اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سانحہ 9 مئی کے ملزموں کے فوجی ٹرائل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کون طے کرتا ہے کہ فلاں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلے گا اور فلاں کا نہیں؟۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا نو مئی کا واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا ہے؟۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر کر دیا، آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کیلئے چھیڑا گیا، آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کرکے بنیادی حقوق معطل کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہوسکتا، اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کرا سکتی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہوسکتا ہے، صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ملزموں کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے، ایمرجنسی بھی نافذ نہیں تھی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے۔ دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی اس شق کو کالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہوگا، کیا اب کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ایچ کیو پر پہلے بھی ایک حملہ ہوا جس میں شہادتیں ہوئیں، کراچی میں ایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں۔ طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے ان کے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ محض الزام تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ان واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، شہادتیں ہوئیں، یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے، ایسے واقعات کا ڈیٹا فراہم کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیس ملٹری کورٹس کے وجود کا نہیں بلکہ اختیار سماعت کا کیس ہے، کون سا کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا کون سا نہیں چلے گا، یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لیکر جارہے ہیں، ایک باسکٹ میں میرا سوال بھی لے جائیں، 9 مئی واقعات میں 103 ملزموں کیخلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا، باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یہ تفریق کیسے کی گئی کون سا کیس ملٹری کورٹس میں جائے گا، کون سا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جائے گا۔ ملزموں کو فوج کی تحویل میں دینے کا انسداد دہشت گردی عدالتوں کا تفصیلی فیصلہ کدھر ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کسی جرم پر کون اور کیسے طے کرتا ہے کیس کہاں جائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمات کہاں چلنے ہیں اس کی تفریق کیسے اور کن اصولوں پر کی جاتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا، اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟۔ انسداد دہشتگردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟۔ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا نو مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا ہے؟۔ اچھے تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مجرموں کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ پیش کر دی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مجرموں کو صبح ساڑھے سات بجے ناشتے کے بعد لان میں چھوڑ دیا جاتا ہے، شام پانچ بجے تک باہر رہتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ لان کون سا ہے، ڈیتھ سیل والا لان تو نہیں ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ نہیں سر یہ وہ والا لان نہیں جو آپ نے دیکھا ہوا ہے، جیل میں ٹک شاپ ہے، کافی وغیرہ بھی پی سکتے ہیں، گھر سے مجرموں کو میٹرس بھی دیئے گئے ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا مطلب ہے گھر والا ماحول ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے غلط بیانی کی تو ہم جیل اصلاحات کمیٹی سے بھی رپورٹ منگوا لیں گے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ مجھے تیس سال پریکٹس کرتے ہوگئے ہیں میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں بھی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہ چکی ہوں، جہاں آئین معطل نہ ہو کیا وہاں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے؟۔ یہ کون اور کیسے طے کرتا ہے کہ کون سا کیس ملٹری کورٹس میں جائے گا اور کون سا سول کورٹس میں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کا ذکر ہے، میں اس پر تفصیل سے دلائل دوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، ملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے لیکن آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں۔ محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کوئی عدالت آئین سے متصادم نہیں بنائی جا سکتی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم سزا یافتہ ملزموں سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دے سکتے ہمیں سب کی سکیورٹی عزیز ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وکالت نامہ پر دستخط کی سہولت نہ ملنے سمیت  کوئی بھی شکایت ہے تو متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سے رجوع کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جیل مینوئل کے تحت وکالت نامہ پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سے سپریم کورٹ رپورٹ منگوا لے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم اپنے سکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے۔ خواجہ حارث ٹیسٹ میچ کی طرح لمبا کھیلتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ٹی ٹونٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے کیس ملٹری کورٹس میں جسٹس امین الدین خان جسٹس مسرت ہلالی نے کیس ملٹری کورٹ سپریم کورٹ کے سپریم کورٹ نے خواجہ حارث نے سا کیس ملٹری بنیادی حقوق عدالتوں میں فوجی عدالت تفریق کیسے کون سا کیس جائے گا کیس میں کی گئی

پڑھیں:

عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے فون آیا تھا، بیرسٹر گوہر علی خان

بیرسٹر گوہر علی خان(فائل فوٹو)۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ یہ بات درست ہے عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے فون آیا تھا۔ 

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کا کہا گیا تھا، عمر ایوب یہاں موجود نہیں تھے، ملاقات کے حوالے سے ابھی اندازہ نہیں کہ کیا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ عمر ایوب نے کوئی پیغام نہیں بھیجا، ان کی چیف جسٹس سے ملاقات کی کوئی خواہش نہیں تھی۔

 بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کی طرف سے پیغام آیا تھا، عمرایوب کا حق تھا انہوں نے خط لکھا تھا شاید وہ اس پر کچھ جاننا چاہ رہے تھے۔ 

انھوں نے کہا کہ یہ کچھ بعید نہیں ہے اس سے پہلے بھی چیف جسٹس ایسا کرچکے ہیں، عمر ایوب بڑی پارٹی کے اپوزیشن لیڈر ہیں، ان کو فون آجاتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے کچھ لوگ ملک سے جمہوریت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں: بیرسٹر گوہر 3 دن میں تین سزائیں ہوئیں اور 45 سال کی سزا سنائی گئی، بیرسٹر گوہر بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے حوالے سے متعصب قرار دے دیا

بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ چیف جسٹس کو خط ملا تھا وہ اِن پُٹ لینا چاہ رہے تھے، فوری سزائیں نہ ہوتیں تو کچھ ہو بھی جاتا، عمر ایوب آج بھی اپوزیشن لیڈر ہیں اور ان شاء اللّٰہ کل بھی ہوں گے۔ 

انھوں نے کہا کہ عمرایوب کو سزا بالکل غلط اور ناجائز ہوئی ہے، ایسا انصاف نہیں ہوتا، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، یہ جمہوریت اور انصاف کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ 

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 9 مئی کی ہم مذمت کرچکے ہیں، 9 مئی نہیں ہونا چاہیے تھا اور آئندہ بھی نہ ہو، اس کی آڑ میں آپ ایک پارٹی کو سزا نہ دیں، پورے سسٹم کو ڈی ریل نہ کریں، سیاسی نظام کو ختم نہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں  صارف عدالتیں ختم ‘ کیس سیشن کورٹس منتقل کرنے کا حکم 
  • 26 ویں ترمیم، انتظامیہ عدلیہ سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب
  • اکبر ایس بابر کا بیرسٹر گوہر کی آسٹریلیا کے ہائی کمشنر سے ملاقات پر خط، غلطی تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • پنجاب میں صارف عدالتیں ختم، کیس سیشن کورٹس کو منتقل کرنے کا حکم
  • پنجاب میں صارف عدالتیں ختم، اختیارات سیشن کورٹس کو منتقل
  • چیف جسٹس کا قانونی معاونت کی نئی اسکیم اور عدالتی اصلاحات کا اعلان
  • فوجی آپریشن سے خیبر پختونخوا کے عوام میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے، پروفیسر ابراہیم
  • عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے فون آیا تھا، بیرسٹر گوہر علی خان
  • پاکستان میں دودھ کی پیداوار کتنی، پروڈکشن کے لحاظ سے دنیا میں نمبر کونسا؟
  • وزیراعظم کے بیٹے کو ریلیف؛ لاہور ہائیکورٹ نے مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا