Jasarat News:
2025-04-26@04:58:57 GMT

اسٹاک ایکسچینج کی تقریب سے وزیر اعظم کا خطاب

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

اسٹاک ایکسچینج کی تقریب سے وزیر اعظم کا خطاب

پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 2024ء میں دنیا کی دوسری بہترین کارکردگی کی حامل اسٹاک ایکسچینج کا اعزاز حاصل کیا ہے جو اس لحاظ سے یقینا ایک اچھی اور خوش آئند خبر ہے کہ طویل عرصہ سے ہر طرف سے مایوس کن کارکردگی کی اطلاعات ہی موصول ہو رہی ہیں ایسے میں اگر کوئی پاکستانی ادارہ عالمی سطح پر بہتر کارکردگی کا اعزاز حاصل کرتا ہے تو اس سے ملک کی نیک نامی میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور عوام کے لیے بھی یہ خبر اپنے اندر اطمینان، سکون اور خوشی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس کامیابی کی خوشی میں کراچی میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بھی شرکت کی، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں، ہمارا ٹیکس کا نظام کاروبار چلنے میں رکاوٹ ہے، شرح سود چھے فی صد پر لانا چاہتے ہیں مگر ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط بھی پوری کرنا ہیں، ہم آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کریں گے معیشت کی ترقی کے لیے ماہرین کی تجاویز درکار ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومتی پالیسیوں کی بدولت ملک میں معاشی استحکام آیا ہے اور اب ہمارا ہدف اس کو معاشی نمو میں تبدیل کرنا ہے۔ ’’اڑان پاکستان‘‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس سے ملک میں معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسٹاک ایکسچینج کی بہتر کارکردگی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور اب ہمیں میکرو سطح پر استحکام کو معاشی نمو میں تبدیل کرنا ہے۔ معاشی ترقی ہمارا اصل ہدف اور ایک چیلنج بھی ہے جس کے لیے سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کی تجاویز بہت اہم ہیں۔ ٹیکس وصولی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ چھے ماہ کے دوران آئی ایم ایف کا ہدف جی ڈی پی کے تناسب سے 10.

