شوگر مل مالکان مافیا بن چکے ہیں،ایوان زراعت سندھ
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) ایوان زراعت سندھ کے مرکزی جنرل سیکرٹری زاہد حسین بھرگڑی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سندھ کے شوگر مل مالکان مافیا بن چکے ہیں، گنے کی قیمت 100 روپے فی من کم کر دی، 2 لاکھ من گنے کی کرشنگ کی صلاحیت رکھنے والی ملیں 50 ہزار من گنے کی کرشنگ کر کے سست رفتاری سے چلنا شروع کر دیں، گنے سے لدے ہزاروں ٹرالر، ٹرک اور ٹریکٹر ٹرالیاں کئی دن سے پھنسی ہوئی ہیں، جس سے آؤٹ زونز سے گنے کی خریداری بند ہے۔ ایوان زراعت سندھ نے 35 شوگر مل مالکان کو مافیا قرار دیتے ہوئے انہیں استحصالی گینگ قرار دے دیا، سندھ حکومت فوری طور پر شوگر مل مالکان کیخلاف کارروائی کرے اور گنے کی قیمت 400 روپے فی من بحال کرنے اور شوگر ملوں کو تیزی سے چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مافیا نے لاکھوں کسانوں کو یرغمال بنا کر اربوں روپے کی گنے کی معیشت کو لوٹا، قانونی کارروائی کی جائے۔ سندھ کے 35 شوگر مل مالکان نے آپس میں اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جنہوں نے ایک ہفتے کے اندر گنے کی قیمت 475 روپے فی من کردیا ہے، جبکہ شوگر مل مالکان 2 لاکھ روپے من گنے کی کرشنگ کرنے والی شوگر ملیں اب 50 ہزار من گنے کی کرشنگ کر رہی ہیں، اس کے علاوہ پورے سندھ میں گنے کے مالکان نے سیکٹر اور اپنے آٹر زون سے گنے کی خریداری کا عمل بند کر دیا جس سے سندھ میں گنے کے کاشتکاروں میں شدید بے چینی کی صورتحال پھیل گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے کسان سراپا احتجاج بن گئے، گنے کے مالکان نے مافیا کا روپ دھار کر سندھ کے لاکھوں کسانوں کو یرغمال بنا لیا، اربوں روپے کی گنے کی معیشت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، کسانوں کا معاشی قتل کیا، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، ٹرالر، ٹرک اور ٹریکٹر ٹرالیاں کھڑی ہیں جن سے گنے آہستہ آہستہ لیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کٹا ہوا گنا کھیتوں میں سوکھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف 10 جنوری کو ٹنڈو الہیار میں چمبڑ شوگر مل کے سامنے گنے سے بھری 130 گاڑیاں، ٹنڈو الہیار شوگر مل کے سامنے 322 گاڑیاں، فاران شوگر مل کے سامنے 263 گاڑیاں، انصاری شوگر کے سامنے 148 گاڑیاں، مل، ڈگری شوگر مل کے سامنے 125 گاڑیاں، مہران شوگر مل کے سامنے 141 گاڑیاں، تھر شوگر مل کے سامنے 245 گاڑیاں، میرپورخاص شوگر مل کے سامنے 277 گاڑیاں، باوانی شوگر مل کے سامنے 266 گاڑیاں، 138 گاڑیاں، کھوسکی شوگر مل، سانگھڑ شوگر مل کے سامنے 174 گاڑیاں، 194 گاڑیاں، آباد گار شوگر مل کے سامنے 145 گاڑیاں، شاہ مراد شوگر مل کے سامنے 230 گاڑیاں کھڑی ہیں، آرمی شوگر مل کے سامنے گنے سے بھری گاڑیاں 3 روز سے کھڑی ہیں جن سے گنا نہیں خریدا جا رہا، تاہم 10 جنوری سے شاہ مراد شوگر مل، فاران شوگر مل، انصاری شوگر مل اور آبادگر شوگر مل نے اپنے آٹ زون سیکٹرز میں گنے کی خریداری مکمل طور پر بند کر دی اور اپنے سیکٹرز بند کر دیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: من گنے کی کرشنگ سندھ کے
پڑھیں:
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارتی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی
ذرائع کے مطابق بھارت کی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی، ہندوستان کسی بھی طرح قانونی طور پر اس معاہدے کو یکطرفہ ختم نہیں کر سکتا، ہندوستان نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا، ہندوستان نے سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ ہندوستان کی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازش کھل کر سامنے آ گئی اور حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات کھل کر سامنے آگئے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی، ہندوستان کسی بھی طرح قانونی طور پر اس معاہدے کو یکطرفہ ختم نہیں کر سکتا، ہندوستان نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا، ہندوستان نے پہلگام فالس فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کر دیا۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذموم حرکت 1960ء کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر 12 (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں، بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔
ذرائع ننے بتایا کہ سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian ،lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔ باوثوق ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