Jasarat News:
2025-11-11@23:26:34 GMT

غزہ جنگ بندی کا مستقبل!

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-3

 

مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیس نکاتی امن فارمولے کے تحت ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ ہنوز نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل حملے جاری ہیں، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد اب تک کم از کم 242 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 622 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ مغربی کنارے میں صہیونی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی شہریوں پر حملوں میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔ قابض اسرائیلی سیکورٹی اداروں کے مطابق اکتوبر کے آخر تک صہیونی آبادکاروں کے ہاتھوں فلسطینیوں پر 704 نسلی بنیادوں پر مبنی حملے ریکارڈ کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں آبادکاروں کے حملوں کی تعداد 2006ء کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ صرف ایک ماہ میں 264 حملے ریکارڈ کیے گئے جو روزانہ اوسطاً آٹھ حملوں سے زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال اب تک 1485 حملے درج کیے گئے ہیں۔ غزہ پر مسلط جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں 986 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت قابض اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے دوران شہید ہوئی۔ جب کہ 3481 فلسطینی مختلف علاقوں میں فوجی چھاپوں، فائرنگ اور جھڑپوں میں زخمی ہوئے۔ پیش آمدہ صورتحال میں غزہ آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے ایک طرف اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا اور تباہ شدہ علاقوں کی بحالی کا سوال ہے تو دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر ایک نئی فورس کی تعیناتی کا فارمولا زیر ِ بحث ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فورس کس کی ہوگی؟۔ اطلاعات ہیں کہ امریکا نے غزہ سیز فائر ہیڈکوارٹر میں اسرائیل کو فیصلہ سازی سے باہر کر دیا، ان میں اختلافات شدت اختیار کر گئے، اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو ثانوی حیثیت دیدی، تمام اہم فیصلے خود کر رہا ہے، ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) غزہ کا انتظام سنبھالے گی جس کی تعداد بیس ہزار ہوگی جنہیں دوسالہ مینڈیٹ دیا جائے گا، جس کے بعد اسرائیلی افواج وہاں سے انخلا کریں گی۔ تاہم واشنگٹن اپنی افواج نہیں بھیجے گا، آئی ایس ایف میں شرکت کے لیے ترکی، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور آذربائیجان سے بات چیت ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے ترکیے کی افواج کی ممکنہ شمولیت پر اعتراض کیا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم کی ترجمان سوش بیڈروسیئن کا کہنا ہے کہ غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فورس میں ترکیے کے فوجی دستوں کے شامل کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں اسرائیلی وزیراعظم آفس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگے گا، جبکہ عرب ممالک حماس سے براہ راست تصادم کے خدشے کے باعث محتاط ہیں۔ اس دوران امریکا نے اپنے امن منصوبے کو اقوام متحدہ کی قرارداد میں مکمل طور پر شامل کر لیا ہے، جس کے تحت مستقبل میں غزہ کا انتظام بورڈ آف پیس سے فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کیا جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کے نائب صدر حسین الشیخ کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی غیر ملکی فورس صرف اقوام متحدہ کی قرارداد پر آئے گی، جس کے اختیارات محدود ہوں گے اور فلسطینی سیکورٹی اداروں کے ساتھ اس کی مکمل ہم آہنگی لازمی ہوگی، فلسطینی اتھارٹی کو خدشہ ہے کہ یہ فورس فلسطینی کردار کو نظر انداز کرے گی تو غزہ کو مغربی کنارے سے ہمیشہ کے لیے الگ کر دے گی۔ ادھر حماس نے رفح کی سرنگوں میں پھنسے اپنے جنگجوؤں کے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے پیشکش کی تھی کہ حماس اپنے ہتھیار قومی سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دے تاکہ غیر ملکی فوج آنے کی نوبت نہ آئے۔ حماس نے ہتھیاروں کو ’’مقدس‘‘ قرار دیتے ہوئے انکار کر دیا اور کہا کہ ہتھیار صرف فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی زیر بحث آ سکتے ہیں۔ غزہ میں فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے حماس کا موقف یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی امن فورسز کی تعیناتی کو قبول کرے گی، جو صرف جنگ بندی کی نگرانی اور غزہ کی تعمیر نوکے لیے کام کرے، لیکن اسے کسی بھی طرح کی غیر ملکی مداخلت، کنٹرول یا اسرائیلی فوج کا متبادل نہیں سمجھاجائے گا۔ حماس کے سینئر اہلکار موسیٰ ابو مرزوق کا کہنا ہے کہ اگر یہ امن فورس نہیں بلکہ سیکورٹی فورس ہے تو یہ اسرائیلی فوج کا متبادل بن جائے گی، جو ٹرمپ کی تجویز کا حصہ نہیں تھی۔ کہا جارہا ہے کہ غزہ کا مستقبل تین بڑے سوالات پر منحصر ہے، کیا حماس ہتھیار چھوڑے گی؟، کیا بین الاقوامی فورس فلسطینی خودمختاری کی دشمن بنے گی؟ کیا عرب ممالک فلسطینی دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکیں گے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے فلسطینی عوام کو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ مذکورہ بالا صورتحال موہوم خدشات کا باعث بن رہے ہیں۔ صورتحال جو بھی ہو حماس نے جرأت مندانہ موقف اختیارکرکے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ امت مسلمہ کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکمران بالخصوص غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے والے مسلم ممالک صورتحال کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں، اور امریکا و اسرائیل کی کسی بھی درپردہ سازشوں کا حصہ نہ بنیں اور اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لیں۔