5 فی صد تھا لیکن ہم نے 10.8 فی صد حاصل کر لیا اور اب مزید رفتار بڑھانے کے لیے ہمیں بینکوں سے سرمائے اور قرضوں کی ضرورت ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں ہیں اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ لیکن اس وقت ہمیں اہداف کو حاصل کرنا ہے۔ ہمیں بصیرت اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ ٹھوس تجاویز اور سفارشات کی ضرورت ہے کہ ہم برآمدات کی حامل نمو کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری سرزمین کے نیچے کھربوں ڈالر کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔ حال ہی میں یہاں کا دورہ کرنے والے مغربی سرمایہ کاروں نے مٹی تلے خزانوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ خام مال اٹھانے کے بجائے یہاں پاکستان میں صنعتیں لگانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے نج کاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کا عمل سو فی صد شفافیت پر مبنی ہے۔ مجھے خوشی ہو گی کہ اس حوالے سے آپ لوگ تجاویز دیں کہ اسے کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تقریب میں ملکی معیشت کی ترقی و استحکام کے ضمن میں خیالات بلاشبہ حوصلہ افزا ہیں تاہم یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا عالمی سطح پر دوسری بہترین کارکردگی کا اعزاز باعث اطمینان و مسرت تو ضرور ہے تاہم اسٹاک ایکسچینج معاشی ترقی و استحکام کا پیمانہ نہیں ہے، اس کے لیے سب سے اہم بیرونی سہاروں سے نجات ہے جب تک ہم بیرونی اداروں کے دست نگر رہیں گے ہمیں ان کی شرائط کے سامنے بھی سر تسلیم خم کرنا پڑے گا جیسا کہ وزیر اعظم نے خود اپنی تقریر میں بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور ان سے کیے گئے وعدے بھی پورے کرنا ہیں جس کے سبب ان کے ہاتھ بہت سے معاملات میں بندھے ہوئے ہیں، اس کی عملی تعبیر بھی اسی روز کے اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہے جس روز وزیر اعظم کی اسٹاک ایکسچینج کی تقریر اخبارات کی زینت بنی ہے، اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کا حکومت کا خواب آئی ایم ایف نے چکنا چور کر دیا ہے جس نے بجلی کے بلوں میں سیلز ٹیکس میں کمی کی حکومتی تجویز مسترد کر دی ہے، حکومت پاکستان کی وزارت توانائی نے آئی ایم ایف سے اس ضمن میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کے بلوں پر دہرے سیلز ٹیکس میں کمی کی اجازت چاہی تھی مگر آئی ایم ایف کی جانب سے جواب دیا گیا کہ قرض پروگرام کے تحت نئے ٹیکسوں میں رعایت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا یاد رہے کہ بجلی کے بلوں پر اٹھارہ فی صد کا جنرل سیلز ٹیکس دو مرتبہ عائد ہوتا ہے۔ ایک بار بل کی مجموعی رقم پر اٹھارہ فی صد ٹیکس لیا جاتا ہے اور دوسری مرتبہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنی تقریر میں اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ان کی حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرے گی۔ وعدے یقینا پورے کیے جانا چاہئیں کیونکہ وعدہ خلافی کی اجازت ہمارا دین متین بھی نہیں دیتا تاہم وزیر اعظم کو اس مرحلہ پر یہ یاد دلانا بھی شاید بے محل نہیں ہو گا کہ کچھ وعدے انہوں نے عوام سے بھی کیے تھے جس میں بجلی کے بلوں میں کمی کا وعدہ بھی نمایاں تھا اور اس ضمن میں جماعت اسلامی کے لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ایک طویل دھرنا کے بعد ان کی کابینہ کے ارکان نے جماعت اسلامی کی قیادت سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا تھا جس میں 45 دنوں میں عوام کو بجلی کے ناقابل برداشت بلوں میں ریلیف دینے کا وعدہ بھی شامل تھا۔ یہ 45 دن پورے ہوئے اب خاصی مدت گزر چکی ہے مگر یہاں حکومت کا طرز عمل ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا‘‘ سے مختلف دکھائی نہیں دیتا!! وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ان کا یہ عزم خوش آئند ہے تاہم انہیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ معاشی ترقی کا خواب سیاسی استحکام کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا اور اس وقت اتفاق سے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کے دور چل رہے ہیں مگر حکومتی وزراء کے طرز عمل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں حالانکہ ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت نہ صرف تحریک انصاف سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کرے بلکہ بہتر ہو گا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی دیگر جماعتوں کو بھی ان مذاکرات کا حصہ بنا کر وسیع تر قومی مفاہمت اور سیاسی استحکام کا راستہ تلاش کیا جائے کہ اس میں جمہوریت کی بقا اور ملک و قوم کی فلاح ہے! وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں سود کی شرح چھے فی صد تک لانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مگر ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط بھی پوری کرنا ہیں۔ گویا وزیر اعظم آئی ایم ایف کی شرائط کو اس معاملہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔ ہم زیادہ تفصیل میں جائے بغیر جناب وزیر اعظم کو صرف یہ یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت نے قوم کو سود کی لعنت سے نجات دلانے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے اور جب تک وہ یہ وعدہ پورا نہیں کرتے ملک کی معیشت سدھر سکے گی نہ دیگر مسائل سے قوم کو نجات مل سکے گی کہ سو د کو قرآن حکیم نے اللہ اور رسول کریمؐ سے جنگ قرار دیا ہے، ملک کا آئین بھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین وفاقی شریعت عدالت نے بھی اس کا حکم دے رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کے خاتمہ کے لیے کمیٹی بھی بنائی تھی اور 26 ویں آئینی ترمیم میں بھی قوم کو سود کے خاتمہ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی!!

