حضرت فاطمہؑ کا پوشیدہ مزار اور غیبت و قیام امامؑ زمانہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے مزار کی پوشیدگی کے مختلف پہلو الگ الگ نہیں بلکہ باہم مربوط اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والے ہیں۔ ان کی وصیت بیک وقت ایک سیاسی احتجاج بھی تھی اور ایک حفاظتی اقدام بھی۔ یہ احتجاج بعد ازاں شیعی ایمان کے امتحان اور انسان و عدالتِ موعود کے درمیان رشتہ بن کر ظاہر ہوا۔ یوں یہ تمام تہیں مل کر ایک جاودانی گواہی بن جاتی ہیں، ایسی گواہی جو تاریخ کے ضمیر کو ہمیشہ کے لیے چیلنج کرتی ہے۔ ایام فاطمیہؑ کی مناسبت سے (تسنیم نیوز ایجنسی کا ثقافتی تجزیہ)
حضرت فاطمہ زہراؑ کی وصیت بیک وقت ایک سیاسی احتجاج اور عجیب اقدام تھی، ایک ایسا عمل جو ایمان کے امتحان اور مستقبل کی عدالت کے ساتھ مقدس رشتہ جوڑنے کی علامت ہے۔ ان تمام معنوی و تاریخی پرتوں کے اندر ایسی مظلومیت اور فریاد پوشیدہ ہے جو پوری تاریخ کو ہمیشہ کے لیے چیلنج کرتی رہیگی۔ ادیان و سماجی تحریکوں کی تاریخ میں کسی مقدس مقام کو پوشیدہ رکھنا عام طور پر اس سے جڑے وقعات کو فراموش کر دینے کی کوشش سمجھا جاتا ہے، مگر حضرت فاطمہ زہراؑ کے مزار کے معاملے میں یہ پوشیدگی اسلامی تاریخ کی سب سے عمیق اور پُرمعنی علامتی احتجاج کی مستقل شکل اور مزاحمت کی علامت ہے۔ حضرت سیدہ الصدیقہؑ کا مخفی مزار اہلِ تشیع سمیت ہر مسلمان کے اجتماعی شعور میں ایک گہرے، تہہ دار اور مؤثر وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قبر جو نگاہوں سے اوجھل ہے، تاریخ، فکر اور دلوں میں زندہ اور گویا ہے۔
پوشیدگی کی وصیت سیاسی و تاریخی احتجاجی دستاویز:
قبرِ مبارک کے پُراسرار اور پوشیدہ رہنے کی سب سے معتبر بنیاد خود حضرت فاطمہؑ کی وصیت ہے۔ متعدد روایات مثلاً ارشاد القلوب اور بحارالانوار تفصیل سے بیان کرتی ہیں کہ حضرت سیدہؑ نے امیرالمؤمنینؑ کو وصیت فرمائی کہ ان کی تدفین رات کے وقت کی جائے اور دشمنوں و غیروں سے پوشیدہ رکھی جائے۔ یہ وصیت محض ایک نجی خواہش نہیں تھی، بلکہ ایک سوچا سمجھا اقدام، ایک سیاسی بیانیہ اور تاریخی سند تھی، جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک واضح پیغام رکھتی تھی۔
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے مزار کو پوشیدہ رکھنے کے فیصلے کے ذریعے اس وقت کی مقتدرہ اور حکومتی ڈھانچے کے خلاف کھلا احتجاج کیا۔ وہ اپنے آخری ایام میں خلافت کے غصب کیے جانے، فدک کے ضبط کیے جانے، اور اپنے گھر پر حملے جیسے واقعات کی گواہ تھیں۔ چنانچہ خفیہ تدفین ان کا آخری اعلان تھا کہ وہ ان حکمرانوں کی مشروعیت کو تسلیم نہیں کرتیں جنہوں نے اہلِ بیتِ رسول ﷺ پر ظلم کیا۔
یہ عمل دراصل ظلم کے نظام کے خلاف ابدی بائیکاٹ تھا، ایسا بائیکاٹ جس نے حتیٰ کہ موت کے بعد بھی ظالموں کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ ان کے جنازے میں شرکت کر کے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کر سکیں۔
مظلومیت، ایک ابدی سوالیہ نشان:
