انسانی دماغ کتنی’’ میموری اسپیس‘‘رکھتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
آپ کے کمپیوٹر میں محدود ڈیٹا محفوظ ہو سکتا ہے۔ جب وہ حد پوری ہو جائے تو نہ صرف آپ مزید فائلیں، پروگرام یا ایپس ڈاؤن لوڈ یا اپ ڈیٹ نہیں کر سکتے بلکہ جو پہلے سے موجود ہیں، وہ بھی کم مؤثر طریقے سے چلنے لگتے ہیں۔
کیا ہمارے دماغ کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے؟ کیا ہمارا دماغ بھی میموری اسٹوریج سے خالی ہو سکتا ہے؟ آپ کو یہ جان کر سکون ملے گا کہ جواب ہے: "نہیں۔" انسان کا دماغ تقریباً لامحدود اسٹوریج کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ صرف دماغی خلیوں یا نیورونز کی بڑی تعداد نہیں (عام طور پر بتایا جانے والا ہندسہ تقریباً 86 ارب نیورانز ایک تخمینہ ہے) بلکہ اس کی اصل وجہ یہ کہ یہ دماغی خلیے کس طرح منظم ہوتے ہیں۔
دماغ میں لامحدود یادداشتیں: جب آپ کچھ سیکھتے ہیں تو دماغ کے بہت سے خلیے ایک ساتھ متحرک ہوجاتے ہیں۔ آپ صرف ایک نیورن پر انحصار نہیں کرتے کہ وہ یادداشت محفوظ کرے بلکہ نیورنز کا ایک گروہ اس عمل میں شامل ہوتا ہے۔ اور جب آگے چل کر کبھی آپ اُس یادداشت کو یاد کرتے ہیں تو وہ پورا نیٹ ورک دوبارہ متحرک ہو جاتا ہے۔
انسان کے دماغ میں ہر یادداشت نیورنز کے ایک مخصوص نیٹ ورک سے وابستہ ہوتی ہے۔ لیکن وہی نیورنز کئی مختلف یادداشتوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ میتھیو لیٹل امریکہ کی اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی سے وابستہ نیوروسائنٹسٹ اور یادداشت بننے کے عمل کا مطالعہ کرتے ہیں۔وہ وضاحت کرتے ہیں کہ انسانی دماغ بنیادی طور پر لامحدود میموری کی صلاحیت کا حامل ہے کیونکہ یادداشتوں کا نیٹ ورک منظم کرنے کے بے شمار طریقے ہیں۔’’
٭ دماغ میں یادداشت کیسے کام کرتی ہے؟ یادداشتوں کا نیٹ ورک بنانے والے خلیے لازمی نہیں کہ دماغ کے ایک ہی حصے میں ہوں، وہ دماغ کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوتے ہیں۔تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی یادداشت ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ کو یاد ہے کہ آپ نے ایک نیلا پھول سونگھا تھا ، تو "نیلا" حصہ دماغ میں ایک حصے کے نیورنز سے جڑا ہوگا جبکہ "خوشبو" والے حصے کا تعلق دماغ کے کسی دوسرے حصے کے نیورنز سے ہوگا۔پھر بھی وہ نیورنز چاہے دماغ کے جس حصے میں بھی ہوں، اصل فرق انفرادی نیورنز نہیں بلکہ نیٹ ورک کے پیٹرن یا نمونے میں ہوتا ہے۔وہی یادداشتوں کو مختلف بناتا ہے۔لیٹل کہتے ہیں’’یہ ایسا نہیں ہے کہ دماغ میں ایک ہزار نیورنز ہیں اور ان میں سے دس آپ کی ماں کی یادداشت سے متعلق ہیں اور دس آپ کے کتے کی یادداشت سے۔‘‘
ہمارے دماغ میں ممکنہ نمونوں کی تعداد یعنی 86 ارب کے قریب نیورنز کو مختلف طریقوں سے ملا کر متفرق یادداشتیں بنانے کے امکانات تقریباً لامحدود ہیں۔ لہذا آگے بڑھیے اور زولو زبان کے سارے فعلوں کے صیغے یاد کر لیں۔یا پھر روسی موسیقار، راخمانینوف کے "پِیانو کنسرٹو نمبر 3" بجانا سیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کے دماغ میں ہر کام کے لیے کافی یادداشت ہوگی بلکہ اس کے بعد بھی بہت کچھ محفوظ کرنے کی گنجائش بچے گی۔
٭ کیا ہماری یادداشتیں ہمیشہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں؟ ایک امر میں دماغ اور کمپیوٹر میں کچھ مماثلت ضرور ہے۔ جب آپ کمپیوٹر پر کوئی فائل کھولتے اور پھر بند کرتے ہیں تو وہ دوبارہ محفوظ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ نے اس فائل میں کوئی تبدیلی کی تو وہ بھی فائل کا حصہ بن جاتی ہے، سوائے اس کے کہ آپ کمپیوٹر کو خاص طور پر ہدایت دیں کہ تبدیلیاں محفوظ نہ کرے۔ یادداشت بھی کچھ اسی طرح کام کرتی ہے۔ لیٹل کے مطابق ’’جب بھی ہم اپنی پرانی یادداشتیں یاد کرتے ہیں تو ہم انہیں ایسے کھول لیتے ہیں کہ ان میں نئی معلومات شامل کر سکیں۔ اور یوں وہ کمزور ہو جاتی ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ آپ اور آپ کے بہن بھائی جب بچپن کی یادوں کو مختلف انداز میں یاد کرتے ہیں تو کبھی معمولی فرق ہوتا ہے اور کبھی وہ بالکل مختلف ہو جاتی ہیں۔لیٹل کہتے ہیں ، ایک ہی واقعے کی یادیں مختلف ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ قدرتی طور پر مختلف سمتوں میں بہتی ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ اصل میں کون سی صحیح ہے۔