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف سے سے کیے گئے کی شرائط کے ساتھ کے لیے ہے اور

پڑھیں:

کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، پیپلزپارٹی

کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، پیپلزپارٹی WhatsAppFacebookTwitter 0 23 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ کینالوں کے معاملے پروزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، چولستان کینال کو پنجاب کی کون سی نہر کا پانی دیں گے؟ غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتے ہیں، حکومت کو ایک سال ہوگیا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔
اسلام آباد میں ندیم افضل چن سمیت پارٹی رہنماوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے پانی کے مسئلے پر وزیراعظم کے سامنے 4،5 سوالات اٹھائے تھے جن میں سے صرف ایک کا جواب آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے پہلا سوال وزیراعظم سے کیا تھا کہ ارسا ایکٹ میں لکھا ہے جب بھی پانی کا کوئی مسئلہ سامنے آئے گا تو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا، حکومت کو آئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر مشترکہ مفادات کونسل کا ایک بھی اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بہت شور ہوتا ہے کہ صدر پاکستان نے منظوری دے دی، میں نے سوال اٹھایا تھا کہ صدر پاکستان دو چیزوں کی منظوری دیتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کوئی قانون منظور کرے یا حکومت انہیں کوئی آرڈیننس بھیجتی ہے۔چوہدری منظور نے کہا کہ رانا ثنااللہ نے کل اس سوال کا جواب دیا ہے کہ نہ تو یہ منصوبہ ایکنک نے منظور کیا ہے، نہ مشترکہ مفادات کونسل نے منظور کیا ہے اور نہ ہی صدر پاکستان نے اس کی منظوری دی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان کے پاس کسی بھی انتظامی کام کی منظوری دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ غریب کسانوں کا پانی چھین کر کارپوریٹ سیکٹر پر لگانا چاہ رہے ہیں، تمام آبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ ناممکن ہے، عام نہر سے 7 سے 14 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑجاتا ہے جبکہ اس نہر سے 30 سے 40 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا، آپ اگر اسپرنکل یا ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے جدید فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ پانی سے نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سے نوزل بند ہوجائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جدید فارمنگ کے لیے نہر کے بجائے بڑے بڑے تالاب بنانے ہوں گے، ڈی سلٹنگ کے لیے پانی کھڑا کرنا پڑے گا، وہاں کے موسم میں 3، 4 دن کھڑے رہنے والے پانی میں کائی جم جائے گی، جب کائی جمے گی تو وہ بھی نوزل بند کردے گی۔ رہنما پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سیلاب کا پانی دیں گے، سیلاب تو جولائی، اگست اور ستمبر میں دو سے تین مہینے تک ہوتا ہے، باقی 9 ماہ آپ کیا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ریورس انجینئرنگ ہورہی ہے، دنیا بھر میں نہر جہاں سے نکلتی ہے وہاں سے تعمیر شروع ہوتی ہے، انہوں نے چولستان سے تعمیر شروع کی ہے۔چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے وزیراعلی پنجاب سے سوال کیا تھا مگر ابھی تک جواب نہیں آیا کہ کس نہر کا پانی بند کرکے چولستان کینال کو دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ارسا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کو پانی کی 43 فیصد کمی کا سامنا ہے، پنجاب میں پینے کا 80 سے 90 فیصد پانی زیرزمین سے آتا ہے جبکہ سندھ کا یہ مسئلہ ہے کہ وہاں پینے 80 سے 90 فیصد پانی دریا اور جھیلوں سے آتا ہے، یہ ان کی حساسیت ہے اور اس مسئلے کو کسی فارمولے کے تحت نہیں انسانیت کی بنیاد پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پنجاب کے کسانوں کے ساتھ جو ظلم کرنے جارہی ہے، پیپلزپارٹی اس پر تمام متاثرہ اضلاع کے مظلوم کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے، اس پانی کے مسئلے پر کسانوں کے ساتھ جہاں مظاہرے کرنے پڑے کریں گے۔