حضرت سیدہؑ نے اپنی مظلومیت کو ایک ابدی سوالیہ نشان میں بدل دیا۔ ایک ظاہر و شاندار مزار وقت گزرنے کے ساتھ تقدس کی چادر میں لپٹ کر اصل سانحے کو بھلا سکتا تھا، مگر ایک پوشیدہ قبر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔ ہر مسلمان اور ہر مؤرخ جب صدرِ اسلام کی تاریخ پڑھتا ہے، تو یہ سوال اس کے سامنے ضرور آتا ہے کہ "پیغمبر اسلام ﷺ کی بیٹی، جو سب سے زیادہ محبوب و محترم تھیں، کیوں خفیہ طور پر دفن کی گئیں؟
یہ پُراسرار پوشیدگی حضرت سیدہؑ کی مظلومیت کو تاریخی فراموشی سے محفوظ رکھتی ہے اور اسے ایک زندہ سوال میں بدل دیتی ہے، ایسا سوال جو ہر دور کے انسان کو دوبارہ سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
مخفی مزار کی تقدیر کا مستقبل کی تاریخ سے تعلق:
اس موضوع کے متعدد آخرالزمانی پہلو اسے ایک محض تاریخی واقعہ سے اٹھا کر زندہ پیشگوئی اور حکومتِ عدلِ مهدوی کا لازمی حصہ بنا دیتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کا یہ پوشیدہ مزار، دراصل منجیِ آخرالزمان امام مهدیؑ کے ظہور سے گہرا تعلق رکھتا ہے اور اس مزار کا آشکار ہونا، قیام امام مہدی علیہ السلام کے سب سے نمایاں اور علامتی اقدامات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
امام زمانہؑ جب الٰہی عادلانہ حکومت قائم کرنے کے لیے قیام فرمائیں گے تو سب سے پہلے اپنے اہلِ بیتؑ کے پامال شدہ حقوق کی بازیابی فرمائیں گے۔ روایات کے مطابق، ظہور کے دن امامؑ کے اولین اقدامات میں سے ایک یہ ہوگا کہ وہ اپنی جد، حضرت فاطمہ زہراؑ کے لیے دوبارہ ایک شاندار تشییع و تدفین انجام دیں گے، جو تمام مظالم کے ازالے اور دورِ احقاقِ حق کے آغاز کی علامت ہوگا۔
ابتدائی طور پر رات کی تدفین اور قبر کا مخفی رہنا، اس وقت باطل کے عارضی غلبے کی نشانی تھا، جبکہ ظہور کے زمانے میں قبر کا ظاہر ہونا حق کے دائمی اور قطعی غلبے کی علامت بن جائے گا۔ دوسری طرف، یہ عمل ایک عالمگیر پیغام بھی رکھتا ہے۔ جب امام زمانہؑ، جو تمام انسانیت کے رہبر ہیں اور ہوں گے، اپنی جد حضرت فاطمہ زہراؑ کے لیے عالمی سطح پر مراسمِ تدفین انجام دیں گے، تو وہ پوری دنیا کو یہ دکھائیں گے کہ ان کی قائم کردہ حکومت دراصل حکومتِ علوی ہی کا تسلسل ہے، وہی حکومت جو ابتدا میں دخترِ پیامبرؐ کے حقوق ادا نہ کر سکی، مگر اب پوری شان و شوکت کے ساتھ عدلِ فاطمی کو بحال کرے گی۔
یہ عمل امامؑ کی حکومت کو ان کے پیروکاروں کے درمیان مزید استحکام اور مشروعیت بخشے گا، اور ان کے دشمنوں کے لیے ایک سخت اور واضح انتباہ ثابت ہوگا کہ وہ حکومتِ مهدوی، وہ عدلِ علوی جو ایک وقت تاریخ میں دب گیا تھا، اب ساری دنیا پر غالب اور برپا ہو چکا ہے۔
الٰہی امتحان اور ولایت پذیری کی نادیدہ حدود:
