Islam Times:
2025-11-23@22:14:04 GMT

حضرت فاطمہؑ کی تشییع جنازہ و تدفین کی پوشیدگی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT

حضرت فاطمہؑ کی تشییع جنازہ و تدفین کی پوشیدگی

اسلام ٹائمز: دو عشرۂ فاطمیہ شیعہ کی جانب سے اس تاریخی ابهام کا عملی جواب ہے۔ جب شہادت کی درست تاریخ متعین نہ ہو سکے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہر ممکن تاریخ کا احترام کریں اور حضرت فاطمہؑ کی عظمت کے احیاء میں کوئی پہلو تشنہ نہ رہنے دیں۔ یہ دونوں عشرے حضرت فاطمہؑ کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو یاد کرنے، اُن کی مظلومیت کا تذکرہ تازہ رکھنے، اور آئندہ نسلوں کو دفاعِ حق کی اہمیت سمجھانے کا بہترین موقع ہیں۔ اس کے علاوہ دو عشرۂ فاطمیہ تاریخ کے مسخ ہونے کے خلاف ایک معنوی احتجاج بھی ہے۔ یہ عمل عبادت بھی ہے، تعلیم بھی، اور ثقافت بھی، جس کا پیغام یہ ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی زندگی، حقانیت اور شہادت کا نور ہمیشہ امت کی یادوں میں زندہ رہے۔ تحریر: ڈاکٹر فائزه طہماسبی 

حضرت فاطمہؑ کے مدفن اور تشییعِ جنازہ کا مخفی رہنا، اُن عوامل میں سے ہے، جن کی وجہ سے ان کی شہادت کی تاریخ میں ابہام پیدا ہوا، اور اس وجہ سے ایام فاطمیہؑ کے دو مراسم وجود میں آئے۔ اسلام کی عظیم خاتون حضرت فاطمہؑ کی شہادت تاریخِ اسلام کے مبھم ترین واقعات میں شمار ہوتی ہے، ایک ایسا واقعہ جس کے بارے میں تاریخی اور مذہبی منابع کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ شہادت کی درست تاریخ کا مبہم ہونا، مدفن کا نامعلوم رہنا اور اُس زمانے کا سیاسی دباؤ، یہ سب اس بات کا سبب بنے کہ شیعیانِ اہل بیتؑ نے احتراماً عشرۂ فاطمیہ کے دومراسم منعقد کرنے کو اپنا شعار بنا لیا۔

ایم فاطمیہؑ کے دو حصوں میں منائے جانے کی تاریخی جڑیں:
عشرۂ فاطمیہؑ یعنی دو مراسم کا انعقاد کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟۔ یہ صرف ایک تاریخی مراسم نہیں، بلکہ حضرت فاطمہؑ کی بے مثال شخصیت کے احترام اور شرعی احتیاط کا مظہر ہے۔ جب شہادت کی صحیح تاریخ متعین نہ ہو سکے تو مسلمان پر لازم ہے کہ تمام ممکنہ تاریخوں کو شایانِ شان انداز میں یاد کرے، تاکہ کوئی دن بغیر تعظیم کے نہ گزرے۔ اس کے علاوہ، یہ دونوں عشرے حضرت فاطمہؑ کی زندگی، کردار اور مظلومیت کے مختلف پہلوؤں کو یاد کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

شیعہ معاشرہ اس طرح رسولِ اکرمؐ کے بعد پیش آنے والے واقعات کی یاد تازہ کرتا ہے اور اُن کے اخلاقی، سماجی اور اعتقادی پیغامات کو آگے منتقل کرتا ہے۔ مزید برآں، دو عشرۂ فاطمیہ دراصل تاریخ کی غلط تعبیرات کے خلاف ایک معنوی اور خاموش احتجاج بھی ہے۔ اس اہتمام کے ذریعے ایک شیعہ یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ حضرت فاطمہؑ کی سیرت اور حقیقت کے کسی بھی حصے کو تاریخ کے غبار میں گم نہیں ہونے دے گا اور یہی ان دو مراسم کا اصل فلسفہ ہے۔

ایام فاطمیہ اول و دوم، علمی احتیاط یا تاریخی ابهام؟
ایک سوال ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہؑ جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں شہادت کی درست تاریخ کا تعین کیوں مشکل ہے؟۔ یہ درست ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی شہادت تاریخِ اسلام کا نہایت اہم اور حساس واقعہ ہے، لیکن اس کی صحیح تاریخ کے تعین میں موجود دشواریوں کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ وہ خاص حالات ہیں جو رسول اللہؐ کی رحلت کے فوراً بعد پیدا ہوئے۔

اُس دور میں سیاسی و سماجی انتشار نے بہت سی تاریخی تفصیلات کے محفوظ رہنے پر اثر ڈالا۔ کئی واقعات یا تو تحریر نہیں ہوئے یا مختلف روایات میں اختلاف کے ساتھ بیان ہوئے۔ دوسری اہم وجہ حضرت فاطمہؑ کی اپنی وصیت تھی کہ اُن کا جنازہ رات کے وقت، پُر اسرار انداز اور حکام وقت کی عدم موجودگی میں ادا کیا جائے۔ یہ اقدام اس دور کی سیاسی صورتِ حال پر حضرت سیدہؑ کے اعتراض اور ناراضیگی کا واضح اظہار تھا۔ اسی پوشیدگی کی وجہ سے شہادت کی واقعی تاریخ کے حوالے سے آج تک اختلافات باقی رہے۔

ایام فاطمیہ دو مراسم کے سیاسی و تاریخی اسباب:
لہٰذا حضرت فاطمہؑ کی سیاسی، سماجی اور شخصی وجوہات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایسی صورتِ حال پیدا کرتی ہیں کہ تاریخی منابع میں مختلف روایات اور متعدد ممکنہ تاریخیں درج ملتی ہیں اور یہی مراسم دو عشرۂ فاطمیہ کے وجود میں آنے کی اصل بنیاد ہے۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ائمہ معصومینؑ کی تعلیمات اور روایات کی روشنی میں ہمارا اعتقاد ہے کہ حضرت فاطمہؑ جسمانی اور روحانی اذیتوں اور دباؤ کے نتیجے میں کم عمری ہی میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔

یہ دباؤ اور زخم رسالتِ مآب ﷺ کی رحلت کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی اختلافات اور منصبِ خلافت و ولایت کے غصب کے باعث تھے۔ بحیثیت دخترِ رسولؐ اور زوجۂ امامؑ، آپؑ معاشرے کی ہدایت میں مرکزی کردار رکھتی تھیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق جو بھی شخص حق کی حمایت اور الٰہی اہداف کے دفاع میں اپنی جان قربان کرے، وہ مقامِ شہادت پاتا ہے۔ اس لحاظ سے شہادتِ حضرت فاطمہؑ کا واقع ہونا، خواہ اس کی تاریخ واضح نہ ہو، قطعی اور مسلم ہے۔

تشییع جنازہ اور تدفین کی پوشیدگی:
ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ شہادت کے وقت کے علاوہ، حضرت فاطمہؑ کا مدفن بھی نامعلوم ہے۔ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جنہوں نے یہ مقام پوشیدہ رکھا؟۔ اس کی بنیادی وجہ خود حضرت فاطمہؑ کی وصیت تھی۔ آپؑ نہیں چاہتی تھیں کہ حکومتی نمائندے اُن کے جنازے میں شریک ہوں اور ان کا مدفن ظاہر ہو۔ یہ عمل خلافت کے بعد کی سیاسی صورتِ حال پر آپؑ کے گہرے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار تھا۔

یہ اقدام حضرت سیدہؑ کی سیاسی بصیرت اور حکیمانہ دوراندیشی کو ظاہر کرتا ہے۔ اُس دور میں شخصیت کی حرمت کا تحفظ اور حکومت کی طرف سے ممکنہ طور سوء استفادہ سے بچاؤ نہایت ضروری تھا۔ اہل سنت کے علما اور مورخین بھی اس حقیقت کے معترف ہیں اور اسے حضرت سیدہؑ کا ایک مقدس اور فطری حق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ تدفین اور تشییع جنازہ میں اختیار کی گئی یہ پوشیدگی شہادت کی صحیح تاریخ کے مبہم رہنے کا اہم سبب ہے، اور یہی دو عشرۂ فاطمیہ کے قیام کی دلیل بھی ہے۔

