آوارہ کتوں کے خاتمے اور نسل کشی کیخلاف کیس: سی ڈی اے، ایم سی آئی کی رپورٹ جمع
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں آوارہ کتوں کے خاتمے اور ان کی مبینہ نسل کشی کے کیس میں سی ڈی اے اور ایم سی آئی کی فریم ورک رپورٹ جمع کروادی۔
عدالت نے رپورٹ پر وکیلِ درخواست گزار سے تحریری تجاویز طلب کرلیں۔
سماعت کے دوران سی ڈی اے کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 9 اکتوبر کو جس گاڑی میں مردہ کتے پائے گئے وہ سینیٹیشن کی گاڑی تھی، جو مختلف سیکٹرز سے مردہ کتوں کو اُٹھا رہی تھی، کچھ کتے حادثات میں مرے جبکہ کچھ کو شہریوں نے خود مار دیا۔
وکیل نے مزید کہا کہ کوئی گاڑی مار جائے تو تب بھی کتوں کو اٹھانا سینیٹیشن والوں کا کام ہے، جنوری سے ستمبر تک صرف پمز اسپتال میں کتوں کے کاٹنے کے 2800 کیسز آئے، اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھنا چاہیے صرف ویلفئیر کی بات ہی نہیں کی جانی چاہیے، سینیٹیشن عملے کا کتوں کو مارنے سے کوئی تعلق نہیں، وہ صرف انہیں اٹھا کر وہاں لائے۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے ریمارکس دیے کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت کتوں کو مارنا جرم ہے، جب ایک کتے پر 19 ہزار روپے خرچ کیے جا رہے ہیں تو پھر مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ اتنے کتے ایک وقت میں کوئی نہیں مار سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو پتہ ہے پاکستان پینل کوڈ کے تحت کتوں کو مارنا جرم ہے، ہم اس معاملے کو تفصیل سے سننا چاہتے ہیں تاکہ بہتر فیصلہ دیا جا سکے، یہ کیسے ہوگیا کہ اتنے کتے مرے ہوئے پائے گئے؟ اندرون سندھ میں ٹاؤن کمیٹی ہوتی ہے وہاں پہلے مہم شروع ہوتی ہے، اندرون سندھ میں سہولیات نہیں ہیں، یہ تو وفاقی دارالحکومت ہے، جیسےکیپیٹل میں بھی کتوں کے حقوق کے لیے پٹیشن آنا حیران کن ہے۔
نو اکتوبر کو اسلام آباد میں مردہ کتوں کی وائرل ویڈیو پر جسٹس خادم سومرو نے سرکاری وکلا سے مکالمے میں کہا کہ ڈرائیور پر تو ایف آئی آر ہوگی، ڈرائیور پر جب مقدمہ ہوگا تو وہ بتائے گا کہ کس کے کہنے پر یہ سب ہوا۔
سماعت کے دوران پاکستان ریپبلک پارٹی کی سربراہ ریحام خان بھی روسٹرم پر آئیں۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمارا مقصد کسی کے خلاف مقدمہ درج کرانا نہیں بلکہ آوارہ کتوں سے متعلق پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے، ہمیں کوئی فنڈ نہیں آتا، نہ ہم کسی این جی او سے وابستہ ہیں۔
عدالت نے سی ڈی اے اور ایم سی کی فریم ورک رپورٹ پر وکیل درخواست گزار سے تجاویز طلب کرلیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ تاریخ تحریری حکمنامے میں جاری کی جائے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سی ڈی اے کتوں کے کتوں کو
پڑھیں:
کراچی میں گورنر خیبرپختونخوا کے ایڈوائزر سے گاڑی چھن گئی، شہری 9 ماہ میں 1600 گاڑیوں سے محروم
کراچی میں کلاشنکوف کے زور پر کارروائیاں کرنے والے گینگ نے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے میڈیا ایڈوائزر سے گاڑی چھین لی۔
کراچی میں جرائم کی وارداتیں بتدریج جاری ہیں اور اب کار لفٹر کا ایک گروہ جدید اسلحے کے ساتھ کارروائیاں کررہا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا کے میڈیا ایڈوائزر علی ایوب کو 22 اکتوبر کی رات 9 بج کر 31 منٹ پر کلاشنکوف بردار گینگ نے لوٹا۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے علی ایوب نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کے ساتھ ضلع وسطی کے علاقے گلبرگ طاہر ولا چورنگی کے قریب سے گزر رہا تھا، اس دوران ہماری گاڑی کو گھیرا گیا‘۔
انہوں نے بتایا کہ تقریبا 4 لوگ واردات میں شامل تھے اور وہ خود بھی گاڑیوں میں سوار تھے۔
علی ایوب کے مطابق ہماری گاڑی کے اطراف میں چار لوگ کھڑے تھے جن کے ہاتھ میں کلاشنکوف سمیت مختلف اسلحہ تھا، انہوں نے گاڑی روک کر ہمارے بارے میں پوچھا اور پھر تعارف کروانے پر ملزمان دونوں سے موبائل، پرس، نقدی چھین کر فرار ہوگئے۔
اس واقعے کا مقدمہ تھانہ گلبرگ میں خیبرپختونخوا کے میڈیا ایڈوائزر کی مدعیت میں 22 اکتوبر کو ہی درج کیا گیا تاہم 5 روز گزر جانے کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔
کراچی میں اسلحے کے زور پر گاڑیاں، موبائل، نقدی یا موٹرسائیکلیں چھینا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے 9 ماہ میں اب تک شہر میں اسلحے کے زور پر کروڑوں روپے مالیت کی 241 گاڑیاں چھن چکی ہیں، اس کے علاوہ چوری ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 1 ہزار 400 سے زائد ہے۔
پولیس حکام کے مطابق چھینی گئی یا چوری ہونے والی گاڑیوں میں سے ریکور ہونے کی شرح پانچ سے دس فیصد ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا کے میڈیا ایڈوائزر کی گاڑی کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ سیاہ رنگ کی کرولا گاڑی کی شکایت درج کرنے کے بعد ریکوری کیلیے اقدامات کیے گئے ہیں اور امید ہے کہ جلد اس میں کامیابی ملے گی۔
نارتھ کراچی سیکٹر الیون اے کے رہائشی طارق بھی ایسے ہی متاثرہ شخص ہیں جنہوں نے بتایا کہ اُن کی گاڑی گھر کے باہر سے چوری ہوئی تاہم 7 ماہ گزر جانے کے بعد کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ اُن کے مطابق مقدمہ واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی درج کرادیا گیا تھا تاہم پولیس کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
ڈیفنس کے رہائشی ایاز منگھوپیر روڈ پر اسلحے کے زور پر گاڑی سے محروم ہوئے، وہ بنیادی طور پر کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ اُن کے مطابق گاڑی چھن جانے کے بعد صرف یقین دہانیوں تک ہی کام چلتا رہا اور پھر اب تو سمجھیں سب مقدمے یا واقعے کو ہی بھول چکے ہیں۔
یہ گاڑیاں کہاں جاتی ہیں؟
اے وی سی ایل سی کے مطابق شہر سے چھننے والی بیشتر گاڑیاں بلوچستان لے جائی جاتی ہیں اور وہ پر یہ باقاعدہ استعمال بھی ہوتی ہیں۔
گاڑیوں کی ریکوری کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاہم کچھ ایسی ناقابل بیان وجوہات بھی ہیں جس کی بنیاد پر چوری شدہ یا چھینی ہوئی گاڑی مالک کو واپس نہیں مل پاتی‘۔
کراچی کے حوالے سے متحرک رہنے والے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ جنید رضا نے سوال اٹھایا ہے کہ ’شہر میں لگنے والے سیف سٹی کیمرہ جن سے آن لائن چالان مرتب کیے جائیں گے کیا اُن کی مدد سے گاڑیوں کو ریکور نہیں کیا جاسکتا؟۔