Express News:
2025-12-13@03:20:26 GMT

ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کی سیاست کا اہم حصہ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ انھوں نے پاکستان کی سیاست کو اپنے ارد گرد گھما لیا تھا۔ وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ بن گئے تھے۔ وہ ملک کے سیاسی منظر نامہ میں مرکزی حیثیت حا صل کر گئے تھے۔

ان کے دھرنے کامیاب دھرنے تھے۔ بلکہ پاکستان میں کامیاب دھرنوں کا فارمولہ انھوں نے ہی پیش کیا۔ طویل دھرنوں کا فارمولہ بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔ سیاست میں کنٹینر کو بھی طاہر القادری ہی لے کر آئے۔ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک بھی بنائی۔ انھوں نے بڑے سیاسی اتحاد بھی بنائے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ انھوں نے عملی سیاست کو خیر باد کہ دیا۔

پاکستان میں ویسے تو سیاست سے ریٹائرمنٹ کا کوئی رواج نہیں ہے۔ یہاں آپ مرتے دم تک سیاست کرتے رہتے ہیں۔ آپ جتنے پرانے ہوتے جاتے ہیں سیاست میں اتنے ہی انمول ہو جاتے ہیں۔ سنیئرز کی سیاست میں بہت قدر ہے۔ سب سیاستدانوں کو دیکھ لیں، کسی نے سیاست سے ریٹائرمنٹ نہیں لی۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری نے باقاعدہ عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ وہ آٹھ سال سے پاکستان نہیں آئے۔ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ ہم نے کبھی ان کا کوئی بیان نہیں دیکھا۔ وہ اب میڈیا کو کوئی انٹرویو بھی نہیں دیتے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی عوام سے ڈاکٹر طاہر القادری نے گوشہ نشینی کر لی ہے۔ وہ آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو جانا ہوا۔ پرانے صحافی دوست اور بھائی بدر منیر چوہدری سے ملاقات ہوئی۔

لاہور میں ایک اردو اخبار میں وہ میرے ساتھ رپورٹر تھے۔ پھر چیف رپورٹر بھی بنے۔ آجکل کینیڈ ا میں مقیم ہیں۔ ہم نے دس سال اکٹھے کام کیا تھا۔ انھوں نے کینیڈ ا میں اپنے ٹی وی میں مجھے انٹرویو کے لیے بلایا۔ وہاں کافی گپ شپ رہی۔ پرانا وقت یاد کر کے ہم دونوں ماضی میں چلے گئے۔ میں نے پوچھا یہاں ڈاکٹر ظاہر القادری ہوتے ہیں۔ بندر منیر نے کہا میرے ہمسائے ہیں۔ اکثر ملاقات ہو جاتی ہے۔ بدر نے بتایا کہ میڈیا سے کم ملتے ہیں۔ اپنے تنظیمی کام کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا میں چند دن یہاں ہوں۔ میں ملنا چاہتاہوں۔ میرا پیغام پہنچا دیں۔ بدر منیر چوہدری نے ایک ساتھی کو میرے سامنے فون پر کہا کہ پاکستان سے مزمل سہر وردی آئے ہیں۔ ملنا چاہتے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد جواب آگیا کہ اگلے دن ملنے آجائیں۔

میں ملاقات کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پہنچ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ان کی رہائش گاہ نہیں لیکن ملاقات کے لیے وہ اس گھر کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ ملاقات گرمجوشی سے شروع ہوئی۔ بطور رپورٹر میں ان کی بیٹ کور کرتا رہا ہوں۔ اس لیے کافی ملاقاتیں تھی۔ لیکن اب کئی برس سے کوئی ملاقات نہیں تھی۔ آٹھ سال سے تو وہ پاکستان ہی نہیں آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ آٹھ سال سے پاکستان نہیں آئے۔ انھوں نے کہا لکھنے کے کاموں میں اس قدر مصروف ہوں کہ پاکستان جانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ لیکن اب جاؤں گا۔ بہت سال ہوگئے پاکستان نہیں گیا۔ سیاسی حالات پر بات شروع ہوئی۔ انھوں نے کہا میرا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اٹل ہے۔

