اسلام آباد (وقار عباسی / رانا فرحان اسلم+ نوائے وقت رپورٹ) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمشن برائے حقوق اقلیت بل 2025ء سمیت دیگر پانچ بلز کی حتمی منظوری جبکہ ایک بل کو مسترد کردیا گیا۔ بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بعض  ارکان نے مخالفت کی۔ سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مذکورہ بل پیش کیا۔ اس دوران اپوزیشن نے بعض مواقع پر نعرہ بازی بھی کی۔ جس پر وزیر قانون نے اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ یہ قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہے اور اس میں چار ترامیم شامل کی گئی ہیں۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ یہ بل غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ بل پر بحث کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایسے قوانین لانے سے محتاط رہنا چاہیے تاکہ کسی کو غیر قانونی فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ایوان کو بتایا جائے کہ بل کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل پارلیمان میں قانون سازی پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 18ویں ترمیم پر پورے 9ماہ کام کیا لیکن حکومت نے 27ویں ترامیم پر ایوان کو اعتماد میںنہیں لیا۔ اسی لیے یہ ترامم آج بھی متنازعہ ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ قانون سازی اس طرح ہونی چاہیے کہ اقلیتوں کی بھی حفاظت ہو، لیکن اسلام کے منافی کوئی قانون منظور نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بل پر جامع بحث کرائی جائے تاکہ شفافیت قائم رہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل کے کچھ سیکشنز پر اعتراضات کیے، خاص طور پر سیکشن 35 اور سیکشن 12 کی کلاز ایچ پر، اور کہا کہ ان پر عمل درآمد عدالتوں کے موجودہ اختیارات کو متاثر کر سکتا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ عدالتوں کے اختیارات برقرار رہیں گے اور کمیشن کو سوموٹو کے اختیارات دینے یا واپس لینے کی تجاویز کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ ’’قادیانیوں کی چالاکیوں کا وزیر قانون کو شاید پتا نہیں، یہ ایسی چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور سائیڈ بھی ہوتے ہیں، ہمیں اس قسم کے مسائل میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، گزارش ہے یہاں یہ نیا پٹارا نہ کھولا جائے‘‘۔اپوزیشن کی طرف سے علامہ راجہ ناصر عباس اور پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے حکومتی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بہت ساری چیزوں پر قیامت کے روز ہماری پکڑ ہونی ہے، میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آقائے نامدار  کی حرمت پر بات آئے گی تو میں مخالفت کروں گا، وزیرِ قانون سے درخواست کروں گا مہربانی کریں۔ جس کے بعد سپیکر نے ایوان کی ہدایات کے مطابق رائے شماری شروع کرائی۔ اس دوران قادر پٹیل ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ سپیکر نے ''یس'' اور ''نو'' سے رائی شماری کرائی تو ''نو'' کی آواز زیادہ گونجی۔ جس پر سپیکر نے دوسری مرتبہ ''یس نو ''کے ساتھ رائے شماری کرائی تو ''نو'' کی آواز پھر زیادہ گونجی۔ لیکن رائے شماری کے نتائج میں 160 ووٹ بل کے حق میں اور 79 مخالفت میں آئے۔ بل کی شق وار منظوری کے دوران جے یو آئی کی سیکشن 35  اور کمشن کو سوموٹو کا دیا گیا اختیار واپس لینے کی تجویز مان لی گئی۔ پی ٹی آئی نے ایوان میں ہنگامہ آرائی و نعرے بازی کی۔ سپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیدیا۔ بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن نے کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔  اپوزیشن کی شدید نعرے بازی کے باعث سپیکر اور وزیر قانون نے ہیڈ فون لگا لیے۔ اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے، قیدی نمبر 804 کو کچھ نہیں ہوگا۔ کنونشن برائے حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیار عمل درآمد بل 2024ء، پاکستان ادارہ برائے مینیجمنٹ سائنسز ٹیکنالوجی بل 2023، نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز اسلام آباد بل 2023، اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل 2023ء اور گھرکی انسٹیٹیوٹ برائے سائنس و ٹیکنالوجی بل 2025ء بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2025ء بھی ایوان میں پیش کیا گیا، جس کی شق وار منظوری لی گئی۔  جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ 27 ویں ترمیم میں کی گئی غلطیوں کو واپس لیکر آئین کو واپس درست کریں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہم مشاورت سے معاملات طے کرتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم متنازع ہوگی اور اسے آئین کے ٹائٹل پر زخم سمجھا جائے گا، اس پر کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ سیاسی لحاظ سے بہت بونے پن کا مظاہرہ کیا گیا، شعوری طور پر ایسا کیوں کیا گیا؟۔ کچھ مرعات ایسی شخصیات کو دی گئیں جس سے طبقاتی فرق پیدا ہوگیا ہے۔ ہمیں شخصیات یا ان کے منصب سے مسئلہ نہیں۔ آج پنجاب میں ڈی سیز ہاتھ مروڑ کر وزارت تعلیم سے علماء کو رجسٹرڈ کروا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: مشترکہ اجلاس مولانا فضل نے کہا کہ