اس موقع پر پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست کو مضبوط کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس منصوبے میں آپ کی بدنیتی شامل ہے، انہیں چولستان اور ریگستان سے کوئی پیار نہیں ہے نہ یہ کاشتکاروں، ہاریوں اور پڑھے لکھے کسانوں کو زمینیں دینا چاہتے ہیں۔ندیم افضل چن نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو پنجاب کے وارث سمجھتے ہیں مگر یہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے وارث تو ہوسکتے ہیں، لیکن یہ پنجاب کے وارث نہیں ہیں، یہ بتادیں کہ انہوں نے پنجاب کے کسی ایک کاشتکار کو بھی ایک ایکڑ زرعی زمین دی ہو، اگر آپ کسی سرمایہ دار یا کسی بیورو کریٹ کو زمین دے رہے ہیں تو یہ پنجاب کا مقدمہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کا وارث محکمہ آبپاشی ہے، اس کے ریسٹ ہاس کس نے بیچے؟ کیونکہ آپ 40، 50 سال حکمران رہے ہیں، یہ ریسٹ ہاس مراد علی شاہ نے نہیں بیچے جسے آپ طعنہ دے رہے ہیں نہ پیپلزپارٹی نے بیچے، کیا وارث زمینیں بیچتے ہیں یا جائیداد بڑھاتے ہیں؟ آپ خریدار ہوسکتے ہیں، وارث نہیں ہوسکتے، آپ بیچنے والے ہوسکتے ہیں۔رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس غریبوں کی ایک سہولت ہوا کرتی تھی، آپ نے پنجاب میں حکمرانی کی اور وہ بس بیچ دی، اب آپ سبسڈائزڈ میٹرو، سبسڈائزڈ پیلی بس، نیلی بس چلارہے ہیں، اربوں کی گاڑیاں بیچ دیں اور اب پھر عوام کے پیسے سبسڈائزڈ ٹرانسپورٹ چلا رہے ہیں، آپ کی وہ پالیسی ٹھیک تھی یا یہ پالیسی ٹھیک ہے؟
ندیم افضل چن نے کہا کہ کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، ہم آپ کے اتحادی نہیں، اس نظام، ملک اور آئین کے اتحادی ہیں، ہم پارلیمانی نظام کے اتحادی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ نے بنیادی صحت کے مراکز پر اربوں روپے لگانے کے بعد انہیں پرائیویٹائز کردیا، غریب کا بچہ نجی اسکولوں میں نہیں پڑھ سکتا، وہ سرکاری اسکولوں میں پڑھتا تھا، آپ نے آج سرکاری اسکول بیچنا شروع کردیے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا وارث اسکول، ہسپتال، آبپاشی کی زمینیں اور اپنی ٹرانسپورٹ بیچتا ہے؟ اپنے گھر کے برتن بیچنے والا وارث نہیں ہوتا، وہ ڈنگ ٹپا ٹھگ ہوتا ہے، ہم حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں،کینالز کے مسئلے پر صوبوں کو آپس میں نہ لڑائیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربلوچستان میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور لیویز اہلکاروں پر حملہ، 2 شہید بلوچستان میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور لیویز اہلکاروں پر حملہ، 2 شہید آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس ، مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کردیا، بل صوبے کی معدنیات و وسائل پر قبضے کے مترادف... قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور،پاکستانیوں کو شہریت نہیں چھوڑنی پڑے گی،ڈی جی پاسپورٹس پہلگام حملہ: بھارتی میڈیا کا پاکستان مخالف شیطانی پروپیگنڈا ایک بار پھر بے نقاب نجی آپریٹرز کی نااہلی کے شکار حج سے محروم ہزاروں عازمین کیلئے امید کی کرن جاگ اُٹھی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • موسمیاتی تبدیلی پاکستان کیلئے سنگین خطرہ اور بقا کے لیے چیلنج ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک ذاتی اپیل
  • پاک بھارت کشیدگی: پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ٹریڈنگ شدید مندی کاشکار
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج : 100 انڈیکس میں 1553 پوائنٹس کی کمی
  • پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی ، انڈیکس ایک لاکھ ، 15 ہزار سے نیچے آ گیا
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑی مندی کے ساتھ کاروبار کا آغاز
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑی مندی کے ساتھ کاروبار کا آغاز
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان، 1553 پوائنٹس کی کمی
  • کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، پیپلزپارٹی
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مندی،100 انڈیکس میں 250 پوائنٹس سے زائد کی کمی،ڈالر بھی مہنگا