پیاس نہ لگنا تشویش ناک ہے
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عمومی طور پہ پیاس سردیوں میں کم ہوجاتی ہے یہ بات کہی جاتی ہے کہ جسم کو پانی کی ضرورت نہیں رہی اس لئے پیاس محسوس نہیں ہوئی۔حالانکہ یہ جسم کا خاموش اشارہ ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ ڈی ہائیڈریشن یعنی پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے وہی ڈی ہائیڈریشن جو تھکن، سر درد، سستی، خشک جلد اور کمزوری کی بڑی وجہ بنتی ہے۔سرد موسم میں ٹھنڈی ہوا کے باعث سانس کی نمی تیزی سے خارج ہوتی ہے، ہونٹ پھٹتے ہیں، جلد خشک ہوتی ہے، اور جسم کے خلیے پانی مانگتے ہیں مگر ہم محسوس نہیں کرتے۔ یہی وہ وقت ہے جب جسم اندرونی طور پر ایک نرمی، ایک نمی اور ایک ہلکی سی توجہ چاہتا ہے۔ماہرین کے مطابق سردیوں میں نیم گرم پانی، سوپ، یخنی، ہرڑب بوٹیاں، تازہ پھل، سبزیاں، اور ہربل چائے پانی کی کمی کو پورا کرنے میں حیرت انگیز کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ناصرف جسم کو گرم رکھتی ہیں بلکہ اندرونی خشکی کو کم کرکے مدافعتی نظام مضبوط کرتی ہیں، جس سے بیمار پڑنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ایسے افراد جو تھکن، بلڈ پریشر، گردوں کے مسائل یا خشک جلد کا شکار ہیں ان کے لیے سردیوں میں پانی کی مناسب مقدار ایک ڈھال کا کام کرتی ہے۔ وقتا فوقتا نیم گرم پانی پینا بھی جسم میں جان ڈال دیتا ہے اور خلیوں کو تازگی ملتی ہے۔استعمال کا بہترین طریقہ نہایت آسان ہےصبح اٹھتے ہی آدھا گلاس نیم گرم پانی دن بھر ہر ایک گھنٹے بعد چند گھونٹ پانی کھانے کے ساتھ یخنی یا سوپ کا اضافہ اور رات سونے سے پہلے ایک کپ ہربل چائے وغیرہ ۔یہ چند چھوٹی چھوٹی عادتیں جسم میں نمی واپس لاتی ہیں، جلد کو چمک دیتی ہیں اور سردیوں کی سستی کو حیرت انگیز طور پر کم کردیتی ہیں۔اپنی سردیوں کا آغاز مناسب پانی کے استعمال سے کریں کیونکہ کبھی کبھی جسم کو صرف تھوڑی مقدار میں نمی، گرمی، اور توجہ ہی جوانی جیسی تازگی واپس دلانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پانی کی
پڑھیں:
ترکیہ میں 700مقامات پر زمین دھنسنے کے واقعات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ (انٹرنیشنل ڈیسک) ترکیہ کے وسطی زرعی علاقوں میں زمین مسلسل دھنسنے کے واقعات نے ملک کے اہم گندم اگانے والے علاقوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی۔ خاص طور پر خشک سالی سے متاثرہ کونیا کے ہموار میدانوں میں یہ سنک ہولز اچانک نمودار ہو رہے ہیں، جس سے زرعی زمینیں اور مقامی انفراسٹرکچر شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ حالیہ سرکاری جائزے کے مطابق اب تک 684 بڑے سنک ہولز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، جبکہ ڈرون تصاویر یہ واضح کرتی ہیں کہ زمین کے دھنسنے کی رفتار تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ماہرین اور حکام کے مطابق اس غیر معمولی مظہر کے پیچھے کئی عوامل ہیں، جن میں اہم یہ ہے کہ زمین کی اندرونی تہیں پتھریلی ساخت رکھتی ہیںاور دہائیوں سے جاری زرخیز زمین کے لیے زیر زمین پانی کا غیر محتاط استعمال ہورہاہے ۔ زمین کے نیچے ایسی چٹانیں ہیں جو پانی میں گھل جاتی ہیں، جیسے کاربونیٹ اور جپسم۔ یہ چٹانیں صدیوں میں قدرتی خلا اور بہت سے غار بنا دیتی ہیں، اور جب زیر زمین پانی کم ہو جاتا ہے تو یہ خلا زمین کے اچانک دھنسنے کا سبب بنتے ہیں۔ کونیا جوکہ ہموار میدان پر مشتمل ہے اور جسے کونیا کلوزڈ بیسن بھی کہا جاتا ہے، قدرتی طور پر ایسی ہی چٹانی زمین سے بنا ہے جس میں کیلشیم کاربونیٹ اور جپسم کی پرتیں ہیں جو صدیوں میں قدرتی غار اور خلا پیدا کرتی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی کے باعث یہ خلا اپنا استحکام کھو بیٹھتے ہیں اور اچانک زمین میں دھنسنے کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات سینکڑوں مربع میٹر کے بڑے گڑھے بن جاتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی اور خشک سالی کی شدت بھی اس مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر اور قومی ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسطی ترکیہ کے زیر زمین ذخائر اور آبی ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق 2021 ء تک پانی کی سطح گزشتہ 15 سال میں سب سے کم ہو گئی تھی۔ کم بارش زیر زمین پانی کے ذخائر کو دوبارہ بھرنے کا موقع نہیں دیتی، جس سے زمین کے دھنسنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایسی فصلیں بھی ہیں جنہیں زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے،جیسے چینی کے بیٹ اور مکئی کے لیے زیرِ زمین پانی کے استعمال کی حد سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔کونیا بیسن میں ہونے والی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں میں زیر زمین پانی کی سطح کئی دہائیوں میں کئی میٹر کم ہو گئی ہے، بعض علاقوں میں 1970ء کے بعد یہ کمی 60 میٹر سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ قانونی اور غیر قانونی ہزاروں کنویں مسلسل پانی نکال رہے ہیں، جس سے زمین کمزور ہو رہی ہے اور اچانک سنک ہولز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ترکیہ کی ڈیزاسٹر ایجنسی (اے ایف اے ڈی) کے مطابق کونیا کلوزڈ بیسن میں تقریباً 700 سنک ہولز موجود ہیں، جن میں خاص طور پر کاراپنار اور اس کے ارد گرد کے اضلاع شامل ہیں، اور یہ کرمان اوراکسرے کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔کئی گڑھے 30 میٹر سے زیادہ گہرے ہیں، جس سے کھیت، سڑکیں اور بعض اوقات عمارتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں، اور کچھ کسان اپنے خطرناک کھیت چھوڑنے پر مجبور ہیں۔