پڑھیں:

پارلیمنٹ سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بل کی منظوری تاریخی قدم

پارلیمنٹ نے پاکستان کی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے اور پہلی بار نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو مکمل قانونی حیثیت دے دی ہے۔

حکومت نے ایک دیرینہ وعدے کو قانون کی شکل دے کر اقلیتوں کے لیے مضبوط قانونی تحفظ، مساوی شہریت اور ادارہ جاتی سہارا یقینی بنا دیا ہے۔

مزید پڑھیں: قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل میں کیا ہے اور اپوزیشن نے اس بل پر احتجاج کیوں کیا؟

یہ بل آئینی وعدے یعنی مذہبی آزادی اور انسانی وقار کو عملی شکل دیتا ہے، اور اقلیتی حقوق کو خواہش سے قابلِ نافذ نگرانی میں بدل دیتا ہے۔

پہلی بار ایک قومی ادارہ ملک بھر میں خلاف ورزیوں کی نگرانی کرے گا، امتیازی خلا کو جانچے گا اور ہر سطح کی حکومت کو اقلیتی حقوق کے نفاذ پر مجبور کرے گا۔

کمیشن اقلیتوں کو ایک خود مختار فورم مہیا کرتا ہے جہاں وہ اپنے مسائل رپورٹ کر سکیں، ازالہ مانگ سکیں اور حقوق، تحفظ اور شمولیت سے متعلق قومی پالیسی پر اثر انداز ہو سکیں۔

اس قانون کی منظوری کے ساتھ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ مذہبی تنوع خطرہ نہیں بلکہ ایک قومی قوت ہے جو فعال حفاظت کی مستحق ہے۔

حکومت نے سپریم کورٹ کے 2014 کے حکم کی پاسداری کرتے ہوئے ایک ایسا ادارہ جاتی خلا پُر کیا ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موجود تھا۔

یہ قانون جبری تبدیلی مذہب، نفرت انگیز تقاریر، عبادت گاہوں پر حملوں اور دیگر خلاف ورزیوں کے حوالے سے جوابدہی کے باضابطہ میکنزم قائم کرتا ہے جن کی طرف اقلیتیں مسلسل توجہ دلاتی رہی ہیں۔

یہ قانون صوبوں میں نگرانی، شفافیت اور رپورٹنگ کو مضبوط کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق خدشات براہِ راست پارلیمنٹ تک پہنچیں۔

کمیشن کا قومی مینڈیٹ اس بات کی ضمانت ہے کہ ہر غیر مسلم برادری، چاہے بڑی ہو یا چھوٹی، اب پاکستان کے حقوقی ڈھانچے میں باقاعدہ نمائندگی رکھتی ہے۔

آج کی قانون سازی ایک مضبوط سیاسی اتفاقِ رائے کا اظہار ہے کہ پاکستان کا مستقبل مساوات، تحفظ اور قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔

حکومت کا یہ اقدام واضح پیغام دیتا ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ ایک قومی ترجیح ہے جو آئین پاکستان اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کے عین مطابق ہے۔

یہ قدم پاکستان کی عالمی ساکھ کے لیے اعتماد افزا سنگِ میل ہے جو شمولیت، سماجی ہم آہنگی اور حقوق کی ضمانتوں کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب کے بعد بلوچستان میں بھی منارٹی کارڈ کا اجرا، اقلیتوں کو الگ کیوں کیا جا رہا ہے؟

صوبوں اور وفاقی اداروں کو ایک مشترکہ نظام میں جوڑ کر یہ بل اقلیتوں کی فلاح اور تحفظ کے لیے ایک متحد قومی فریم ورک بناتا ہے۔

یہ قانون برداشت اور تکثیریت کے اصولوں کو ایک عملی اور قانونی نظام میں ڈھال کر سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اقلیت پارلیمنٹ حقوق کا تحفظ حکومت پاکستان نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل منظور‘ اپوزیشن کا احتجاج
  • پارلیمنٹ سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بل کی منظوری تاریخی قدم
  • قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل میں کیا ہے اور اپوزیشن نے اس بل پر احتجاج کیوں کیا؟
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 2025 کثرت رائے سے منظور
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: اقلیتی حقوق بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج  اور واک آؤٹ
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن قائم کرنے کا بل منظور
  • پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتوں کی تحریک منظور
  • پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا ایجنڈا جاری