حضرت فاطمہؑ کا سیاسی و سماجی کردار:
حضرت سیدہؑ کا مقام معاشرے میں بہت بلند تھا۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رحلتِ رسولؐ کے بعد حضرت سیدہؑ کا سیاسی و سماجی کردار کیا تھا؟۔ حضرت فاطمہؑ ایسے نازک دور میں امت کی رہنمائی کی ذمہ دار تھیں، جب بہت سے لوگ سیاسی اور سماجی اضطراب کا شکار ہو گئے تھے۔ آپؑ کی کوشش یہ تھی کہ امت کو راہِ حق سے منحرف نہ ہونے دیں اور صحیح سمتِ ہدایت برقرار رہے۔

یہ کردار صرف سیاسی نہیں تھا بلکہ سماجی، معاشی اور ثقافتی میدانوں تک پھیلا ہوا تھا۔ آپؑ لوگوں کو اسلامِ ناب، امامت کی حقیقت اور دین کے صحیح مفہوم سے روشناس کراتی تھیں اور تحریف کا راستہ روکتی تھیں۔ اس نازک ماحول میں حضرتؑ کی مظلومیت اسی حق کے دفاع اور باطل کے مقابلہ میں استقامت کا نتیجہ تھی، کیونکہ حق کی حمایت ہمیشہ آزمائشوں اور دباؤ کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔

اعتراض جو شہادت کا سبب بنا:
اسی لئے یہ اعتراض حضرت فاطمہؑ کی شہادت کا سبب بنا۔ حضرت فاطمہؑ کا خلافت کے غصب پر احتجاج اور دفاعِ ولایت، اُن عوامل میں سے ایک ہے، جو آپؑ کی شہادت کا مرکزی سبب بنے۔ آپؑ نے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر، دونوں طریقوں سے حق و باطل کی تمیز واضح کی اور ہدایت کی اصل سمت کو لوگوں کے سامنے رکھا۔ بحیثیت دخترِ رسولؐ اور زوجۂ امامؑ، آپؑ کی ہر بات اور ہر اقدام کی اہمیت زیادہ تھی، اسی لیے سیاسی حلقوں کی جانب سے دباؤ، اذیت اور حملے شدید تر ہوئے۔ یہی مسلسل جسمانی و روحانی صدمات آخرکار شہادت پر منتج ہوئے۔ یعنی شہادتِ فاطمہؑ کسی حادثاتی واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک الٰہی ذمہ داری کے دفاع اور حق کی راہ میں ثابت قدمی کا فطری ثمر ہے۔

اسی طرح اُس زمانے کے مجموعی سیاسی حالات ہی شہادت کا سبب بنے۔ ارتداد کی جنگیں، سیاسی دباؤ اور معاشرے کے ایک حصے کی بے حسی نے، حضرت فاطمہؑ کی ہدایتگری کو نہایت دشوار کر دیا تھا۔ بہت سے لوگ اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے ان مسائل سے کنارہ کش ہو گئے تھے، لیکن حضرت فاطمہؑ نے تنہا رہ کر بھی حق کے تحفظ کی راہ نہیں چھوڑی۔ یہ ذمہ داری عام انسان کے بس سے باہر تھی۔ اس کے لیے غیر معمولی صبر، شجاعت اور ایمان درکار تھا۔ حضرت فاطمہؑ نے گہری بصیرت کے ساتھ معاشرے کو حق کی طرف متوجہ کیا اور اسی وجہ سے آپؑ کی جان خطرے میں پڑی۔ پس آپؑ کی شہادت سیاسی و اجتماعی کا لازمی نتیجہ تھی، نہ کہ کوئی اتفاقی حادثہ۔

ایام فاطمیہؑ، حقانیت و مظلومیت کی تاریخی یاد دہانی:
دو عشرۂ فاطمیہ شیعہ کی جانب سے اس تاریخی ابهام کا عملی جواب ہے۔ جب شہادت کی درست تاریخ متعین نہ ہو سکے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہر ممکن تاریخ کا احترام کریں اور حضرت فاطمہؑ کی عظمت کے احیاء میں کوئی پہلو تشنہ نہ رہنے دیں۔ یہ دونوں عشرے حضرت فاطمہؑ کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو یاد کرنے، اُن کی مظلومیت کا تذکرہ تازہ رکھنے، اور آئندہ نسلوں کو دفاعِ حق کی اہمیت سمجھانے کا بہترین موقع ہیں۔ اس کے علاوہ دو عشرۂ فاطمیہ تاریخ کے مسخ ہونے کے خلاف ایک معنوی احتجاج بھی ہے۔ یہ عمل عبادت بھی ہے، تعلیم بھی، اور ثقافت بھی، جس کا پیغام یہ ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی زندگی، حقانیت اور شہادت کا نور ہمیشہ امت کی یادوں میں زندہ رہے۔

