نہ وہ زمانہ رہا نہ فیض صاحب کہ کہہ سکیں:
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
کیا خوبصورت شعر ہے اور لفظ ’’قلم‘‘ کو کس طرح ذومعنی انداز میں بیان کیا ہے کیسی خاموشی طاری ہے، سب کچھ وہی ہے جو برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ میڈیا پر کچھ ایسا پڑھ کر پھونک دیا گیا ہے کہ جیسے پرانی کہانیوں میں ہوتا تھا کہ راہ طلب کے مسافر کو کوئی سنجیدہ بزرگ یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’میاں تین کھونٹ جانا چوتھے کھونٹ کی طرف دیکھنا بھی نہیں ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔‘‘ اب ہمارا میڈیا بھی چوتھا کھونٹ ہو گیا ہے، ایک نامعلوم سی چپ سب کو لگ گئی ہے۔ یوں کہنے کو 24/7 پروگرام ہو رہے ہیں، ٹاک شوز میں وہ دم خم نہ رہا جو پہلے تھا۔
سب کچھ چوتھے کھونٹ کی موجودگی ہے، لکھنے والے کالم بھی لکھ رہے ہیں لیکن جب سے میڈیا پر صور پھونکا گیا ہے، نہ کالموں میں مزہ رہا نہ ٹاک شوز میں وہ گرما گرمی رہی جو پہلے تھی۔ ایسے دور پہلے بھی آئے ہیں جب ڈکٹیٹروں نے آئین کو پامال کیا، سوچ پر پہرے بٹھائے گئے لیکن ایک رکھ رکھاؤ تھا جو اب ناپید ہے۔ جیسا سناٹا آج کل طاری ہے ایسا ماحول پہلے کبھی نہ تھا۔اب یہی سوچتے دن گزر جاتا ہے کہ کیا لکھیں؟ اگر کسی لیڈر کا نام لکھ دیا تو ہمارا قلم مورد الزام ٹھہرے گا، سچ بولنا ممنوع ہے، کوئی نیا پریس اینڈ پبلی کیشن آر ڈی نینس نافذ نہیں ہوا، لیکن میڈیا پر کوئی ایسا صور اسرافیل پڑھ کر پھونکا گیا ہے کہ سب خاموش ہیں، کوئی نایاب خوشبو سنگھائی گئی ہے جو سب چادر اوڑ کر سو رہے ہیں، تب کتابوں پہ لکھنا شروع کر دیا، قارئین نے پسند کیا، لیکن سیاست پر پابندی کے بعد کالم لکھنے کا مزہ نہ رہا۔ پھونک پھونک کے قلم چلانے میں ایک بے کیفی پیدا ہو گئی۔تب سوچا کہ ایک کالم موسیقی پر لکھا جائے، موسیقی، خاص کر سیمی کلاسیکل موسیقی میری بہت بڑی کمزوری ہے۔ شعور کی آنکھ کھلتے ہی جو دیکھا تو گھر کو کتابوں سے بھرا پایا، موسیقی کے معاملے میں میرے والد مجھے ’’کن رسیا‘‘ کہتے تھے۔
دادی کو نعتیں سننے کا شوق تھا، والد کلاسیکل موسیقی کے تربیت یافتہ تھے، ستار اور وائلن بہت اچھا بجاتے تھے، سول سروسز میں ہونے کے باوجود موسیقی سننا اور کتابیں پڑھنا ان کا اولین مشغلہ تھا۔ اسی کتاب دوستی اور موسیقی کی نرم آوازوں کے ساتھ ہم بہن بھائیوں کی پرورش ہوئی۔ میری والدہ کو امیر خسرو کے دوہے، اور گیت بہت پسند تھے۔ امیر خسرو کا ایک منڈھا ’’کاہے کو بیاہی بدیس رے لکھیا بابل مورے‘‘ سارے گھر کو پسند تھا، منڈھا اس گیت کو کہا جاتا ہے جو لڑکی کے وداع ہوتے وقت عورتیں گاتی تھیں، اس منڈھے کو مظفر علی نے نہایت خوبصورتی سے فلم امراؤ جان میں فلم بند کیا ہے۔ جب امراؤ جان ایک مجرے کے لیے لکھنو آتی ہے تو وہ اپنے والدین کے گھر کے قریب آتی ہے اور جب محلے میں پہنچتی ہے تو اسے سارے مناظر یاد آ جاتے ہیں۔ موسیقی تو ایک سمندر ہے، کہا جاتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور یہ بالکل سچ ہے۔ آپ غم زدہ ہیں تو موسیقی آپ کو سہارا دے گی، خوش ہوں گے تب بھی موسیقی آپ کے جذبات سے ہم آہنگ ہو جائے گی۔
آج میں ان فلمی گیتوں کی بات کروں گی جو مجھے بہت پسند ہیں۔ فلمی موسیقی میں بھی بڑے کمال کے گیت لکھے گئے اور کمال کی موسیقی سے انھیں مزین کیا گیا۔ بڑے قدم آور اور مہان شاعروں نے فلمی گیت لکھے، جیسے کیفی اعظمی مجاز، جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی، سیف الدین سیف، مجروح سلطان پوری وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی طرح بڑے موسیقاروں نے ان گیتوں کو موسیقی کی مالا میں پرو دیا۔ پاکستان میں بھی ابتدائی طور پر جو فلمیں بنیں ان میں اعلیٰ درجے کی موسیقی ترتیب دی گئی۔ جیسے حسن طارق کی فلمیں انجمن، تہذیب، امراؤ جان، کوئل، انصاف اور آدمی، عندلیب وغیرہ۔ خواجہ خورشید انور، رشید عطرے اور نثار بزمی جیسے ماہر موسیقاروں نے خوبصورت نغمے تخلیق کیے۔ موسیقی، خوشبو اور ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہ تو خودبخود انسان کے وجود کو متاثر کرتی ہے۔ یہاں میں صرف ان گیتوں کا ذکر کروں گی جو مجھے بہت پسند ہیں۔