حضرت فاطمہ زہراؑ کی قبرِ مطہر کا پوشیدہ رہنا، اہلِ بیتؑ کے پیروکاروں اور محبان اہلبیتؑ کے لیے ایک پیچیدہ اور کثیرالابعاد الٰہی امتحان ہے۔ ایسے مقام کی زیارت، جس کی درست جگہ ابہام میں لپٹی ہو، محض رسمی عبادت نہیں بلکہ ایمان، معرفت اور باطنی اتصال کا تقاضا کرتی ہے، ایسا تعلق جو مادّی حدوں سے ماورا ہو۔ ایک پوشیدہ مزار سے عقیدت صرف قلبی معرفت، اخلاص اور روحانی نسبت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی نکتہ شیعہ ہونے کے ظاہری و ثقافتی تصور اور ولایت محور و باطنی ایمان کے درمیان فرق کو نمایاں کرتا ہے۔
جو شخص حضرت زہراؑ کے پوشیدہ مزار کی طرف متوجہ ہوتا ہے، وہ درحقیقت ایک ابدی صداقت اور ایک زندہ فکر سے رابطہ قائم کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ، یہ پوشیدگی امید کے استعارے کے طور پر بھی باقی ہے۔ جب بھی عاشقان اہلبیتؑ، حضرت سیدہؑ کی بارگاہ کی طرف دل سے رجوع کرتے ہیں، تو وہ دراصل اس روشن مستقبل سے عہدِ وفا باندھتے ہیں، ایک ایسے وقت سے جس میں وہ مزار آشکار ہوگا اور عدلِ فاطمی و مهدوی زمین پر قائم ہو جائے گا۔ یوں یہ عمل، انتظارِ فرج کو صورتحآل کو ایک خاموش انتظار سے نکال کر فعال، بامعنی اور امید انگیز عمل میں تبدیل کر دیتا ہے، جہاں انتظار خود ایک گہرا ایمانی عمل بن جاتا ہے۔
دور اندیشی، بصیرت اور حریمِ ولایت کے تحفظ کی حکمتِ عملی:
تاریخ پر نظر ڈالنے سے، خصوصاً جب ہم 1344 ہجری قمری میں وھابیوں کے ہاتھوں بقیع کے مزارات کی وسیع پیمانے پر مسماری کو یاد کرتے ہیں، یہ حقیقت اور بھی نمایاں ہوتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی وصیت دراصل انتہائی ہوشمندانہ اور دور اندیشانہ اسٹریٹیجک حکمتِ عملی تھی۔ یہ وصیت دشمنوں کی مستقبل کی دشمنیوں کو پیشگی طور پر بھانپنے کا ثبوت ہے۔ حضرت فاطمہ زہراؑ اور حضرت علیؑ نے تاریخ اور اقتدار کی فطرت کا گہرا ادراک رکھتے ہوئے یہ جان لیا تھا کہ اہلِ بیتؑ کے دشمن مقدس مقامات تک کو نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگر اس مظلومۂ دو عالم کا مزار واضح اور مشہور ہوتا، تو وہ یقیناً تاریخ کے مختلف ادوار، خاص طور پر حالیہ صدیوں میں، حملوں اور بے حرمتیوں کا پہلا نشانہ بنتا۔ یوں مزار کا پوشیدہ رہنا دراصل ایک حفاظتی دیوار ثابت ہوا، جس نے اس کی حرمت کو ظاہری و تاریخی توہین سے محفوظ رکھا۔ ساتھ ہی، اس پوشیدگی نے مزار کو سیاسی و دنیوی طاقتوں سے معنوی آزادی بھی عطا کی۔ کیونکہ ایک نامعلوم قبر کو نہ تو سیاسی طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہیں اور نہ اسے تجارتی یا سیاحتی مرکز میں بدلا جا سکتا ہے۔ یوں یہ بارگاہِ پنهان ایک خالص روحانی و قدسی مقام بن کر باقی رہتی ہے، جہاں عظمت کی بنیاد کسی عمارت یا گنبد پر نہیں، بلکہ صرف صاحبِ مزار کی شخصیت پر ہے۔
پوشیدگی، ایک معنادار اور تہہ دار عمل:
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے مزار کی پوشیدگی کے مختلف پہلو الگ الگ نہیں بلکہ باہم مربوط اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والے ہیں۔ ان کی وصیت بیک وقت ایک سیاسی احتجاج بھی تھی اور ایک حفاظتی اقدام بھی۔ یہ احتجاج بعد ازاں شیعی ایمان کے امتحان اور انسان و عدالتِ موعود کے درمیان رشتہ بن کر ظاہر ہوا۔ یوں یہ تمام تہیں مل کر ایک جاودانی گواہی بن جاتی ہیں، ایسی گواہی جو تاریخ کے ضمیر کو ہمیشہ کے لیے چیلنج کرتی ہے۔
