سینٹ: انسانی حقوق ترمیمی بل منظور، سوال کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ اجلاس میں اپوزیشن رکن سینیٹر مشال یوسفزئی کو سوال کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن نے ایوان میں احتجاج کیا جس پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے سینیٹر مشال یوسفزئی کا مائیک بند کرا دیا۔ سینیٹر مشال یوسفزئی نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ ڈپٹی چیئرمین نے ایوان میں گنتی کی ہدایت کر دی جس پر سینیٹ اجلاس کا کورم پورا نکلا ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ جس نے اجلاس کورم کی نشاندہی کی اس کا اجلاس میں داخلہ منع ہے۔ سینیٹر مشال یوسفزئی کی جانب سے سینیٹر طلحہ محمود کے بارے ریمارکس دیئے گئے جس میں کہا گیا کہ ان کا تعلق کوہستان سے ہے لیکن ان کے دل میں چترال کا بہت درد ہے سینیٹر مشال یوسفزئی نے کہا کہ یہ اپنے بیٹے کو الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں، اس لئے سیاسی سٹنٹ کر رہے ہیں۔ سینیٹر مشال یوسفزئی کے کلمات پر حکومتی سینیٹرز نے احتجاج کیا۔ ڈپٹی چیئرمین نے سینیٹر مشال یوسفزئی کا مائیک بند کروا کے کلمات کارروائی سے حذف کرا دئیے۔ سینٹ کے قواعد و ضوابط اور طریق کار میں ترمیم کی تحریک سینیٹر شہادت اعوان نے پیش کی۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے قواعد و ضوابط میں ترمیم کی سفارش قائمہ کمیٹی کو بھیج دی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی کمشن برائے انسانی حقوق ترمیمی بل2025 ء پیش کیا جو منظورکر لیا گیا۔ سینٹ اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین سیدال خان نے کہا کہ سینٹ میں قومی ہیروز اور اداروں کے خلاف ایوان میں بات نہیں ہو گی۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے ریمارکس پر ایوان مین شور شرابہ کیا۔ سینیٹر نورالحق قادری نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ آپ زبان بندی کرنا چاہتے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سیدال خان نے کہا کہ اظہار رائے پر پابندی قبول نہیںہے۔ سینیٹر ایمل ولی نے سوال کیا کہ قومی ہیروز کون ہیں، بعد ازاں سینٹ اجلاس جمعہ (آج) دن ساڑھے دس بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سینیٹر مشال یوسفزئی ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے کہا کہ
پڑھیں:
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتوں کی تحریک منظور
اسلام آباد:پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتوں کی تحریک منظور کر لی گئی، 160 اراکین نے تحریک کی حمایت اور 79 اراکین نے مخالفت کی۔
پیپلز پارٹی نے تحریک کی حمایت کی جبکہ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے مخالفت کر دی اور ایوان سے چلے گئے۔ سینیٹر عبد القادر اور ایمل ولی خان نے بھی بل کی مخالفت کر دی۔
اپوزیشن جماعتوں نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ’’ناموس رسالت زندہ باد، نعرے تکبیر، اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن کی شدید نعرے بازی کے باعث اسپیکر اور وزیر قانون نے ہیڈ فون لگا لیے۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے، قیدی نمبر 804 کو کچھ نہیں ہوگا۔ یہ انتہائی اہم قانون ہے۔ اقلیتوں کی تعریف کی وضاحت کر دی گئی ہے۔
قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل 2025 کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوگیا۔
اجلاس کی کارروائی
قبل ازیں، مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت شروع ہوا جس میں اعظم نذیر تارڑ نے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔
تحریک پیش کرنے کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیز تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ غیر مسلموں کے لیے کمیشن ہے، سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا تھا کہ کمیشن بنایا جائے لہٰذا اس قانون پر سیاست نہ کی جائے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قانون کیوں لاتے ہیں جس کا کوئی غلط فائدہ اٹھائے، ہم ایسے قانون کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کمیشن کے قیام کا مقصد ملک کی اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ ہے، 10 سال پہلے سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اقلیتیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی کمیشن بنایا جائے اور 10 سال بعد کمیشن کے قیام کے لیے قانونی بل مشترکہ اجلاس میں لائے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ آج ایجنڈے کے مطابق آپ نے 7 قانون پاس کرنے ہیں، اقلیت والے بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن اسلام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی بھی کی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی، جے یو آئی کو بھی اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے، اس کے باوجود کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے اس کی شق 35 کو حذف کر دیا جائے، اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے۔
جے یو آئی رہنما کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ہم کبھی یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم اقلیتوں کے خلاف ہیں کیونکہ ہم اقلیتوں کو اپنے برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس قانون میں دو چیزیں بہت قابل اعتراض ہیں، یہ قانون منظور ہوگیا تو قادیانیوں کے لیے بنایا گیا پہلا قانون غیر مؤثر ہو جائے گا لہٰذا اس قانون میں سے یہ شق نکالنی ضروری ہے۔