data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

چار روزہ مذاکرات کے اختتام پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ بات چیت میں کوئی قابلِ عمل حل نہیں نکل سکا۔

ان کے مطابق پاکستان نے مذاکرات کے دوران افغان سرزمین کو پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا مطالبہ کیا، تاہم طالبان نے ٹھوس شواہد کے باوجود سرحد پار دہشت گردی روکنے کی کوئی ضمانت نہیں دی۔

عطا تارڑ نے بتایا کہ افغان وفد نے بار بار اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی اور کلیدی نکات سے انحراف کیا، جب کہ پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد مکمل اور ناقابلِ تردید تھے۔ مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے رکوانا تھا۔

وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ طالبان، افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے دوران افغان وفد نے الزام تراشی، ٹال مٹول اور حیلے بہانوں کا سہارا لیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا اور عوام کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔

عطا تارڑ نے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے پر قطر اور ترکیہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دونوں ممالک نے افغان طالبان کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد گروہوں کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔

یاد رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں چار روز تک مذاکرات جاری رہے، لیکن طالبان کے موقف میں بار بار تبدیلی اور بنیادی نکات سے انحراف کے باعث بات چیت کامیاب نہ ہوسکی۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

افغان سرزمین سے دہشتگردی ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے، پاکستان

نیویارک (ویب ڈیسک) پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کو بتایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی ملک کی قومی سلامتی اور خود مختاری کے لیے ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے، سفیر عاصم افتخار احمد نے بدھ کو نیویارک میں افغانستان کی صورت حال پر بحث سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔

اپنے بیان میں انہوں نے ہمسایہ افغانستان سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی، انسانی اور سماجی و معاشی چیلنجز پر اسلام آباد کے خدشات اجاگر کیے۔

طالبان کے کابل پر قبضے (2021) کے بعد پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا، اعلیٰ سطح کے دورے کیے، انسانی امداد کی فراہمی میں مدد کی، تجارتی سامان کی نقل و حمل کو سہولت دی اور تجارت و ٹرانزٹ میں رعایتوں کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کے باوجود خطرات برقرار ہیں اور پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد گروہوں اور پراکسیز کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جس کے تباہ کن نتائج اور بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز اس کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور پورے خطے و اس سے آگے تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔’

عاصم افتخار احمد نے کہا کہ افغان حکام دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں اور پاکستان نے دہشت گرد حملوں میں اضافے کا سامنا کیا ہے، جو اُن کے بقول افغان سرزمین سے ان کی نگرانی میں منصوبہ بندی، مالی معاونت اور عملی کارروائی کے ذریعے کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’صرف اس سال ہم افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کے باعث تقریباً 12 سو جانوں سے محروم ہوئے ہیں۔ 2022 سے اب تک 214 سے زائد افغان دہشت گرد، جن میں خودکش حملہ آور بھی شامل ہیں، پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران مارے جا چکے ہیں۔‘

سفیر نے کہا کہ افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ سمیت دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں ’محفوظ پناہ‘ حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کی دراندازی کی متعدد کوششیں ناکام بنائیں اور وہاں سے چھوڑا گیا امریکی ملٹری گریڈ اسلحہ بھی برآمد کیا۔

عاصم افتخار احمد نے کہا کہ ان کوششوں کی انسانی قیمت بھی ہے، اور پاکستان کی بہادر سیکیورٹی فورسز اور شہریوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی صفوں کے اندر موجود عناصر ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کر رہے ہیں، ہمارے پاس اس باہمی تعاون کے قابلِ اعتماد شواہد موجود ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’خطے کا ایک موقع پرست اور تخریب کار ملک‘ ان دہشت گرد گروہوں کی مادی، تکنیکی اور مالی مدد کررہا ہے تاکہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف سرگرم گروہوں کو سہارا دیا جاسکے۔

افتخار احمد نے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان پر زور دیا کہ وہ غیرقانونی اسلحے کی تجارت روکنے کے لیے کوششیں تیز کرے اور سرحدی سیکیورٹی پر جامع اور غیرجانبدارانہ جائزہ پیش کرے کیونکہ سرحدی جھڑپوں کی بنیادی وجہ سرحد پار دہشت گردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے، جس میں حالیہ دوحہ اور استنبول مذاکرات بھی شامل ہیں۔

انہوں نے قطر اور ترکی کی حکومتوں کا افغان طالبان کے ساتھ مکالمے میں سہولت فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا اور طالبان سے کہا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات کریں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستان اپنے شہریوں اور سرزمین کے تحفظ کے لیے ’تمام ضروری دفاعی اقدامات‘ کرے گا۔

انہوں نے پاکستان کے ویزا نظام کا بھی ذکر کیا، جس کے تحت افغانوں کو تعلیم، صحت، کاروبار اور خاندانی ملاقاتوں کے لیے قانونی طریقے سے پاکستان آنے کی اجازت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ستمبر 2023 سے اب تک 5 لاکھ 36 ہزار سے زیادہ میڈیکل ویزے جاری کیے جا چکے ہیں۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، جڑا ہوا اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے، ایسا افغانستان جو اپنے عوام اور پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہے۔

آخر میں عاصم افتخار احمد نے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ دیرپا استحکام صرف افغان طالبان سے مخلصانہ مکالمے، بین الاقوامی ذمہ داریوں کے احترام اور مضبوط علاقائی تعاون سے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں انسانی امداد فراہم کرے اور ایسے سیکیورٹی ماحول کے قیام میں مدد کرے جو طویل مدتی ترقی اور خوشحالی کے لیے سازگار ہو۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان کا ایران میں ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دوٹوک انتباہ
  • طالبان اور افغان اولمپک کمیٹی مذاکرات؛ خواتین کھلاڑیوں کیلیے ممکنہ پیش رفت کی امید
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • افغان سرزمین سے دہشتگردی ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے، پاکستان
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے،پاکستان
  • پاکستان کو ڈیفالٹ کی خواہش رکھنے والے ناکام ہو گئے، ملک احمد خان
  • افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار