اسلام آ باد:

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو طالبان رجیم کو شکست دے کر دنیا کے لیے مثال بنا سکتے ہیں۔

اپنے بیان میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے استنبول مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے  پر کہا ہے کہ افغان طالبان رجیم مسلسل برادر ممالک سے مذاکرات کے لیے درخواست کر رہی تھی اور برادر ممالک ہی کی درخواست پر پاکستان نے افغان طالبان رجیم  کے ساتھ امن کی خاطر مذاکرات کی پیشکش کو قبول کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان رجیم میں انتشار اور دھوکا دہی بتدریج موجود ہے۔ پاکستان یہ  واضح کرتاہے کہ طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کے لیے پاکستان اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم انہیں تورا بورا جیسے مقامات پر شکست دے کر لوگوں کے لیے مثال بنا سکتے ہیں جو اقوام عالم کے لیے دلچسپ منظر ہوگا۔ افسوس ہوتا ہے کہ طالبان رجیم صرف اپنی قابض حکمرانی اور جنگی معیشت کو بچانے کے لیے افغانستان کو ایک اور تنازع میں دھکیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ   طالبان حکام اپنی کمزوری اور جنگی  دعووں کی حقیقت کو  جانتے ہوئے  طبل جنگ بجا کر  بظاہر افغان عوام میں  اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں،اگر افغان طالبان پھر بھی دوبارہ افغانستان اور اس کے معصوم عوام کو تباہ کرنے پر بضد ہیں  تو پھر جو بھی ہونا ہے وہ ہو، جہاں تکgrave yard of empires کے بیانیے کا تعلق ہے، پاکستان خود کو ہرگز empire نہیں کہتا۔

وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان طالبان  کی وجہ سے اپنے ہی لوگوں کے لیے ایک قبرستان سے کم نہیں۔ تاریخی اعتبار سے افغانستان  سلطنتوں کا قبرستان تو نہیں رہا البتہ  ہمیشہ بڑی طاقتوں کے کھیل کا میدان ضرور رہا ہے۔ طالبان کے وہ جنگجو جو خطے میں بدامنی پھیلانے میں اپنا ذاتی فائدہ دیکھ رہے ہیں سمجھ لیں کہ انہوں نے  شایدپاکستانی عزم اور حوصلے کو غلط انداز میں لیا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اگر طالبان رجیم  لڑنے کی کوشش کرے گی تو دنیا دیکھے گی کہ ان کی دھمکیاں صرف دکھاوا تھیں۔ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردانہ یا خودکش حملے کو برداشت نہیں کرے گا اور کسی بھی مہم جوئی کا جواب سخت اور کڑوا  ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان رجیم  کو چاہیے کہ اپنے انجام کا حساب ضرور رکھیں، کیونکہ پاکستان کے عزم اور صلاحیتوں کو آزمانا ان کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ طالبان رجیم نے کہا کہ انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

’ایک ہزار افغان علما کی منظور کردہ قرارداد خوش آئند مگر پاکستان تحریری ضمانت چاہتا ہے‘

گزشتہ سے پیوستہ روز افغانستان کے ایک ہزار علما نے مشترکہ طور پر ایک قرار دار منظور کی جس میں کہا گیا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ملکوں میں دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور بغیر امیر کی اجازت کے کہیں بھی جنگ کرنا ممنوع ہے۔

افغانستان میں ہوئی اِس ڈیولپمنٹ کو پاکستان میں خوش آئند قرار دیا گیا اور افغانستان کی جانب سے امن کی طرف ایک قدم کے طور پر لیا گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ آیا افغان طالبان حکومت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کر پائے گی۔

مزید پڑھیں: پاک افغان تعلقات میں نرمی؟ افغان علما کا بیان ’حوصلہ افزا مگر ناکافی‘

پاکستان نے پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے 11 دسمبر کو صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اگر افغان طالبان حکومت کی قیادت یا افغان معاشرے کے بعض طبقات اس بات کی سنگینی کو سمجھ رہے ہیں کہ اُن کی سرزمین نہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں بلکہ اُن کے اپنے شہریوں کی جانب سے بھی پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے، تو یہ احساس ایک مثبت پیش رفت ہے، اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ افغان طالبان حکومت نے ماضی میں کیے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے برادر ممالک کی ثالثی سے ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان نے افغانستان جانب سے تحریری یقین دہانیوں پر زور دیا تھا۔

’ہم اس دستاویز کو دیکھیں گے، اس کا جائزہ لیں گے اور اس کا انتظار کریں گے، لیکن یقیناً اس معاملے پر ہمیں افغان طالبان حکومت کی قیادت سے تحریری یقین دہانی درکار ہوگی۔‘

’2023 میں دیے گئے فتوے پر عملدرآمد نہیں ہوا‘

افغان طالبان کی جانب سے ایسا ہی ایک فتوٰی 2023 میں جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو بھی افغانستان سے باہر جہاد کے لیے جائے گا وہ جہاد شمار ہو گا نہ مارا جانے والا شہید۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی میں مزید اِضافہ دیکھنے میں آیا۔

’افغان علما کا فتوٰی تین لحاظ سے اہم ہے‘

اس فتوے میں سب سے اہم چیز اس کی ٹائمنگ ہے۔ اکتوبر میں پاکستان اور افغانستان سرحدی کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں اور تب سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی گزرگاہیں بند ہیں، جن کی وجہ سے تجارتی تعطّل ہے، اور سرحد کے ساتھ بسنے والی آبادیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے مذاکرات ناکام ہوئے لیکن اِسلامی اور علاقائی ممالک اس کشیدگی میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے وقت میں اس طرح کے فتوے کا منظر عام پر آنا بظاہر ایک خوش کن پیشرفت ہے۔

دوسری چیز افغان علما کے اجتماع میں افغانستان کے چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی کی شمولیت ہے جو افغان پالیسی کے اہم رُکن سمجھے جاتے ہیں۔

تیسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد ایک ایسے ہی طالبان اجتماع نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے اور اس پر عملدرآمد کیا گیا تھا۔

اس فتوے پر تنقیدی نقطہ نظر کیا ہے؟

اس فتوے پر بعض اہم شخصیات کا تنقیدی نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ مُبہم اور غیر واضح فتوٰی ہے۔ ایک ہزار افغان علما کا حالیہ فتوٰی بظاہر دہشتگردی کے خلاف مذہبی اتفاقِ رائے کا تاثر دیتا ہے، لیکن عملی اور سیاسی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں دہشتگردی کو روکے جانے کے امکانات کم ہیں۔

اس وقت افغانستان میں طالبان حکومت نہ مکمل ریاستی طاقت رکھتی ہے کہ ایسے فتوے کو مسلح گروہوں پر نافذ کر سکے اور نہ ہی ایسے گروہ خصوصاً ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کسی ایسے فتوے کو قبول کرتے ہیں جو اُن کے نظریے یا حکمتِ عملی کے خلاف ہو۔

اگر فتوٰی واضح، دو ٹوک انداز میں خودکش حملوں، ریاست کے خلاف بغاوت اور عام شہریوں پر تشدد کو حرام قرار دیتا ہے اور طالبان اسے مؤثر ریاستی دباؤ اور عملی اقدامات کے ساتھ نافذ کرتے ہیں تو یہ محدود حد تک شدت پسندی کو کم کر سکتا ہے، لیکن اگر متن مبہم ہو یا اسے صرف سیاسی جواز کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ شدت پسند گروہوں کے لیے مزید پروپیگنڈا فراہم کر کے تشدد کے بیانیے کو مضبوط بھی کر سکتا ہے۔

لہٰذا مجموعی طور پر موجودہ حالات میں یہ فتوٰی زیادہ تر ایک علامتی قدم دکھائی دیتا ہے جو دہشتگردی کے رجحان میں کسی بنیادی کمی کی ضمانت نہیں دیتا۔

افغان سیاست کو دیکھنے والے صحافی کیا کہتے ہیں؟

معروف صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ ممکن ہے افغان علما کا اِجلاس پاکستان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بُلایا گیا ہو، کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی، ممکن ہے علما کی رائے معلوم کرنے کے لیے اِجلاس بُلایا گیا ہو لیکن ایسا ہی ایک فتوٰی 2023 میں بھی جاری کیا گیا تھا لیکن اُس کے بعد بھی پاکستان میں دہشتگردی میں اِضافہ ہوا۔

انہوں نے کہاہ اس فتوے کی ٹائمنگ اہم ہے جیسا کہ دو مہینے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں اور رابطے بند ہیں۔

ایک اور صحافی حسن خان کے مطابق پاکستان نے اس صورتحال کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن پاکستان کو تحریری ضمانتیں درکار ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہارون رشید نے وی نیوز کو اپنے حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان میں مذہبی طبقے کا اثر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اور اس سطح کے اجلاس کو اہم پیشرفت سمجھا جا رہا ہے۔

تاہم ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ یہ اجلاس دراصل اندرونی مشاورت تھا، جس کی قراردادیں منظرِ عام پر نہیں آنا تھیں لیکن خبر لیک ہونے کے بعد اسے سیاسی رنگ مل گیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان دہشتگردی کا سرپرست، ایسے عناصر کا زمین کے آخری کونے تک پیچھا کریں گے، خواجہ آصف

ان کا کہنا ہے کہ علما کی حمایت طالبان حکومت کے لیے دباؤ ضرور پیدا کرتی ہے، مگر حتمی فیصلے طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اور سرحدی کشیدگی سے نہ صرف تجارت بلکہ خطے کا مجموعی استحکام متاثر ہو رہا ہے۔ ’اسٹیٹس کو زیادہ دیر چل نہیں سکتا، تجارت، روزگار اور علاقائی رابطے پر اس کے اثرات ہیں، اس لیے فریقین پر دباؤ تھا کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افغان سرزمین افغان طالبان افغانستان پاکستان دہشتگردی علما کا فتویٰ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بگرام ایئربیس پر فوجی ساز و سامان کی تیاری کا طالبان رجیم کا پروپیگنڈا بے نقاب
  • ’ایک ہزار افغان علما کی منظور کردہ قرارداد خوش آئند مگر پاکستان تحریری ضمانت چاہتا ہے‘
  • اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دو ٹوک انتباہ
  • اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دوٹوک انتباہ
  • افغانستان سے دہشتگردی سر اُٹھا رہی ہے، دنیا طالبان رجیم پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
  • طالبان اور افغان اولمپک کمیٹی مذاکرات؛ خواتین کھلاڑیوں کیلیے ممکنہ پیش رفت کی امید
  • افغان وزیر خارجہ کی اپنی سرزمین دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ کرنیکی یقین دہانی
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سے اٹھ رہا ہے، عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
  • طالبان دور میں خواتین پر بے مثال جبر، اقوام متحدہ سمیت دنیا کا شدید احتجاج
  • افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی