کیا پاکستان میں ویپنگ، ای سگریٹ پر پابندی لگنے والی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
ملک میں ای سگریٹ، ویپ اور ای شیشے جیسے الیکٹرانک نکوٹین مصنوعات کا رجحان خاص طور پر نوجوانوں اور کالج، یونیورسٹی کے طلبہ میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مختلف سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد میں ویپنگ کا استعمال گزشتہ 5 سالوں میں دوگنا ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے‘: ای سگریٹ گلے پڑگئی، بچے بھی لت میں مبتلا
سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوب ویڈیوز کے ذریعے نوجوانوں میں اسے ایک ’ فیشن‘ اور ’کم نقصان دہ متبادل‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جو درحقیقت ایک خطرناک تاثر ہے۔
نئی قانون سازی کی تیاریای سگریٹ اور ویپ کے بڑھتے ہوئے استعمال اور نوجوانوں میں ان کے فروغ پر قابو پانے کے لیے ایک اہم قانون سازی ہونے جا رہی ہے۔
سینیٹر سرمد علی نے سینیٹ سیکرٹریٹ میں بل جمع کرایا ہے، جس کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کو ان مصنوعات کی فروخت کو سختی سے روکا جائے گا۔
بل میں کیا ہے؟سینیٹر سرمد علی کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو ای سگریٹ، ویپ یا ای شیشہ فروخت کرنا قانونی جرم ہوگا۔
الیکٹرانک نکوٹین مصنوعات کا پیکٹ محفوظ، غیر چھیڑ چھاڑ شدہ ہوگا، اور اس پر واضح طور پر درج ہوگا کہ یہ 18 سال سے کم عمر کے لیے نہیں اور اس میں شامل اجزاء نشہ آور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسکول جانے والے بچوں میں نیکوٹین پاؤچز اور ای سگریٹ کا بڑھتا رجحان، یہ کتنے خطرناک ہیں؟
بل کے مطابق کوئی بھی فرد پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کی منظوری کے بغیر یہ مصنوعات درآمد، تیار یا فروخت نہیں کر سکے گا۔
تعلیمی اداروں کے 50 میٹر کے اندر فروخت کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ تشہیر، اسپانسرشپ اور پروموشن پر مکمل پابندی عائد ہوگی، چاہے یہ تشہیر بل بورڈ پر ہو یا سوشل میڈیا پر۔
بل میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والے کو پہلی بار 50 ہزار روپے جرمانہ، جبکہ دوبارہ جرم پر ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ کیا جائے گا۔
ای سگریٹ اور ویپ کے نقصاناتماہرینِ صحت کے مطابق ای سگریٹ اور ویپ میں شامل نکوٹین دماغ کی نشوونما پر اثرانداز ہوتی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ ویپنگ کے ذریعے پھیپھڑوں میں کیمیکل بخارات داخل ہوتے ہیں، جو سانس کی بیماریوں، الرجی، اور حتیٰ کہ ’پاپ کارن لنگ ڈیزیز‘ جیسے امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔
بعض ویپ کارٹریجز میں نکوٹین کے علاوہ کینسر پیدا کرنے والے کیمیکل بھی پائے گئے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ خیال کہ ویپ یا ای سگریٹ روایتی سگریٹ سے کم نقصان دہ ہیں، ایک خطرناک مغالطہ ہے۔
پاکستان میں ویپنگ کا پھیلاؤپاکستان میں ویپنگ مصنوعات کی فروخت کا کوئی باقاعدہ ڈیٹا موجود نہیں، لیکن اندازہ ہے کہ صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں لاکھوں نوجوان ویپ یا ای شیشہ استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانی خواتین میں ای سگریٹ کا بڑھتا رجحان، اس کے نقصانات کیا ہیں؟
ان میں لڑکیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ آن لائن شاپنگ اور غیر رجسٹرڈ اسٹورز کے ذریعے ان مصنوعات تک رسائی انتہائی آسان ہو چکی ہے۔
ماہرینِ صحت کا مؤقفماہرِ صحت ڈاکٹر عائشہ سعید کے مطابق یہ قانون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویپنگ نے نوجوان نسل کو خاموشی سے نشے کی لت میں دھکیلنا شروع کر دیا ہے، جو بعد میں سگریٹ یا دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔
