حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: اسلام کی بنیادوں کے معمار
اشاعت کی تاریخ: 15th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا نام احترام، ایمان کی پختگی اور قربانیوں کی مثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ نبی کریمؐ کے سب سے قریبی صحابی، پہلے خلیفہ راشد اور امت کے لیے ایک عظیم رہنما تھے۔ ان کا لقب ’’صدیق‘‘ ہے، جو واقعہ معراج کی تصدیق پر نبی کریم نے عطا کیا، کیونکہ جب کفار نے اسے جھوٹ قرار دیا تو انہوں نے فوراً تصدیق کی اور کہا کہ اگر نبی کریم فرماتے ہیں تو یہ سچ ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ’’عتیق‘‘ کا لقب بھی ملا، جس کا مطلب ہے ’’آزاد کیا گیا‘‘ یا ’’موت سے بچایا گیا‘‘، جو ان کی پاکیزگی اور اللہ کی طرف سے حفاظت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ ہے، جو عربی میں ’’بکر‘‘ سے نکلتی ہے، یعنی اونٹ کا بچہ، اور یہ ان کی بیٹی حضرت عائشہؓسے منسوب ہے، لیکن کچھ روایات میں یہ ان کی اونٹوں کی تجارت اور محبت سے بھی جڑی ہے۔ وہ عشیرہ مبشرہ میں شامل ہیں، یعنی ان دس صحابہ میں جو جنت کی بشارت پانے والے تھے۔ ان کی زندگی ایک مکمل نمونہ ہے جو اسلام سے پہلے کی جہالت سے لے کر خلافت کے عروج تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کالم میں ہم ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کریں گے، بشمول خاندان، اسلام سے پہلے کی زندگی، اسلام قبول کرنے کے بعد، نبی کریم کے ساتھ صحبت، خلافت کا دور، اور موت۔
حضرت ابوبکر صدیق کا پورا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب ہے، جو قبیلہ قریش کی شاخ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام ابو قحافہ عثمان بن عامر تھا، جو مکہ کے ایک معزز شخص تھے اور فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔ وہ نابینا اور معمر تھے، اور 14 ہجری میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔ والدہ کا نام ام الخیر سلمہ بنت صخر بن عامر تھیں، جو ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور ابوبکر کی خلافت تک زندہ رہیں۔ خاندان قریش کے اشرافیہ میں شمار ہوتا تھا، جو کعبہ کی تعمیر اور نگرانی سے وابستہ تھا۔ حضرت ابوبکر کے بھائیوں میں معتق، عتیق اور قحافہ شامل تھے، جبکہ بہنیں فدرہ، قریبہ اور ام عامر تھیں۔ ان کا نسب نبی کریمؐسے چھٹی پشت میں ملتا ہے، یعنی مرہ بن کعب پر۔
پیدائش 573ء میں مکہ میں ہوئی، عام الفیل کے تقریباً دو برس بعد۔ بچپن سے ہی وہ پاکباز اور بلند اخلاق کے مالک تھے۔ خاندان تجارت سے وابستہ تھا، اور وہ خود بھی کپڑے اور اونٹوں کی تجارت کرتے تھے، جو شام، یمن اور بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی دولت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے قریش کے دس سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔ جسمانی ساخت کے بارے میں روایات ہیں کہ وہ دبلے پتلے، گندمی رنگ، دھنسی ہوئی آنکھیں، کمر میں ذرا خم، بالوں میں مہندی اور کسم کا خضاب لگاتے، اور لباس سادہ پہنتے تھے۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، شعر گوئی میں ماہر، انساب اور عرب کی تاریخ سے واقف تھے۔ ایک روایت کے مطابق بچپن میں والد انہیں کعبہ لے گئے تو بتوں سے نفرت کا اظہار کیا اور ایک بت پر پتھر مارا۔
