جاپانی اسمگلر کا ایران کو جوہری مواد بیچنے کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) جاپان کے 60سالہ اسمگلر تاکیشی ایبیساوا نے ایران کو جوہری مواد بیچنے کا اعتراف کرلیا۔ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق نیو یارک کے شہر مین ہٹن میں ایبیساوا کو میانمر سے ایران اور دوسرے ممالک میں یورینیم اور ہتھیاروں کے گریڈ پلوٹونیم سمیت جوہری مواد کی اسمگلنگ کامجرم قرار دیا گیا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے میانمر کے میدان جنگ میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں اور بھاری مقدار میں ہیروئن اور میتھامفیٹامائن امریکا بھیجنے کا کام کیا ۔ اسی طرح نیویارک سے ٹوکیو تک منشیات کی اسمگلنگ کی۔ امریکی حکام کے مطابق ڈی ای اے کے اسپیشل آپریشنز ڈویژن، پیشہ ور قومی سلامتی پراسیکیوٹرز، انڈونیشیا، جاپان اور تھائی لینڈ میں امریکی قانون نافذ کرنے والے شراکت داروں کے تعاون سے ایبساوا کی سازش کا سراغ لگایا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
تہران: ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے اعلان کیا ہے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا، تاہم ملک کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر مسعود پزشکیان نے ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے دورے کے دوران یہ بیان دیا۔ اس موقع پر انہوں نے جوہری صنعت کے سینیئر حکام سے ملاقات بھی کی۔
صدر نے کہا کہ "عمارتوں اور فیکٹریوں کی تباہی ہمیں نہیں روک سکتی، ہم انہیں دوبارہ بنائیں گے اور اس بار زیادہ مضبوط انداز میں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام عوامی فلاح و بہبود کے لیے ہے، جس کا مقصد بیماریوں کے علاج اور صحت کے میدان میں ترقی ہے۔
خیال رہے کہ جون میں امریکی افواج نے ایران کی چند جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، جنہیں واشنگٹن نے "ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام" کا حصہ قرار دیا تھا۔ تاہم ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور غیر فوجی مقاصد کے لیے ہے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے تباہ شدہ جوہری مراکز کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی تو امریکا نئے حملے کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی اور عسکری صورتحال جنم لے سکتی ہے۔