اس بل کے پیش ہونے سے پاکستان ویپنگ سے متعلق قوانین بنانے والے چند ایشیائی ممالک میں شامل ہو گیا ہے، لیکن اصل چیلنج اس قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک آن لائن فروخت، درآمدات اور سوشل میڈیا پر تشہیر پر سخت نگرانی نہ کی جائے، تب تک ویپنگ کے پھیلاؤ کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکٹرانک نکوٹین ای سگریٹ شیشہ صحت ویپنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکٹرانک نکوٹین ای سگریٹ ویپنگ پاکستان میں میں ویپنگ کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
امریکا نے پاکستان کو جدید ترین میزائل نظام کی فروخت کے عالمی منصوبے میں شامل کر لیا۔
امریکا نے پاکستان کو جدید ترین میزائل نظام کی فروخت کے عالمی منصوبے میں شامل کر لیا ۔امریکی محکمہ برائے جنگ خاموشی سے پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جو ریتھیون کمپنی کے جدید اے آئی ایم-120سی8/ڈی3 میزائل خرید رہے ہیں۔میڈیارپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایک معاہدے میں 41.68 ملین ڈالر کی توسیع کے تحت کیا گیا ہے، جو پہلے سے موجود 2.51 ارب ڈالر کے معاہدے کا حصہ ہے۔ یہ معاہدہ امریکا کے کئی اتحادی اور غیر اتحادی ممالک کے ساتھ کیا گیا ہے جن میں جاپان، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور پاکستان شامل ہیں۔فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کو کتنے نئے میزائل فراہم کیے جائیں گے، تاہم اس پیش رفت سے عندیہ ملتا ہے کہ پاکستان اپنے ایف-16 طیاروں کو جدید بنانے کے عمل کا آغاز کر رہا ہے۔واضح رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ، پاک فضائیہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ تردیدی یا تصدیقی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ وہی ایف-16 طیارے ہیں جو پاکستان نے 7-2006 میں پیس ڈرائیو پروگرام کے تحت امریکا سے حاصل کیے تھے۔ اس وقت پاکستان کو 500 اے آئی ایم-120سی5 میزائل بھی فراہم کیے گئے تھے۔نیا اے آئی ایم-120سی8 میزائل، اے آئی ایم-120ڈی کا برآمدی ورژن ہے، جو فی الحال امریکی فضائیہ کا سب سے جدید ایئر ٹو ایئر (فضا سے فضا میں مار کرنے والا) میزائل ہے۔ ریتھیون کمپنی نے اس ماڈل کی جانچ 2023 میں شروع کی تھی اور اب تک یہ امریکا کے متعدد اتحادی ممالک کے لیے آرڈر کیا جا چکا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ابتدائی معاہدہ ممکنہ طور پر انتظامی اور تربیتی مراحل سے متعلق ہے، لیکن یہ اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ امریکا پاکستان کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لئے دوبارہ تیار ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جولائی 2025 میں پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کا دورہ کیا تھا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، اسی ملاقات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر یہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔امریکی محکمہ جنگ کے مطابق، یہ منظوری دراصل 41.6 ارب ڈالر کے ایک عالمی منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت 30 سے زائد اتحادی ممالک کو یہ جدید میزائل فراہم کئے جائیں گے۔ اس منصوبے کا مقصد مغربی ممالک کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو ایک مشترکہ معیار پر لانا ہے تاکہ نیٹو اور انڈو پیسیفک ممالک کے درمیان فضائی تعاون مضبوط ہو۔یہ معاہدہ 2030 تک مکمل کیا جائے گا اور اس دوران ان میزائلوں کی پیداوار اور ترسیل جاری رہے گی۔رپورٹ کے مطابق امریکی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام عالمی سطح پر بدلتی ہوئی کشیدگیوں، خاص طور پر روس، چین، اور مشرقی یورپ کے حالات کے تناظر میں کیا گیا ہے تاکہ امریکا اور اس کے اتحادی تکنیکی برتری برقرار رکھ سکیں۔