حضرت زہراؑ کا مخفی مزار عدمِ حضور نہیں بلکہ ایک طاقتور اور فعّال موجودگی ہے، ایک ایسا خاموش پیمانہ جو ایمان کی گہرائی کو پرکھتا ہے۔ یہ قبر اپنی پوشیدگی میں ہی ایسا منبر ہے جو بلند آواز میں اعلان کرتی ہے کہ "عدل آخرکار غالب آئے گا اور جب یہ مزار ظہور کے دن آشکار ہوگا، تو وہ لمحہ دراصل سب سے بڑی الٰہی وعدے کی تکمیل ہوگا، یعنی حق کی آخری اور ابدی فتح اور امام مهدیؑ کی قیادت میں عدلِ جهانی کا قیام۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حضرت فاطمہ زہرا پوشیدہ مزار امتحان اور کے درمیان ایک سیاسی نہیں بلکہ ایمان کے کی علامت کی وصیت اور ایک مزار کی کے مزار کہ حضرت کرتی ہے کے ساتھ یہ عمل کے لیے یوں یہ سے ایک
پڑھیں:
آقا جان! آپ کا نذرانہ قبول ہو
اسلام ٹائمز: حسینیہ کی دیواروں پر حضرت زہراؑ کے القابات سے مزین کتبے، دل و جان کو مسحور کرنے والے تھے۔ شبِ دوم کے مقرر، حجت الاسلام علیزاده نے حدیث "جنود عقل و جهل" سے آغاز کیا۔ جیسے ہی آیت "وَ کانَ النّاسُ أُمَّةً واحِدَةً" تک پہنچے، تو گویا خدائی نور حسینیہ میں اتر آیا اور محفل میں بے پناہ سرور بھر گیا۔ نعرے بلند ہوئے، "ابالفضل علمدار؛ خامنهای نگهدار… حیدر حیدر!"۔ فضا اس قدر پُرجوش تھی کہ یوں لگتا تھا حسینیہ شوق و جذبات سے پھٹ جائے گا۔ تحریر: محمد سہرابی
ہمیشہ دل میں کہتا ہوں: آقاجان! آپ کا نذرانہ قبول ہو؛ کیونکہ آپ کی فاطمیہ کی ضیافت ہمیشہ سب کے لیے وسیع و عام رہتی ہے، اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ رسولِ اکرمؐ کی دردانہ بیٹی کے احترام کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اور یہ ہم سب کے لیے ایک نمونہ ہے۔ میں کشاورز بلووارڈ کے قریب تھا اور میرا موبائل فون بند ہونے والا تھا۔ نزدیک ہی "پارک لاله" میٹرو اسٹیشن کے پاس فائر اسٹیشن میں گیا اور ان سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو میرا فون چارج کر دیں، ورنہ میرا کام رک جائے گا۔ وقت تقریباً 15:45 تھا۔ فائر بریگیڈ کے اہلکاروں نے اپنی انسانی جذبے کے باوصف اجازت دے دی۔
وقت تیزی سے گزرا اور 16:10 بج گئے۔ میں نے حساب لگایا کہ یہاں سے میدان فلسطین تک تقریباً 26 منٹ کا راستہ ہے۔ کم وقت ہونے کے باعث فکر مند تھا کہ شاید بروقت نہ پہنچ سکوں۔ حسینیہ امام خمینی کے دروازے 15:30 پر کھلنے کا اعلان ہوا تھا۔ فوری فیصلہ کیا کہ آن لائن ٹیکسی لے لوں۔ فائر اسٹیشن کے دوستوں کا شکریہ ادا کرکے نکل آیا اور ایک ٹیکسی بُک کی۔ ڈرائیور جن کا نام فرزاد تھا، بڑے خوش اخلاق انسان تھے۔ جب ہم فلسطین اسٹریٹ پہنچے تو معلوم ہوا کہ راستہ بند ہے۔ فرزاد نے کہا "یہاں داخل ہونے کے لیے کارڈ چاہیے، ورنہ نہیں جانے دیتے۔" میں نے کہا "اتفاقاً میرے پاس کارڈ ہے۔" میں نے فوراً ایک اہلکار کو آواز دی "جناب! میرے پاس دعوت نامہ ہے!" اہلکار نے کہا "بہت خوب! آپ اندر جا سکتے ہیں، لیکن پیدل جانا ہوگا، گاڑی نہیں جائے گی۔" میں نے فرزاد صاحب سے ادب سے رخصت لی اور وعدہ کیا کہ آپ کو مجلس میں دعا دوں گا۔ وہ بھی خوشی سے مسکرائے اور ہم جدا ہو گئے۔