سب سے پہلے ذکر ہو جائے کندن لال سہگل کا جن کی گائیکی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ سہگل ایک مہان گائیک تھے، وہ برصغیر کے پہلے سپر اسٹار تھے۔ یہی نہیں بلکہ پہلے پلے بیک سنگر بھی تھے۔ سہگل کا جنم 1904 میں جموں میں ہوا تھا۔ جو شہرت سہگل کے حصے میں آئی وہ کسی اور گائیک کے حصے میں نہیں آئی۔ وہ صرف گائیک نہیں تھے بلکہ اداکار بھی تھے۔ سہگل کے بے شمار گانے ہیں سارے ہی بہت پر اثر ہیں لیکن یہ گیت مجھے بہت پسند ہیں:
1۔جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے
الفت کا دیا ہم نے اس دل میں جلایا تھا
امید کے پھولوں سے اس گھر کو سجایا جاتا
اک بھیدی لوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے
معلوم نہ تھا اتنی مشکل ہیں میری راہیں
ارماں کے ہے آنسو حسرت نے بھری آہیں
(فلم شاہجہاں،1946)
2۔غم دیے مستقل کتنا نازک دل یہ نہ جانا
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
3۔بالم آئے بسو مورے من میں
(فلم دیوداس،1935)
ساون آیا تم نہ آئے
4۔بابل مورا نیہر چھوٹو ہی جائے (دیوداس)
تم بن رسیا کچھ نہ بھائے
مکیش کو بھی شہرت اس وقت نصیب ہوئی جب انھوں نے فلم ’’آگ‘‘ میں یہ گیت سہگل کے انداز میں گایا۔ میں بھی ایک عرصے تک یہی سمجھتی رہی کہ یہ گیت سہگل کا ہے لیکن میرے بڑے بھائی نے اس کی تصحیح کی اور بتایا کہ یہ گیت مکیش کا ہے:
زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں مگر روشنی نہیں
فلم ’’آگ‘‘ 1948 میں بنی تھی لیکن مکیش کی ایک اور فلم ’’پہلی نظر‘‘ جو 1945 میں بنی تھی جس کا سنگیت دیا تھا انل بسواس نے اور اس کے شاعر تھے صفدر سیتاپوری۔ یہ گیت بھی سہگل کی طرز پر مکیش نے گایا تھا اور بہت مقبول ہوا تھا۔ موسیقی کے دیوانے بہت عرصے تک دونوں گیتوں کو سہگل کے گیت سمجھتے رہے:
دل جلتا ہے تو جلنے دے آنسو نہ بہا فریاد نہ کر
تو پردہ نشیں کا عاشق ہے یوں نام وفا برباد نہ کر
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹام کروز کا 45 سالہ انتظار ختم، بالآخر پہلا آسکر مل گیا
امریکہ (ویب ڈیسک) ہالی ووڈ کے مقبول ترین ایکشن ہیرو ٹام کروز کو بالآخر اُن کے طویل اور شاندار کیریئر کے اعتراف میں پہلا اعزازی آسکر ایوارڈ دے دیا گیا۔ یہ وہ اعزاز ہے جس کا انتظار انہوں نے تقریباً ساڑھے چار دہائیوں تک کیا۔
اتوار کی شام لاس اینجلس میں ہونے والی سالانہ گورنرز ایوارڈز کی پروقار تقریب میں اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز نے ٹام کروز کو یہ ٹرافی پیش کی، اور حاضرین نے انہیں ایک منٹ تک کھڑے ہو کر داد دی۔
63 سالہ اداکار کو اپنے پورے کیریئر میں بہترین اداکاری کے لیے چار بار نامزدگیاں ملیں لیکن وہ کبھی آسکر جیت نہ سکے۔ اس بار بھی انہیں کسی فلمی کردار پر ایوارڈ نہیں ملا، بلکہ ان کی مجموعی خدمات، اثر انگیزی اور سینما میں غیر معمولی شراکت کے احترام میں یہ اعزاز دیا گیا۔
ٹرافی وصول کرتے ہوئے ٹام کروز نے مسکراتے ہوئے کہا ’’فلمیں بنانا صرف میرا کام نہیں، یہ میرا وجود ہے۔‘‘
انہوں نے اپنے فلمی سفر کے دوران ساتھ رہنے والے تمام ہدایتکاروں، فنکاروں اور ساتھی ٹیم کا شکریہ بھی ادا کیا۔
اس سال اعزازی آسکر پانے والوں میں ٹام کروز کے ساتھ مزید نام بھی شامل رہے، جن میں مشہور کوریوگرافر ڈیبی ایلن، ویژنری پروڈکشن ڈیزائنر وین تھامس اور معروف گلوکارہ ڈولی پارٹن شامل ہیں۔