افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ اور بڑھتا ہوا استعمال!
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
منشیات کے استعمال کی تاریخ بھی انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ انسان اس کا استعمال شاید ازل سے ہی کرتا آرہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں ایسی قدرتی اور خودرو جڑی بوٹیاں موجود ہیں کہ جن کے استعمال سے نشہ ہوتا ہے۔ قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی البتہ اسلام نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیکر مسلمانوںکو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے لیکن آج دنیا کے دیگر ممالک کی مانند اسلامی ممالک میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ جبکہ افغانستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مقدار میں منشیات کی پیدوار ہوتی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے منشیات کی اسمگلنگ کے لیے مشہور ہیں۔ اس کا استعمال بھی خیبر سے کراچی تک ہے اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ چھے لاکھ سے زائد پاکستانی نشہ کرنے والوں کو منشیات نہ ملے تو اس وجہ سے ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔
اے این ایف نے صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔ سال 2024-2025 کے دوران اب تک صوبے بھر میں 100سے زائد مختلف نوعیت کی آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے خلاف آگاہی اجاگر کرنے کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اس وقت 90 فی صد منشیات افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے۔ جس میں سے 40 فی صد
منشیات پاکستان اسمگل کر دی جاتی ہیں اور پھر پاکستان سے آگے مختلف ممالک کو اسمگل ہوتی ہیں اور باقی 50 فی صد منشیات افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک براستہ بندر عباس ایران اور مختلف دوسرے راستوں سے آگے اسمگل کر دی جاتی ہیں۔ ویسے تو طالبان کی حکومت نے افغانستان میں پوست پر پابندی کو بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پوست کی کاشت واقعی رکی ہے تو پھر میتھ ایمفیٹامین (آئس) کی یلغار کے سامنے حکومت خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے؟ 2025 کے تازہ ترین یو این او ڈی سی اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں پوست کی کاشت 20 فی صد گھٹ کر 10,200 ہیکٹر رہ گئی ہے جبکہ فصل 32 فی صد کم ہو کر 296 ٹن پر آ گئی۔ حیران کن طور پر خشک افیون کی قیمت بھی 27 فی صد گر کر تقریباً 570 ڈالر فی کلو ہوگئی ہے یہ رجحان صاف بتاتا ہے کہ منڈی افیون سے ہٹ کر آئس جیسے سنتھیٹک نشوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب طالبان حکومت نے پوست پر پابندی لگا رکھی ہے تو آئس کی لیبارٹریاں ان کی ناک کے نیچے کیوں پنپ رہی ہیں؟ کیا حکومت واقعی بے بس ہے؟ یا یہ کاروبار سیاسی و معاشی سرپرستی میں پروان چڑھ رہا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر پریکر سر کیمیکلز کی آزادانہ نقل و حرکت، سرحدوں سے آئس کی ترسیل اور اندرونِ ملک نیٹ ورکس کی توسیع کس کی ناکامی ہے؟
افغانستان اب ایک ایسے دہانے پر کھڑا ہے جہاں منشیات، سیاست اور طاقت کی بھوک نے ایک نیا عفریت جنم دے دیا ہے۔ پوست کے کھیت مٹ چکے ہیں مگر زہر اب لیبارٹریوں میں پک رہا ہے۔ آئس کی معیشت نے سرحدوں، قانون اور اخلاق سب کو پامال کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک منشیات کا بحران نہیں، یہ ریاست کی رگوں میں بہتا زہر ہے جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اگر طالبان حکومت اور عالمی قوتیں اب بھی خاموش رہیں تو یہ زہر صرف افغانستان نہیں، بلکہ پورے خطے کے مستقبل کو مفلوج کر دے گا۔ چار دہائیوں پر مبنی افغان بدامنی نے جہاں پاکستان کی معیشت پر بے پناہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہاں معاشرے کے نوجوان طبقے میں بگاڑ پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں بیس کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکا میں کیا جاتا ہے۔ ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75 فی صد لوگ ذہنی دبائو اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں 2 ملین کے قریب لوگ صرف ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 43 فی صد نوجوان الکوحل اور دیگر نشہ آور اشیا استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ بنیادوں پر اوسطاً چار کروڑ سے افراد منشیات کے استعمال کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال 80 لاکھ سے زیادہ لوگ مرتے ہیں جن میں سے 12 لاکھ اموات صرف غیر فعال تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں منشیات کے استعمال پر قابونہ پایا گیا تو صورتحال کس طرف جاسکتی ہے تاہم مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے موثر پالیسی اور جامع منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کا فقدان ہے۔ اب تک نہ ہی الگ سے کوئی فورس تشکیل دی گئی ہے جو پتا چلا سکے کہ تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیا کیسے پہنچتی ہیں اور کیسے بکتی ہیں اور اس سلسلے کا تدارک کیونکر ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اس مسئلے کے حل کی کوششوں کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں، اس پر تحقیق کریں اور تمام تر توانائیوں اور وسائل کے استعمال سے نوجوان نسل کو اس لعنت سے نجات دلانے اور اس کا مستقبل محفوظ بنانے کی سعی کریں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: منشیات کے استعمال میں منشیات کا استعمال منشیات کی سے زیادہ کے مطابق دنیا میں ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