میں اس کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ بس ختم ۔ جتنا کام میرے حصہ کا تھے، میں نے کر دیا۔اب باقی کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بانی تحریک انصاف کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ وہ بانی تحریک انصاف سے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آئے۔ میں نے کہا کوئی رابطہ۔ آپ نے تو اکٹھے دھرنے دیے ہیں۔ آپ دونوں کو تو سیاسی کزن بھی کہا جاتا تھا۔ وہ مسکرائے۔ اور پھر کہنے لگے جب تک وہ وزیر اعظم رہے، کوئی رابطہ نہیں تھا۔ بطور وزیر اعظم میری اور ان کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن وزیر اعظم کے منصب سے ہٹنے کے بعد جب دوبارہ احتجاجی سیاست کی طرف آئے تو مجھے فون کیا تھا۔ شاید تب کئی سیٹوں پر ضمنی انتخاب بھی ہو رہے تھے۔ میں نے فون پر ہیلو کہتے ہی کہا کہ آپ کو میری یاد کیسے آئی۔ میں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ان کی حکومت کے رویہ کا ذکر کیا ، عوامی تحریک کے کارکنوں پر مقدمات ختم نہ کرنے پر گلہ کیا۔

ڈاکٹڑ طاہر القادری نے کہا کہ عمران خان نے کہا میں مجبور تھا۔ آپ ملیں گے تو بتاؤں گا۔ میری ٹیم سچ نہیں بتا رہی تھے اور کہا کہ میں آپ کو دوبارہ فون کرتا ہوں۔ پھر دوبارہ فون نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ 2014میں آپ نے بانی تحریک انصاف کی سیاست کو بہت کندھا دیا تھا۔ آپ ساتھ نہ ہوتے تو دھرنے کامیاب نہ ہوتے۔ مسکرائے اور کہنے لگے۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کا خیال نہیں کیا۔

میں نے کہا کہ آپ کو انداذہ ہے کہ آپ استعمال ہوئے۔ وہ بھی اکٹھے جدو جہد کے حامی تھے۔ اس کے پیچھے کیا گیم پلان تھا مجھے نہیں معلوم۔میں نے کہا آجکل کیا کر رہے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ایک ساتھی سے تعارف کروایا کہ یہ بھارت سے آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بھارت کی تمام زبانوں میں ڈاکٹڑ طاہر القادری کی تصانیف کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ دنیا کی تما م زبانوں میں ان کی تصا نیف کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے گجراتی زبان میں کتابیں مجھے بھی دیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنے کاموں میں مصروف ہوں۔ مجھے اکثر خبریں بھی نہیں معلوم ہوتیں۔ میں سوشل میڈیا پر نہیں ہوں۔ سوشل میڈیا نہیں دیکھتا۔ ٹی وی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی کچھ بتا دے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن جاننے کی کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے۔ بس بہت کر لیا۔ میں نے کہا سوشل میڈیا کا شور نہیں سنا۔ کافی درد سر بنا ہوا ہے۔ کہنے لگے سنا ہے دیکھا نہیں۔ اللہ بچائے۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہر القادری سیاست سے ریٹائرمنٹ پاکستان کی سیاست طاہر القادری نے کہ پاکستان میں نے کہا نہیں ا ئے نے کہا کہ بھی نہیں انھوں نے رہے ہیں

پڑھیں:

عمران خان: زمین سرخ ہے اور ہوا زہریلی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-03-6

 

باباالف

 

 

Gentlemen!We have crossed the Rubicon, the die is cast

حضرات! ہم روبیکون پار کر چکے ہیں، اب پانسا پھینکا جا چکا ہے۔ (واپسی ممکن نہیں۔ انجام اب مقدر کے سپرد ہے) یہ جملہ جولیس سیزر سے منسوب ہے۔ 49 قبل مسیح میں رومن قانون کے مطابق دریائے روبیکون عبور کرنا ریاست کے خلاف اعلان بغاوت تصور کیا جاتا تھا۔ سیزر نے اپنی فوج کے ساتھ جب دریائے روبیکون پار کیا تھا تب اس نے یہ جملہ کہا تھا مطلب اب تقدیر سے ٹکر لی جاچکی۔

2 دسمبر کو جیل ملاقات میں عمران خان نے اپنی بہن علیمہ خان سے گفتگو میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خلاف جو گفتگو کی اور پھر پوسٹ میں جو چرائی کٹائی کی، اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں جو مسلز دکھائے، ہر سائز کی اینٹ سے جو گھمسان کا رن برپا کیا اور معاملے کو قومی سلامتی سے مربوط کیا یہ سیاست کی معمول کی تو تو میں میں نہیں بلکہ جولیس سیزر کے الفاظ میں دریائے روبیکون کے پار اُترنے کا عمل ہے جس کے بعد واپسی ممکن نہیں رہتی۔ منزل سرابوں کی نذر ہوجاتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جو آتشیں لب و لہجہ اختیار کیا گیا، وحشتوں کے الائو بھڑکائے گئے، مرنے مارنے پر آمادگی ظاہر کی گئی وہ حیران کن تھی۔ ایسی ماحولیاتی آلودگی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ کوئلہ اور نمک کو کانوں سے اور سیاست دانوں کو دلوں سے نکالنا آسان نہیں ہوتا اور پھر عمران خان جیسے ہارٹ بریکر اور ڈریم میکر کو، لیکن پریس کانفرنس کی اوٹ سے آگ اور ایٹمی تابکاری کی وہ چنگاریاں برسائی گئیں کہ سیاست اور اہل سیاست کے جسم وجاں جھلس کررہ جائیں۔۔ عمران خان کو ذہنی مریض، نارسسٹ، میں پرست کہا گیا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ ہم سیاسی شخصیات کا ’’احترام‘‘ کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ بات درست بھی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ اس سے پہلے فوج نے شاز ہی کسی سیاست دان کے خلاف ایسی جاروب کشی کی ہو۔۔

