مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف حکومتی اپیل مسترد کرنے کا کیس،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ سامنے آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف حکومتی اپیل مسترد کرنے کے کیس میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ سامنے آ گیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ کہ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں،تینوں درخواستیں 9جولائی 2024کے فیصلے کیخلاف دائر ہوئیں،اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 23ستمبر کے تفصیلی فیصلے پر اضافی درخواستیں جمع کرائیں،تمام دلائل پہلے ہی تفصیلی فیصلے میں نمٹائے جا چکے ہیں،وکلا نے مقدمہ دوبارہ دلائل کے ذریعے کھولنے کی کوشش کی۔
دوستیوں کے رنگ بدلتے ہیں۔۔۔
اختلافی نوٹ میں ججز کاکہناتھا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نیا مقدمہ نہیں کھولا جا سکتا، صرف واضح قانونی غلطی والے فیصلے نظرثانی کے قابل ہوتے ہیں،معمولی بے ضابطگی یا اختلاف رائے نظرثانی کی بنیاد پر نہیں بن سکتا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: اختلافی نوٹ
پڑھیں:
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا چیف جسٹس کے نام تنقیدی خط سامنے آگیا
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام ایک تنقیدی خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے بطور فیصلہ کنندہ استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی طرف سے لکھے گئے خط کی کاپیاں سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ خط فل کورٹ میٹنگ کے بعد تحریر کیا گیا، جس میں عدلیہ کے نظام میں مصنوعی ذہانت کے ممکنہ کردار پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے ایک طرف قانون، دوسری طرف بندوق، سب کو معلوم ہے آرڈرز کہاں سے آرہے ہیں، جسٹس سردار اعجاز
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے اپنے خط میں کہا کہ دنیا بھر میں عدلیہ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بحث جاری ہے، مگر اس کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ چونکہ AI programmable ہوتی ہے، اس لیے روبوٹ یا کمپیوٹر ججز اپنے فیصلوں میں خودمختار رائے قائم نہیں کر سکتے۔
انہوں نے لکھا کہ ایسے روبوٹ یا کمپیوٹر ججز کے فیصلے ہمیشہ ان پروگراموں کے تابع ہوں گے جو انہیں وقتاً فوقتاً فیڈ کیے جائیں گے، اور اس طرح وہ انسانی ضمیر، اخلاقی بصیرت اور آزادانہ عدالتی سوچ سے محروم رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بینچز کی تبدیلی کو لے کر ججوں کے درمیان کیا تنازع چل رہا ہے؟
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے خط میں انکشاف کیا کہ وہ ماضی میں اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے تھے، تاہم فل کورٹ میٹنگ کے بعد ان کا نقطۂ نظر تبدیل ہو گیا ہے۔ اب وہ مصنوعی ذہانت کو عدلیہ میں بطور فیصلہ کنندہ استعمال کرنے کے مخالفین کے ساتھ متفق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے پر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی اختلافی آراء سے بھی اتفاق کرتے ہیں۔
عدالتی ذرائع کے مطابق اس خط نے اعلیٰ عدلیہ کے اندر ایک نئی فکری بحث کو جنم دے دیا ہے، جس میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کو انصاف کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے، اور اگر ہاں تو انسانی عدالتی خودمختاری کو کیسے برقرار رکھا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیفیشل انٹیلی جنس جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان چیف جسٹس سرفراز ڈوگر