گریٹر کراچی پلان 2047ء؛ شہرِ قائد پر بڑھتا آبادی کا دباؤ بڑا چیلنج بن گیا
کراچی:گریٹر کراچی پلان 2047ء کے حوالے سے شہرِ قائد پر بڑھتا ہوا آبادی کا دباؤ بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
حکومت سندھ کراچی کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان پر کام کر رہی ہے، جسے گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء کا نام دیا گیا ہے۔ اس پلان کے اہم نکات تو ابھی سامنے نہیں آئے تاہم ماہرین کی نظر میں شہر پر بڑھتا ہوا آبادی کا دباؤ شہر کی منصوبہ بندی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کراچی ملک کا واحد شہر ہے جس کی آبادی میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک44 گنا اضافہ ہوا ہے۔ قیام پاکستان تک کراچی کی آبادی ساڑھے 4 لاکھ تھی اور اب یہ شہر 2 کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر بن چکا ہے۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق 2017ء سے 2023ء تک صرف 5 سال میں کراچی کی آبادی میں 40 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ48 لاکھ تھی جو 2023ء میں بڑھ کر ایک کروڑ 88 لاکھ ہوگئی۔ ان 5 برس میں ملک کے دیگر بڑے شہروں کی آبادی میں اس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، بلکہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی آبادی بڑھنے کے بجائے 19 لاکھ کم ہوئی کیونکہ وہاں سے کراچی آنے والوں کی تعداد ملک کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ رہی ہے۔
ورلڈ بینک سے منسلک ایک عالمی ادارے کوریا گرین گروتھ ٹرسٹ فنڈ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح1.5 فیصد (ایک اعشایہ پانچ فی صد) ہے جب کہ کراچی میں یہ شرح 6 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2030ء تک کراچی کی آبادی 28 ملین (2 کروڑ 80 لاکھ) تک بڑھ جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق کراچی اسٹریٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020ء کے مطابق شہر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کا روزگار کی خاطر کراچی آنا ہے جب کہ شہر میں بڑی تعداد میں افغانستان، بنگلادیش اور دیگر ایشیائی ممالک کے لوگ بھی آباد ہیں۔
معروف اربن پلانر عارف حسن کے ادارے اربن ریسورس سینٹر سے وابستہ شہری منصوبہ بندی کے ماہر زاہد فاروق کے مطابق پائیدار شہری منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ کراچی پر بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کو کم کیا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں سے آنے والے لوگوں کو اپنے صوبوں میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے۔
ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا بڑا سبب خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے روزگار کے لیے لوگوں کا کراچی آنا ہے کیونکہ کراچی میں دیگر شہروں کے مقابلے میں روزگار کے ذرائع اور مواقع زیادہ ہیں۔
زاہد فاروق نے مزید بتایا کہ کراچی کے لیے مختلف ادوار میں ماسٹر پلان بنتے آئے ہیں لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر ابھی تک ایک بھی ماسٹر پلان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے کہ حکومت سندھ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء پر کام کر رہی ہے لیکن یہ پلان ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بہتر ماسٹر پلان بنانے کے ضروری ہے کہ اس کے نکات کو عام کیا جائے اور اس پر عام لوگوں کی رائے لی جائے۔ انہوں نے تجویز دی کہ مذکورہ پلان کو سندھ اسمبلی اور سٹی کونسل سے لے کر یونین کونسل کی سطح تک زیر بحث لایا جائے اور اس پر ڈاکٹروں، وکلا، بزنس مین کمیونٹی سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں سے رائے لی جائے۔
پیپلز پارٹی کراچی کے رہنما سینیٹر وقار مہدی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء عالمی اداروں کے ماہرین کی نگرانی میں بنایا جا رہا ہے، جس میں آئندہ 50 سال کی ضروریات کو مد نظر رکھا جا رہا ہے، تاکہ شہر کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔
ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کراچی میں جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس مناسبت سے ایک جامع ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، نئے ماسٹر پلان کی تیاری میں پرانے ماسٹر پلانز کو بھی سامنے رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان بننے سے آج تک مختلف ادوار میں کراچی کے لیے ماسٹر پلان بنائے گئے لیکن آج تک ایک بھی پلان پر عمل نہیں ہوسکا ہے، ملک بننے کے بعد گریٹر کراچی پلان 1952ء بنایا گیا، جس پر عمل نہیں ہوا، جس کے بعد کراچی ڈیولپمنٹ پلان 1974-1985ء بنایا گیا لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد 2007ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی اسٹریٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020ء بنایا گیا لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا۔
کراچی اسٹریٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020ء کے مطابق کراچی شہر انتظامی لحاظ سے 20 وفاقی، صوبائی اور مقامی اداروں میں تقسیم ہے اور شہر کا صرف 31 فیصد کنٹرول کے ایم سی کے پاس ہے۔
مذکورہ پلان کے مطابق حکومت سندھ کے علاوہ اس شہر کا انتظامی کنٹرول مختلف وفاقی اداروں کے پاس ہے جن میں 6 کنٹونمنٹ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون وغیرہ شامل ہیں۔