جذبات سے لبریز، حسینیہ کی صفوں کی طرف بڑھتے قدم:
میں پورے وقار کے ساتھ قدم رکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ پہلی بار حسینیۂ امام خمینیؒ میں داخل ہونے جا رہا تھا۔ پہلے چیک پوائنٹ پر سلام و دعا کے ساتھ قومی شناختی کارڈ چیک ہوا۔ دوسرے مرحلے میں تلاشی ہوئی۔ پھر ہم نے جوتے جمع کروائے اور پذیرائی کے حصے میں پہنچ گئے جہاں تین سبز پوش خادم کھڑے خدمت میں مصروف تھے۔ پذیرائی میں، کیک یزدی، کھجور، چینی اور گرم چائے دی جا رہی تھی۔
تہران کی ٹھنڈی اور آلودہ ہوا میں حسینیہ کے باہر کھجور اور کیک کے ساتھ گرم چائے کا لطف ایسا تھا کہ منظر کی خوبصورتی آنکھوں میں اترتی جا رہی تھی۔ خدام کا شکریہ ادا کرکے میں شبستان کے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہاں کارڈ جمع کروایا، آخری مرحلہ کی تلاشی کے بعد اندر داخل ہوا۔ یہ اس بزرگوار کا گھر ہے جن کے بارے میں تاریخ بھی لکھنے سے عاجز ہے۔ وہ نائبِ امامِ عصرؑ ہیں۔ چند قدم کے فاصلے پر ہم صفوں میں بیٹھ گئے اور احکامِ "مسافر و قصر نماز" سننے لگے۔ کچھ دیر بعد قاریٔ قرآن نے سورہ انسان کی آیات تلاوت کیں۔ پھر اذان کی صدائیں بلند ہوئیں اور نمازِ مغرب و عشاء ادا کی گئی۔ نماز کے ختم ہوتے ہی عاشقان کی ایک لہر تھی جو "دیدارِ یار" کی خواہش لیے آگے کی صفوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہم بھی اسی عشق کی رو میں آگے بڑھے۔
مجلس کا نور، شور، اور فاطمیہ کی خوشبو:
حسینیہ کی دیواروں پر حضرت زہراؑ کے القابات سے مزین کتبے، دل و جان کو مسحور کرنے والے تھے۔ شبِ دوم کے مقرر، حجت الاسلام علیزاده نے حدیث "جنود عقل و جهل" سے آغاز کیا۔ جیسے ہی آیت "وَ کانَ النّاسُ أُمَّةً واحِدَةً" تک پہنچے، تو گویا خدائی نور حسینیہ میں اتر آیا اور محفل میں بے پناہ سرور بھر گیا۔ نعرے بلند ہوئے:
"ابالفضل علمدار؛ خامنهای نگهدار… حیدر حیدر!"
فضا اس قدر پُرجوش تھی کہ یوں لگتا تھا حسینیہ شوق و جذبات سے پھٹ جائے گا۔ بعد ازاں معروف ذاکر حاج محمدرضا بذری نے ۱۲ روزہ دفاع مقدس کے شہدا کی یاد، "مرگ بر اسرائیل" کے نعروں اور رہبر انقلاب کی استقامت کو حضرت موسیٰؑ کے قیام سے تشبیہ دے کر مجلس میں عجب انقلاب برپا کر دیا۔
دل کی آخری گفتگو:
سینہزنی ختم ہوئی۔ حضرت آقا نے محفل سے رخصت لی۔ لوگ دروازے کی طرف رواں ہوئے۔ ہم نے وہیں نیاز میں دی گئی غذا تناول کی اور امامِ زمانہؑ کو سلامِ آخر پیش کرکے حسینیہ سے باہر آگئے۔ باہر آتے ہوئے دل میں پھر عرض کیا، "آقاجان! آپ کا نذرانہ قبول ہو۔ آپ کی فاطمیہ کی ضیافت ہمیشہ عام و وسیع رہتی ہے۔ یہ آپ کی اس توجہ کی دلیل ہے جو رسولؐ کی عزیز بیٹی کے غم کو زندہ رکھنے کے لیے رکھتے ہیں۔" اور یہ ہمارے لیے درس ہے کہ گھروں میں فاطمیہ کی مجالس زیادہ سے زیادہ منعقد کریں، تاکہ حضرت زہراؑ کی ولایت کے لیے ایثار و جدوجہد کبھی فراموش نہ ہو۔