غزہ میں قیام امن کی راہ ہموار
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
جرمن چانسلر کا غزہ میں جنگ بندی کا خیرمقدم، امن منصوبے پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اسرائیل نے غزہ معاہدے کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی ہے ٹرمپ کی نظریں نوبل امن انعام پر
جرمن چانسلر کا غزہ میں جنگ بندی کا خیرمقدم، امن منصوبے پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے غزہ پٹی میں طے پانے والی جنگ بندی کو ’’مشرق وسطیٰ کے عوام اور مستقبل کے لیے خوش آئند خبر‘‘ قرار دیا ہے۔
اس جنگ بندی ڈیل کی بدولت غزہ میں گزشتہ دو سال سے جاری مسلح تنازعے کا خاتمہ ہو سکے گا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک سلسلہ وار پوسٹ میں میرس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ان کے امن منصوبے پر شکریہ ادا کیا اور قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی کوششوں کی ستائش کی اور ساتھ ہی اسرائیل کی طرف سے ’’امن کی راہ کھولنے‘‘ پر اظہار تشکر بھی کیا۔
(جاری ہے)
میرس نے کہا کہ اب اولین ترجیح معاہدے پر فوری عمل درآمد ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’یرغمالیوں، جن میں جرمن شہری بھی شامل ہیں، کو آخر کار اپنے خاندانوں کے پاس واپس آنا چاہیے۔ جنگ بندی نافذ ہونا چاہیے اور برقرار رہنا چاہیے اور امداد جلد از جلد غزہ کے عوام تک پہنچنا چاہیے۔‘‘
میرس نے مزید کہا کہ جرمنی 29 ملین یورو کی اضافی امداد فراہم کرے گا، مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیرنو کے لیے ایک کانفرنس کی میزبانی بھی کرے گا اور ٹرمپ کی تجویز کردہ امن کونسل میں بھی شریک ہو گا۔
جرمن چانسلر میرس نے کہا، ’’جرمنی اسرائیل کے وجود اور سلامتی کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن اور تحفظ کے ماحول میں ساتھ ساتھ رہنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
غزہ میں قیام امن کی راہ ہمواراسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ کابینہ نے غزہ معاہدے کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی ہے، جو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی راہ ہموار کرے گا۔
سرکاری بیان کے مطابق، اس اقدام کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور فائر بندی کے لیے عملی اقدامات آئندہ دنوں میں شروع کیے جائیں گے۔ یہ پیش رفت دو سال سے جاری غزہ تنازعے کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم قرار دی جا رہی ہے۔
اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی شامل ہے، جبکہ بعد کے مراحل میں حماس کے بعد کے دور میں غزہ پٹی کی حکمرانی پر توجہ دی جائے گی۔
یہ معاہدہ جزوی طور پر امریکہ کی ثالثی سے طے پایا، جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں طے شدہ لائن تک انخلا شامل ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جرمن چانسلر کے لیے کی راہ
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کے بعد امارات اور اسرائیل کے امن ریلوے منصوبے پر کام تیز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایک اور بڑی پیش رفت سامنے آگئی ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے مبینہ طور پر امن ریلوے کے نام سے جاری ریلوے راہداری منصوبے کی تعمیر پر غیر معمولی تیزی سے کام شروع کردیا ہے، اس منصوبے کو خطے میں تجارتی راستوں کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ راہداری دراصل ایک بڑے اسٹریٹیجک ریلوے نیٹ ورک کا حصہ ہے جس میں نہ صرف ریل کی پٹڑیاں شامل ہوں گی بلکہ ساتھ ساتھ مواصلاتی کیبلز، پائپ لائنز اور توانائی کی ترسیلی لائنوں کا وسیع انفراسٹرکچر بھی بچھایا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ متعدد مقامات پر انفراسٹرکچر فائنل مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جبکہ کئی حصے مکمل بھی کرلیے گئے ہیں، منصوبے کی رفتار بڑھانے کی ایک بڑی وجہ بحیرہ احمر میں حوثی لڑاکوں کے حملے ہیں، جن کی وجہ سے اسرائیل آنے والے تجارتی جہازوں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے اسرائیل نے بھارت، عرب ریاستوں اور یورپ تک ایک متبادل زمینی و بحری راستہ ترتیب دیا ہے۔
اس نئے روٹ کے مطابق بھارتی بندرگاہ مندرا سے سامان پہلے متحدہ عرب امارات پہنچے گا، جہاں سے اسے سعودی عرب اور اردن کے راستے ٹرکوں کے ذریعے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ منتقل کیا جائے گا، بعد ازاں یہ اشیا یورپی اور امریکی منڈیوں تک برآمد ہوں گی۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِ ٹرانسپورٹ میری ریگیو ایک خفیہ دورے پر ابوظہبی پہنچیں جہاں اسرائیلی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے تکنیکی ماہرین نے بھی منصوبے کا براہِ راست جائزہ لیا۔ اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ فرانس اور ترکیہ ایک متبادل تجارتی راہداری تشکیل دینے پر غور کر رہے ہیں جو اردن سے شام اور پھر لبنان کی بندرگاہ تک جائے گی۔ اگر یہ راستہ فعال ہوگیا تو اسرائیل خطے کی بڑی معاشی دوڑ سے باہر ہوسکتا ہے۔
امارات، سعودی عرب اور بھارت پہلے ہی اس منصوبے پر عملی پیشرفت کر چکے ہیں جبکہ اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران سفارتی روابط منجمد کرکے اپنے لیے مشکلات بڑھا دی تھیں۔ اب اسرائیل دوبارہ اس منصوبے میں جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ راہداری اس کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
دونوں ملکوں نے ٹرانزٹ اور کنیکٹیویٹی امور کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ انتظامی ادارہ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، تاہم اس کی پیش رفت خفیہ رکھی جارہی ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جلدی خراب ہونے والی اشیا چند گھنٹوں میں اسرائیل پہنچ سکیں گی بشرطیکہ سعودی عرب اور امارات رستہ کھلا رکھیں۔