٭ یادداشت کیسے بدل سکتی ہے؟ یہ خصوصیت ظاہر کرنے کے لیے ایک مشہور تجربہ کیا گیا۔ جنوری 1986ء میں جب اسپیس شٹل ’’چیلنجر‘‘ دھماکے سے تباہ ہوا تو یہ منظر لاکھوں لوگوں نے دیکھا، یا تو براہِ راست یا پھر خبروں میں فوراً بعد۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جسے لیٹل ‘‘انتہائی نمایاں ثقافتی واقعہ’’ قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کی ایموری یونیورسٹی کے پروفیسر الٹرک نیسر نے جو علمی نفسیات (cognitive psychology ) کے بانی مانے جاتے ہیں، اس موقع کو ایک تجربے کے لیے استعمال کیا۔ دھماکے کے اگلے دن انہوں نے اپنے فرسٹ ایئر کے طلبہ کو ایک سوالنامہ دیا جس میں ان سے اس واقعے سے متعلق تجربات پوچھے گئے۔مثال کے طور پر یہ کہ آپ کہاں تھے؟ کس کے ساتھ تھے؟ کیا کر رہے تھے؟ یہ کب ہوا؟ تین سال بعد انہوں نے انہی طلبہ سے وہی سوالات دوبارہ کیے۔ جواب دینے والوں میں سے 40 فیصد سے زیادہ نے ایسی تفصیلات بتائیں جو ان کے پہلے جوابات سے میل نہیں کھاتی تھیں۔لیٹل کے مطابق’’یہ یادداشتیں بالکل غلط تھیں، لیکن پھر بھی طلبہ کو ان پر پورا یقین تھا۔‘‘
اسی طرح کی متضاد یادداشتیں دیگر بڑے واقعات کے بارے میں بھی سامنے آئی ہیں، جیسے صدر کینیڈی کے قتل یا 2001 ء کے دہشت گرد حملے۔لیٹل وضاحت کرتے ہیں کہ ان حالات میں کیا ہوتا ہے:’’ آپ اپنے نیورانز کے نیٹ ورک کو دوبارہ کھولتے ہیں اور اگر یہ کوئی بہت نمایاں یادداشت ہو تو ہر بار اس میں چھوٹے چھوٹے تغیرات آ سکتے ہیں۔ کئی برسوں میں یہ یادداشت آہستہ آہستہ کچھ اور شکل اختیار کر لیتی ہے۔‘‘وہ مذید کہتے ہیں:
’’واقعے کا بنیادی حصہ تو عام طور پر وہیں رہتا ہے لیکن کناروں پر موجود تفصیلات گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ اصل واقعہ نہیں بلکہ اپنی یادداشت تازہ کرنے لگتے ہیں۔‘‘لہٰذا آپ اپنی یادداشتوں کا ذخیرہ ختم ہونے کی فکر نہ کریں لیکن ان پر سو فیصد بھروسا کرنا اکثر مشکل ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
دنیا کے 16ممالک میں شدید خوراک کی کمی، لاکھوں افراد کو قحط کا خطرہ، اقوام متحدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (FAO) اور عالمی خوراک پروگرام (WFP) نے مشترکہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے 16 علاقوں میں شدید غذائی قلت بڑھ رہی ہے اور نومبر 2025 سے مئی 2026 کے دوران لاکھوں افراد قحط کا شکار ہو سکتے ہیں۔
عالمی رپورٹس کے مطابق زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں بھوک کی بنیادی وجہ جنگ اور تشدد ہیں، اور سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں ہائٹی، مالی، فلسطین، جنوبی سوڈان، سوڈان، اور یمن شامل ہیں جہاں آبادی کو فوری طور پر شدید غذائی قلت کا سامنا ہے، افغانستان، کانگو، میانمار، نائجیریا، صومالیہ اور شام کو انتہائی خطرہ والے علاقے قرار دیا گیا، جبکہ برکینا فاسو، چاڈ، کینیا اور بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین بھی شدید حالات سے دوچار ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کے لیے فنڈز انتہائی کم ہیں۔ اکتوبر کے آخر تک صرف 10.5 ارب ڈالر وصول ہوئے ہیں جبکہ 29 ارب ڈالر کی ضرورت تھی، جس کی وجہ سے خوراک کی تقسیم کم کی گئی اور غذائی و اسکول فیڈنگ پروگرام معطل کر دیے گئے۔
ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل QU Dongyu نے کہا کہ دنیا کے الرٹ سسٹمز کام کر رہے ہیں، لیکن ہمیں بحران کے بعد ردعمل دینے کے بجائے پہلے سے روکنے پر توجہ دینی چاہیے، قحط کی روک تھام صرف اخلاقی فرض نہیں بلکہ طویل مدتی امن اور استحکام میں سرمایہ کاری ہے، امن خوراک کی حفاظت کے لیے بنیادی شرط ہے اور خوراک تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے۔
WFP کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر Cindy McCain نے کہا کہ ہم ایک مکمل طور پر قابلِ روک بھوک کے بحران کے دہانے پر ہیں جو کئی ممالک میں وسیع پیمانے پر قحط کا سبب بن سکتا ہے۔
رپورٹ میں فوری فنڈنگ، سیاسی عزم اور انسانی ہمدردی کے لیے بغیر رکاوٹ رسائی کی اپیل کی گئی ہے تاکہ وقت سے پہلے قحط کی روک تھام کی جا سکے۔