اسلام سے پہلے حضرت ابوبکر ایک کامیاب تاجر تھے، جو عکاظ اور دیگر میلوں میں شرکت کرتے اور شعری محفلوں میں حصہ لیتے۔ وہ حنیف تھے، یعنی ایک خدا پر یقین رکھتے اور بت پرستی سے دور تھے۔ کبھی شراب نہیں پی، اور مظلوموں کی مدد کرتے۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ شام کی تجارت کے دوران بحیرا راہب نے انہیں دیکھ کر نبوت کی پیش گوئی کی۔ وہ سخاوت اور ایمانداری کے لیے مشہور تھے، اور غلاموں کو آزاد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی تجارت سے حاصل دولت انہیں معاشرے میں مقام دیتی تھی، لیکن وہ سادگی پسند تھے۔ روایات میں ہے کہ وہ بچپن میں بدوی قبائل میں رہے، جہاں سے ’’اہل بئیر‘‘ یعنی اونٹوں کے لوگوں کا نام ملا۔ ان کی کنیت ابوبکر بھی اسی سے جڑی ہے، کیونکہ وہ اونٹوں کی دیکھ بھال اور تجارت میں ماہر تھے۔ اسلام سے پہلے انہیں ’’عتیق‘‘ کہا جاتا تھا، جو نسب کی پاکیزگی کی علامت ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اسلام قبول کرنے میں دیر نہیں کی۔ نبوت کے ابتدائی دنوں میں، 610ء میں، وہ یمن کی تجارت سے واپس آئے تو دوستوں نے نبی کریمؐ کی نبوت کی خبر دی۔ وہ فوراً نبی کریمؐ کے پاس گئے اور بغیر کسی شک کے اسلام قبول کیا۔ سنی روایات کے مطابق وہ پہلے آزاد بالغ مرد مسلمان تھے، جبکہ حضرت خدیجہ پہلی عورت، حضرت علی پہلے بچے اور حضرت زید پہلے غلام تھے۔ قبول اسلام کے بعد انہوں نے دعوت کا کام شروع کیا اور کئی صحابہ کو اسلام کی طرف راغب کیا، جیسے حضرت عثمان، زبیر، طلحہ، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، ابو عبیدہ اور دیگر۔ انہوں نے غلاموں کو آزاد کیا، جن میں حضرت بلال شامل ہیں، جنہیں 40 ہزار درہم میں خریدا۔ ان کی پہلی بیوی قتیلہ نے اسلام نہ قبول کیا اور طلاق ہو گئی، جبکہ ام رومان نے قبول کیا۔ ان کے تمام بچے مسلمان ہوئے سوائے عبدالرحمن کے، جن سے علیحدگی کی۔
اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ میں 13 برس تکلیفوں کا سامنا کیا۔ کفار کی طرف سے اذیتیں برداشت کیں، لیکن ایمان پر ڈٹے رہے۔ ہجرت حبشہ کا قصد کیا مگر واپس لائے گئے۔ شب معراج پر تصدیق کی، جس سے ’’صدیق‘‘ کا لقب ملا۔ ان کی کنیت ابوبکر ہر جگہ استعمال ہوتی، جو ان کی پدرانہ محبت اور رحمدلی کی علامت ہے۔
حضرت ابوبکر نبی کریم کے سب سے قریبی دوست اور یار غار تھے۔ وہ ’’ثانی الثنین‘‘ یعنی غار میں دوسرے شخص تھے۔ ہجرت مدینہ کے وقت نبی کریم کے ساتھ سفر کیا، غار ثور میں تین راتیں قیام کیا۔ سانپ نے کاٹا تو درد برداشت کیا تاکہ نبی کی نیند نہ ٹوٹے۔ قرآن میں سورہ توبہ کی آیت 40 میں ان کا تذکرہ ہے: ’’غار میں دو تھے، ایک نے کہا غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ ہجرت کے سفر میں ام معبد کی بکری سے معجزہ، سراقہ کا تعاقب ناکام ہوا۔ مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی کی بنیاد میں حصہ لیا، پتھر اٹھائے۔ تمام غزوات میں ہم رکاب رہے: بدر میں خیمے کی حفاظت، احد میں نبی کو سہارا دیا، خندق میں کردار ادا کیا، خیبر، فتح مکہ، حنین اور طائف میں شرکت۔ تبوک میں تمام مال پیش کیا۔ حجتہ الوداع میں امیر حج مقرر ہوئے، سورہ توبہ کی آیات تلاوت کیں۔ نبی کے مرض میں نماز پڑھائیں۔ نبی نے انہیں ’’خلیل‘‘ اور ’’صاحب‘‘ کہا۔ روایات میں ہے کہ نبی فرماتے: ’’ابوبکر میری جان کا حصہ ہیں‘‘۔ ان کی صحبت میں ادب کا نمونہ تھا، دھیمی آواز میں بات کرتے، اور نبی کی خدمت میں قربانیاں دیں۔
نبی کریم کی وفات (632ء، 11 ہجری) پر خطبہ دیا اور امت کو متحد کیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ منتخب ہوئے، پہلا خطاب میں کہا: ’’اگر حق پر پاؤ تو تعاون کرو، ورنہ اصلاح کرو‘‘۔ خلافت دو سال دو ماہ (632-634ء) رہی۔ بیت المال قائم کیا، سادگی اپنائی، بازار میں کپڑے بیچتے۔ حضرت عمر کو جانشین نامزد کیا۔
ردہ کی جنگیں: عرب قبائل میں ارتداد کی لہر اٹھی، جھوٹے نبی جیسے مسیلمہ، طلیحہ، اسود عسنی اور سجاہ نمودار ہوئے۔ حضرت ابوبکر نے خالد بن ولید، علی اور دیگر کو بھیجا۔ مسیلمہ کو یمامہ میں شکست دی، طلیحہ نے توبہ کی۔ یہ جنگیں چار ماہ میں ختم ہوئیں اور عرب جزیرہ کو متحد کیا۔
شام اور عراق کی طرف لشکر بھیجے، خالد بن ولید نے کئی شہر فتح کیے، جو بعد میں مکمل ہوئے۔ قرآن کی تدوین کی، حضرت زید بن ثابت کو ذمہ داری دی۔ لشکر اسامہ کو شام بھیجا۔
حضرت ابوبکر 634ء (13 ہجری) میں شدید بخار سے بیمار ہوئے اور 23 اگست کو وفات پائی، عمر تقریباً 60 برس۔ موت سے پہلے حضرت علی کو غسل دینے کی وصیت کی، حضرت عمر نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مسجد نبوی میں نبی کریم کے پہلو میں دفن ہوئے۔ وصیت میں حضرت عمر کو جانشین بنایا۔ ان کی موت قدرتی تھی، جو راشدین خلفاء میں واحد ہے۔
حضرت ابوبکر کی وراثت اتحاد، فتوحات اور قرآن کی حفاظت ہے۔ سنی مسلمان انہیں افضل الصحابہ مانتے، جبکہ شیعہ روایات میں اختلاف ہے۔ ان کی کنیت ابوبکر ہر پہلو میں ان کی رحمدلی کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کی زندگی ایمان، قربانی اور رہنمائی کی مثال ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام سے پہلے نبی کریم کے اسلام قبول روایات میں ان کی کنیت کی تجارت کی زندگی کا نام کی طرف کے بعد
پڑھیں:
سیدہ کائناتؓ امتِ مسلمہ کی خواتین کیلئے کامل رول ماڈل ہیں، لبنیٰ مشتاق
تحریک منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام سیدہ کائناتؑ کے یومِ ولادت کی مناسبت سے لاہور میں منعقدہ تقریب سے مقررین کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیدہ فاطمۃ الزہراہؑ وہ خوش نصیب ہستی ہیں، جنہیں تاجدارِ کائنات کی والہانہ محبت نصیب ہوئی، سیدہ کائناتؑ علم و عمل اور پاسداری شریعت میں بھی منفرد مقام رکھتی تھیں۔ اسلام ٹائمز۔ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراہ سلام اللہ علیہا کے یومِ ولادت کی مناسبت سے منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام ایک روح پرور تقریب کااہتمام کیا گیا۔جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کی لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہراؑ کی سیرت پاک، کردار اور عظیم اوصاف پر روشنی ڈالی گئی۔ خواتین مقررین نے قرآن و حدیث کی روشنی میں سیدہ کائناتؑ کی عظمت، ان کی عبادت گزاری، تقویٰ، حلم، ایثار کو نہایت عقیدت و احترام کیساتھ خراج تحسین پیش کیا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کی ہیڈ کوآرڈنیشن کونسل لبنیٰ مشتاق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؑ امتِ مسلمہ کی خواتین کیلئے کامل رول ماڈل ہیں۔ سیدہ کائناتؑ کی سیرت طیبہ، پاکیزہ کردار، اعلیٰ اخلاق ہر مسلمان عورت کیلئے کامل نمونہ عمل ہے۔ آپؑ نے نہ صرف گھریلو اور سماجی ذمہ داریوں میں بے مثال کردار پیش کیا بلکہ عبادت، تقویٰ، حلم، صبر اور اخلاق کے ہر پہلو میں اعلیٰ ترین عملی نمونہ فراہم کیا۔
انہوں ںے کہا کہ سیدہ فاطمہ الزہراؑ کا کردار آج کی مسلمان خواتین کو یہ رہنمائی دیتا ہے کہ علم، وقار، سادگی، ایثار اور اصول پسندی کیساتھ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، حضرت فاطمۃ الزہراؑ کا علمِ حدیث، سیرتِ نبویؐ کے فروغ اور اہلِبیت اطہارؑ کی علمی و روحانی وراثت کی حفاظت میں اہم کردار تاریخ کا روشن باب ہے۔ آپؑ ان خوش نصیب ہستیوں میں شامل ہیں جنہیں تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی، بے مثال اور والہانہ محبت نصیب ہوئی، رسول کریمؐ نے فرمایا ’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے‘‘۔
ممبر کوآرڈنیشن کونسل عائشہ مبشر نے کہاکہ اللہ ربّ العزت نے سیدہ فاطمۃ الزہراؑ کو سیدہ نساء العالمین کے تاج سے سرفراز کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؑ کو جنتی خواتین کی سردار قرار دیا۔ آپؑ کی سیرت ہر دور کی خواتین اور خاندانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلم خاندان حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے طرزِ حیات، تربیت کے اصول، سادگی، وقار اور اخلاق کو اپنالیں تو گھروں میں محبت، استحکام، باہمی احترام اور روحانی سکون کی فضائیں قائم ہو جائے گی۔ ممبر کوآرڈنیشن کونسل حافظہ سحر عنبرین نے کہا کہ حضرت فاطمۃ الزہراہؓ کی سیرت کا پیغام آج کے دور میں مزید اہم ہے، کیونکہ معاشرہ مادیت، بے راہ روی اور اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراؑ کا اصل پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے کردار سے حق و خیر کو فروغ دے، ظلم کے مقابلے میں صبر و استقامت اختیار کرے اور اخلاقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائے۔
تقریب میں عائشہ مبشر، اقرا مبین، راضیہ غنی، حنا فاطمہ، عائشہ بتول و دیگر خواتین رہنمائوں نے شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر کیک کاٹا گیا۔ شرکا ئے تقریب نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اُمّتِ مسلمہ کو سیدہ فاطمۃ الزہراؑ کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھروں، معاشرے اور نوجوان نسل میں ان کی تعلیمات کے فیوض عام فرمائے۔