 

گوہر ایوب.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی اقوام متحدہ کی اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ کے مطابق کہ غزہ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اسرائیلی پارلیمنٹ :فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے قانون کا پہلا مرحلہ منظور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-08-29
تل ابیب /غزہ/ دوحا /لندن (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن /صباح نیوز) اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) نے پہلے مرحلے میں ایک بل کی منظوری دی ہے جو فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دیتا ہے۔ ترکیے کے خبر رساں ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نشریاتی ادارے ’کان‘ نے رپورٹ کیا کہ یہ بل پیر کی رات 120 ارکان میں سے 39 کی حمایت سے منظور ہوا، بل کے خلاف 16ووٹ ڈالے گئے۔ اجلاس کے دوران عرب رکنِ پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہا پسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے درمیان سخت تکرار ہوئی، جو تقریباً ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی۔ یہ قانون سازی بن گویر کی انتہاپسند یہودی پاور پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی تھی، ووٹنگ سے پہلے مسودہ قانون کو کنیسٹ کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا تاکہ اسے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے تیار کیا جا سکے، جو حتمی منظوری کے لیے ضروری مراحل ہیں۔قانون کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’جو کوئی جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے باعث کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے اور اس کا مقصد نسل پرستی، نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہو، اسے سزائے موت دی جائے گی‘۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک بار سزا سنائے جانے کے بعد اسے کم نہیں کیا جا سکے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے بن گویر کے اس قانون کے اقدام کی مذمت کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون خاص طور پر فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے اور نظامی امتیاز کو مزید گہرا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک بچے سمیت 2 فلسطینی شہید ہو گئے۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے حملے تھم نہ سکے، اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے دوران 31 میں سے 25 دن حملے جاری رکھے۔ عرب میڈیا کے مطابق جنگ بندی کے بعد صہیونی حملوں میں 242 فلسطینی شہید، 622 زخمی ہوئے، 19 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی حملوں میں 154 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیل نے 10 اکتوبر سے 10 نومبر تک 282 خلاف ورزیاں کیں، اسرائیل نے ایک ماہ میں غزہ پر 124 بار بمباری اور 52 بار مکانات تباہ کیے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل روک کر انسانی بحران کو مزید بڑھایا، صہیونی فورسز کی جانب سے غزہ میں بنیادی ڈھانچے اور رہائشی عمارتوں کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل سمجھوتے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ حماس کے  ترجمان حازم قاسم نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل نے سمجھوتوں کے نقشوں پر عمل نہیں کیا اور شمالی غزہ میں خصوصی طور پر یلو لائن کو بڑھانے کی جان بوجھ کر کوشش کی ہے۔ لندن کے علاقے ویسٹ منسٹر کی سڑکیں گزشتہ روز سرخ رنگ سے رنگ گئیں جب ’’فلسطینی اسیران کی رہائی‘‘ کے عنوان سے ایک علامتی مہم کا آغاز کیا گیا۔ اس مہم کا مقصد برطانوی اور عالمی رائے عامہ کی توجہ ان ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی جانب مبذول کرانا ہے جو قابض اسرائیل کی جیلوں میں برسوں سے انسانیت سوز مظالم جھیل رہے ہیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی پارلیمنٹ :فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے قانون کا پہلا مرحلہ منظور
  • فلسطینی بچوں پر اعتبار نہیں ہو سکتا
  • حماس نے ایک اور اسرائیلی  فوجی کی لاش واپس کردی
  • حماس نے 11 سال قبل ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجی کی لاش واپس کر دی
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی بمباری،متعدد فلسطینی شہید
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے بند نہ ہوئے‘ شہدا کی تعداد 79 ہزار سے متجاوز
  • رفح کی سرنگوں میں حماس فورسز کی موجودگی سے اسرائیل کو لاحق خوف
  • 2014 کی غزہ جنگ میں ہلاک افسر کی باقیات واپس لائیں گے، اسرائیلی فوج
  • 2014 غزہ جنگ میں مارے گئے افسر کی باقیات وطن واپس لائیں گے، اسرائیلی فوجی سربراہ