لیکن۔۔ یہ یک طرفہ عمل نہیں تھا۔۔

عمران خان جس طرح فیلڈ مارشل عاصم منیر کی سربازار رسوائی پر کمر بستہ، ذاتی حملوں پر ہر وقت آمادہ اور بے حرمت کرنے پر تیار رہتے ہیں اور ان کے معاملے میں ’’عاصم کُشتن روزاوّل‘‘ کے محاورے پر عمل پیرا ہیں، کسی آرمی چیف کے خلاف ایسا رویہ کسی سیاست دان نے کبھی اختیار نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو کے قاتل تھے مگر اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے کبھی ان کے خلاف گالم گلوچ شعار نہیں کی۔ گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف نے پہلی مرتبہ جنرل باجوہ کا نام لے کر ان سے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے جواب طلبی کی تو بلاول زرداری نے ناگواری کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ وہ شاک ہوئے۔ ان کا موقف تھا کہ PDM کی مشترکہ حکمت عملی یہ تھی کہ اداروں پر تنقید کی جائے نہ کہ کسی فرد یا جنرل کا نام لیا جائے۔ آصف علی زرداری رمز اور اشاروں کی تہہ داری میں جنرلوں کا نام لیے بغیر اشارے کرتے رہے ہیں۔ ان کا محبوب طرز یہی رہا کہ ’’جمہوریت کے سفر میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ چند قوتیں ہمارے مینڈیٹ سے خائف رہتی ہیں۔ یہ ملک صرف بندوق والوں کا نہیں عوام کا بھی ہے‘‘۔ اسی طرح کسی آرمی چیف نے بھی کھلے بندوں کسی سیاست دان کو کبھی ٹارگٹ نہیں کیا۔

اپنے طرز سیاست سے عمران خان نے آج تک کسی کی خیریت دریافت نہیں کی۔ اہل سیاست میں شاید ہی کوئی بچا ہو جس پر انہوں نے ذاتی حملے نہ کیے ہوں۔ چور اور ڈاکو سے کم الفاظ تو وہ سیاست دانوں کو دھونے کے لیے استعمال ہی نہیں کرتے۔ جن سے بات کرنا بھی وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چلیے پھر فوج سے بات کرلیجیے۔ عمران خان بھی ایسا ہی ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ باور کرنے کے باوجود کہ پاکستان میں فوج ہی فیصلہ کن قوت ہے وہ مسلسل اور مستقل فوج سے بھی محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خلاف وہ پہلے دن سے ہی برسر جنگ ہیں لیکن جیل میں علیمہ خان سے ملاقات میں انہوں نے فیلڈ مارشل کے خلاف جو قابل سنسر گوہر افشانی کی جسے علیمہ خان بھی باہر آکر بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں۔ ظاہر وہ گفتگو ریکارڈ ہوگئی ہوگی اور بعد میں فیلڈ مارشل صاحب کو بھی سنوائی گئی ہوگی۔ جس کے ساتھ ہی عمران خان پر مصالحت کا یہ دروازہ بھی بند ہوگیا۔ یہ عمران خان کی اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ سیاست مفاہمت کا کھیل ہے۔ اہل سیاست سے بات کرنا وہ کسر شان سمجھتے ہیں، فوج سے بات چیت کا دروازہ بھی انہوں نے جلا کر راکھ کردیا۔ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ میر حسن یاد آجاتے ہیں:

ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں

آگ کی طرح جدھر جاویں دہکتے جاویں

کہا جارہا ہے کہ پریس کانفرنس میں ڈی جی صاحب کو اس قدر بھڑکنا نہیں چاہیے تھا۔ اتنا پرسنل اٹیک، اتنی ہارڈ لائن!! یہ کمزوری کی علامت تھی۔ ڈھائی برس سے جیل میں بند ایک قیدی سے دنیا کی عظیم ترین افواج میں سے ایک اور اس قدر سراسیمہ اور گھبرائی ہوئی؟؟ جسے دیکھو کوئی کام ہی نہیں ہے سوائے عمران خان کو مطعون کرنے کے۔ فوج کو خود ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا۔ حکومت کو آنکھ ماردینی چاہیے تھی۔ غالباً ایسا ہی کیا گیا لیکن حکومت کے اعلیٰ زعما نے تو سخت ردعمل نہیں دیا بس دوسرے درجے کی قیادت بمقابلہ عمران خان آگے کردی لہٰذا فوج کو خود آگے آنا پڑا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی دھواں دھار پریس کانفرنس اور جلال کا سبب یہ تھا کہ عمران خان فوج سے محض زبانی تکرار نہیں کررہے ہیں وہ فوج میں بغاوت اور پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے جسے دنیا کی کوئی فوج برداشت نہیں کرسکتی۔

مسئلہ یہ ہے کہ اپنے مزاحمتی کردار کے عمران خان نے جو اہداف مقرر کر رکھے ہیں ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ پارٹی بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ سرنگ کے دوسرے طرف کوئی روشنی نہیں۔ محسن نقوی سرگرم ہوگئے ہیں، سفری پابندیاں لگ گئی ہیں۔ جیل ملاقاتیں بند ہوگئی ہیں۔ شبلی فراز، علی امین گنڈاپور کا کوئی پتا نہیں۔ فواد چودھری لا تعلق ہیں۔ شیریں مزاری نہ جانے کہاں ہیں شیخ رشید، طاہر صادق، راجا بشارت سب منظر سے غائب ہیں۔ خوف کی چادر پوری پی ٹی آئی قیادت پر تان دی گئی ہے۔ بیرسٹر گوہر اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے کنارہ کش ہونے پر مائل ہیں۔ راجا صاحب قانونی آدمی ہیں ہارڈلائن لینا ان کے بس میں نہیں۔ سلمان راجا صاحب جیسے لوگ عمران خان کے کہنے پر کتنی ہارڈ لائن لے سکتے ہیں کچھ پتا نہیں۔ علیمہ خان اور سہیل آفریدی عمران خان کے کہنے پر فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی کوشش کرتے کرتے اب قدم بہ قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ وہ ماڈریشن کے مرحلے میں ہیں۔ اب رہے لانگ مارچ، دھرنے اور جلسے جلوس بڑے پیمانے پر ان کے امکان معدوم ہیں۔ روٹی کپڑے کے مسائل میں گھرے عوام باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ بھٹوکو پھانسی ہوئی عوام باہر نہیں نکلے، نوازشریف کی دوتہائی اکثریت والی حکومت کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ عوام باہر نہیں نکلے۔ عوام کی مسکین اکثریت ٹوٹ کر اپنے لیڈر سے محبت کرتی ہے اس کی ذات کو خلاصہ کائنات سمجھتی ہے اور پھر پھانسی کی کال کوٹھڑی تک پہنچا کر واپس آکر اپنے گھروں میں سوجاتی ہے اور صبح اٹھ کر پھر اپنے آڑے ترچھے مسائل کے حل کرنے میں لگ جاتی ہے جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کوئی سلجھانے نہیں آئے گا۔ اس نظام میں ان کے مسائل کا حل موجود نہیں چاہے کوئی آئے کوئی جائے۔

بابا الف

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو اسلامی فلاحی‘ معتدل ریاست بنائیں گے: طاہر اشرفی کی اپیل پر علماء کا عزم
  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل
  • عمران خان: زمین سرخ ہے اور ہوا زہریلی
  •   فیض حمید کے خلاف قانون اور آئین کا حرکت میں آنا ناقابل تصور تھا، طارق فضل چوہدری
  • طالبان اور افغان اولمپک کمیٹی مذاکرات؛ خواتین کھلاڑیوں کیلیے ممکنہ پیش رفت کی امید
  • کسی نام نہاد سیاست دان کو پاک فوج کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، علامہ ضیاء اللہ
  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل چوہدری
  • افغانستان سے باہر دہشتگردانہ سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے سے متعلق افغان علما کے اعلامیے کا مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے خیر مقدم
  • ریاست کے علاوہ کوئی جہاد کا حکم نہیں دے سکتا، فیلڈ مارشل عاصم منیر کا علما کنونشن سے خطاب
  • دنیا امن و استحکام کیلئے انسانی حقوق کا احترام کرے، ڈاکٹر طاہر القادری