(ڈاکٹر فائزه طہماسبی حوزہ و یونیورسٹی کی استاد اور اسلامی محققہ ہیں)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شہادت کی درست تاریخ ہے کہ حضرت فاطمہ دو عشرۂ فاطمیہ ایام فاطمیہ سماجی اور کی شہادت کی تاریخ شہادت کا تاریخ کے کے علاوہ تاریخ کا کی سیاسی کے ساتھ کا سبب بھی ہے اور اس امت کی کے بعد

پڑھیں:

اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا، جاوید قصوری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور (وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے تین روزہ تاریخی اجتماع میں شرکت کے لئے آنے والے شرکاکو خوش آمدید کہتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ یہ اجتماع پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔جماعت اسلامی جلد ملک میں ایسا انقلاب برپا کرے گی جو حقیقی معنوں میں عوام کی تقدیر بدل دے گا۔ موجودہ طبقہ اشرافیہ کی سیاست نے ملک کو مسائل کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ عام آدمی مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی، بدعنوانی اور کرپشن کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جبکہ حکمران اپنی ترجیحات بدلنے کے لئے تیار نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اس فرسودہ اور کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف عوام کے اندر نئی امید اور نیا شعور پیدا کر رہی ہے۔ لاہور میں ہونے والا اجتماع عام صرف ایک جلسہ نہیں، بلکہ ملک گیر اصلاحاتی تحریک کا نقطہ آغاز ہوگا۔ یہاں لاکھوں مرد، خواتین، نوجوان اور بچے شریک ہوں گے جو یہ ثابت کریں گے کہ قوم اب تبدیلی کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو نظریاتی بنیادوں، ایماندار قیادت، شفاف کردار اور خدمت کے عملی نمونے کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس اجتماع کا مقصد صرف نعرے بازی نہیں بلکہ ایک منظم اور پْرامن طریقے سے قوم کو وہ قیادت فراہم کرنا ہے جس کی بنیاد دیانت، صلاحیت اور خدمت ہو۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ہر طبقے کے لئے آواز اٹھا رہی ہے۔ چاہے مزدور ہو یا کسان، نوجوان ہو یا تاجر، خواتین ہوں یا معمارانِ وطن، جماعت اسلامی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی رکھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اجتماع عام میں ملک کی موجودہ صورتحال، اسلامی فلاحی ریاست کا نقشہ، معاشی استحکام، عدالتی اصلاحات، تعلیم و صحت کا بہتر نظام اور نوجوانوں کے روشن مستقبل کے لئے عملی اقدامات کا روڈ میپ پیش کیا جائے گا۔آخر میں محمد جاوید قصوری نے کہا کہ آنے والے تین روز پاکستان میں مثبت سیاسی بیداری کے لئے تاریخی ثابت ہوں گے، اور ان شاء اللہ جماعت اسلامی وہ حقیقی قیادت فراہم کرے گی جس کی اس قوم کو سالہا سال سے ضرورت ہے۔

وقائع نگار خصوصی گلزار

متعلقہ مضامین

  • حضرت فاطمہؑ کا پوشیدہ مزار اور غیبت و قیام امامؑ زمانہ
  • خفیہ قبر کے رموز، پوشیدہ مزار بطورِ ابدی احتجاج
  • حضرت فاطمہؑ نے مختصر مگر بابرکت زندگی میں وقت کے بہترین انتظام سے انمٹ نقوش رقم فرمائے، آقائے رفیعی
  • ایام فاطمہؑ کے تیسری شب کے مراسم میں جنرل اسماعیل قاآنی کی شرکت
  • تہران، ایام فاطمیہؑ کی دوسری شبِ عزاداری رہبرِ انقلاب کی حاضری
  • یکم تا 3 جمادی الثانی ایام شہادت حضرت فاطمہ زہرا (ع) منائے جائیں گے، جعفریہ الائنس
  • اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی بتوں کی تعمیر و تخریب کی تاریخ
  • بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ کا نیا باب
  • اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا، جاوید قصوری