو جرم یا شرم نہیں بلکہ ایک انسانی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔

اگر ہم نے اپنی سماجی ترجیحات میں ان بچوں اور ان کے والدین کے لیے جگہ نہ بنائی تو ہم ایک ایسا معاشرہ بن جائیں گے جہاں ذہنی یا جسمانی معذوری سے زیادہ خطرناک چیز احساسِ تنہائی ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

wenews احساس ذمہ داری بچے بحالی کے ادارے برطانیہ پاکستان معذوری وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بچے بحالی کے ادارے برطانیہ پاکستان وی نیوز برطانیہ میں معذور بچوں سکتی ہے کے لیے کی کمی کام کر

پڑھیں:

تربیت و حقوق اطفال کے اسلامی احکامات

اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جو رحمت عطا فرمائی اس کا حصہ بچوں نے بھی پایا بلکہ ’’چھوٹے‘‘ ہونے باوجود ’’بڑا‘‘ حصہ پایا۔ انتہائی اختصار و جامعیت سے چند باتیں لکھی جا رہی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ہمیں بچوں کے بارے میں قرآن و سنّت رسول کریم ﷺ سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟

اسلام نے کبھی بھی بھوک و افلاس کے خوف سے بچوں کی پیدائش پر سختی نہیں کی بلکہ قرآن کریم میں ایسا کرنے والوں کی پرزور طریقے سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور انسان کو تسلی دی ہے کہ ان کے روزی کے اسباب ضرور اپنائے لیکن روزی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے ان کی اور ہماری روزی کا ذمہ خود لیا ہے اور اﷲ رب العزت جس بات کو احساناً اپنے ذمہ لے لیں تو اس میں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم:

 ’’اور تم اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے مار مت ڈالو ہم انھیں بھی اور تمھیں بھی رزق دیتے ہیں۔ یقیناً ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ ( سورۃ الاسراء)

بچوں کی دنیاوی تربیت کے ساتھ مذہبی تربیت کرنا بھی ان کے بنیادی حقوق میں سے ہے اور بچے اس کو جلد قبول کرتے ہیں بہ شرطے کہ انھیں تربیت کا ماحول دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش فطرت کے مطابق ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔‘‘ (البخاری)

اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی فطرت اور جبلت میں اسلام موجود ہوتا ہے اگر ان کو اسلامی احکامات و آداب سے رُوشناس کرایا جائے تو وہ اسے جلد قبول کر لیتے ہیں۔ حضرت حسینؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں کلمات اذان اور بائیں کان میں کلمات اقامت کہے اس کی وجہ سے ام الصبیان (یہ ایک بیماری کا نام ہے جس میں بچہ سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے) نہیں لگے گی۔‘‘ (عمل الیوم واللیلۃ)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس چھوٹے بچوں کو لایا جاتا آپؐ ان کو برکت کی دعا دیتے اور انھیں گھٹی دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)

رسول اﷲ ﷺ نے (بچے کی پیدائش کے) ساتویں دن (اس بچے) کا نام رکھنے، اور اس سے تکلیف دہ چیزوں (بال، ناخن، ختنے کی چمڑی وغیرہ) کو دور کرنے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔(جامع الترمذی)

حضرت ابُو وہب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’نبیوں والے نام رکھو اﷲ کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداﷲ، عبدالرحمٰن ہیں۔ (سنن ابی داؤد)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ عزوجل کے ہاں سب سے محبوب اور پسندیدہ نام عبداﷲ اور عبدالرحمٰن ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)

یہ بات بھی یاد رکھیں کہ نام اچھا ہو، انبیاء کرامؑ، صحابہؓ، صحابیاتؓ اور نیک لوگوں والا نام ہو۔ نام کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اس لیے اچھے نام والے میں برکات ہوں گی اور جس کا نام اچھا نہیں ہوگا اس میں برکات بھی نہیں ہوں گی۔ اچھے ناموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نام وزنی اور بھاری ہے بچہ اس کو اٹھا نہیں سکے گا یا یہ نام رکھنے کی وجہ سے بچہ بیمار رہتا ہے۔ یہ سراسر غلط بات ہے، اچھے نام بالخصوص انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ والے ناموں میں برکت ہوتی ہے جس کی برکات بچے میں بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان ناموں کو وزنی کہنا غلط ہے اور ان کی وجہ سے بچوں کو بیمار بتلانا بھی انتہائی معیوب بات ہے۔

حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس بکری کے خون کو بچے کے سر پر مَلتا اس کے بعد جب اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا تو ہم ایک بکری ذبح کرتے اور بچے کے سر کو مونڈاتے ہیں اور اس پر زعفران مل دیتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد)

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں یہ (دودھ پلانے والا حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔‘‘ ( سورۃ البقرۃ)

حضرت ا بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بچوں کو سب سے پہلے کلمہ (لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) سکھلاؤ۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

حضرت وہب بن کیسانؒ سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن ابی سلمہؓ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں آپ ﷺ کی زیر تربیت تھا (ایک دن میں آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا) اور میرا ہاتھ سالن والے برتن میں گھوم رہا تھا (جیسا کہ عام طور پر بچوں کی عادت ہوتی ہے اپنے سامنے سے بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے سے بھی چیزیں اٹھا لیتے ہیں) تو مجھے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے بچے! بسم اﷲ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (صحیح البخاری)

اس حدیث مبارک میں تین باتیں سکھائی جا رہی ہیں کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اﷲ پڑھنی چاہیے، دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے۔

ابُو رافع بن عمرو الغفاری رضی اﷲ عنہ کے چچا سے مروی ہے کہ جب میں بچہ تھا ان دنوں میں انصار کی کھجور توڑ رہا تھا مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے بچے! تم (بغیر اجازت) کیوں کھجور توڑ رہے تھے؟ تو میں نے کہا کہ اپنے کھانے کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (کسی کی کھجور) مت توڑو۔ ہاں! جو نیچے گری ہوئی ہیں ان کو کھا لو۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے یہ دعا دی: اے اﷲ! اس کے پیٹ کو سیر کر دے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)

حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب اولاد سات سال کی ہو جائے تو ان کو نماز پڑھنے کا کہو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں پھر بھی نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کردو۔‘‘

 (سنن ابی داؤد)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے تھا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے بچے! میں تجھے چند (عقیدے کی) باتیں سکھلاتا ہوں: اﷲ کے دین کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تیری حفاظت کرے گا۔ اﷲ کے احکام کی حفاظت کر تو اسے اپنا مددگار پائے گا جب تو مانگے تو اﷲ ہی سے مانگ اور جب تجھے مدد کی ضرورت ہو تو اﷲ سے مانگ اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ اگر سارے لوگ مل کر تجھے نفع دینا چاہیں تو وہ تجھے نہیں دے سکتے جتنا اﷲ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ اکٹھے ہوجائیں اور تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر جتنا اﷲ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، تقدیر لکھنی والی قلموں کو اٹھا لیا گیا اور صحائف خشک ہوچکے ہیں۔ (جامع الترمذی)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’گھر میں کوڑا اس طرح لٹکاؤ کہ وہ اسے دیکھتے رہیں یہ ان کو ادب سکھلانے کے لیے ہے۔‘‘

 (یعنی کہ سرزنش بھی ہو سکتی ہے)

 (المعجم الکبیر للطبرانی)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چیزیں دینے میں اپنی اولاد میں برابری کا معاملہ کرو۔ (صحیح البخاری)

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’اپنے آپ پر بددعا نہ کرو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو اور نہ ہی اپنے خدمت کرنے والوں کو بددعا دو اور نہ اپنے مالوں پر بددعا کرو بعض اوقات اﷲ کی طرف سے قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے تو وہ بددعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

بعض لوگوں جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے معمولی باتوں پر بچوں کو بددعائیں دیتی ہیں، انھیں اس حدیث مبارک سے سبق لینا چاہیے۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے بچوں کو بلکہ ہماری نسلوں کو ایک اچھا مسلمان اور ایک اچھا شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • حکمران نظریہ پاکستان سے مسلسل انحراف کر رہے ہیں‘ اسلم فاروقی
  • فیروز خان ہر ماہ بچوں کی کفالت کے لیے دو لاکھ روپے ادا کرتے ہیں
  • گلگت، پاک فوج کے زیر اہتمام پانچ روزہ نیشنل سکیورٹی ورکشاپ
  • افغانستان: بچوں کی غذائی قلت کی سنگین صورتحال، یونیسیف کا انتباہ
  • افغانستان میں بچوں کی غذائی قلت انسانی المیہ کی دہلیز پر
  • جیل بھروں تحریک شروع کرکے انقلاب لایا جاسکتا‘اسلم فاروقی
  • بدین: بچوں کا تحفظ ہماری مشترکہ ذمے داری ہے کے عنوان سے سیمینار
  • ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک
  • تربیت و حقوق اطفال کے اسلامی احکامات