Express News:
2025-11-05@00:47:29 GMT

کیا ٹرمپ بائیڈن سے بہتر ثابت ہوں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

ٹرمپ نے امریکی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کر کے بلاشبہ بائیڈن کو سبق آموز شکست دی ہے مگر اس شکست کی وجہ بائیڈن کی بحیثیت امریکی صدر اندرونی غلطیاں اور عالمی امور میں ناکامیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی بائیڈن کی ناکامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، سب سے اول تو وہ غزہ کا مسئلہ حل کرانے میں ناکام رہے مگر کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرانا چاہتے ہی نہیں تھے۔

بائیڈن کا دور اب ختم ہونے والا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ سال سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے مگر افسوس کہ بائیڈن نیتن یاہو کو نہ روک سکے بلکہ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ وہ اسے روکنا چاہتے ہی نہیں تھے، اس بات کا ثبوت اس طرح بھی مل جاتا ہے کہ جب بھی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بند کرانے کے لیے کسی ملک کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی تو امریکا کی جانب سے اس کے خلاف ویٹو استعمال کیا گیا۔

یہ سب بائیڈن کی فطرت میں چھپی عیاری کا پتا دیتا ہے کہ ایک طرف وہ جنگ کے خلاف تھے تو دوسری طرف وہ اسرائیلی بربریت کو بڑھاوا دیے جا رہے تھے شاید ان کی اس مکاری کا صلہ قدرت نے انھیں یہ دیا کہ وہ امریکی صدارت کے لیے دوسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل ثابت نہیں ہو سکے۔

اب ٹرمپ کا دور شروع ہو گا تو پتا چلے گا کہ ان کی غزہ کے بارے میں کیا پالیسی ہے، ویسے انھوں نے نیتن یاہو کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی غزہ پر حملے بند کردے اور جنگ بندی کا معاہدہ کر لے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ٹرمپ بائیڈن کی طرح فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں یا پھر انھیں نیتن یاہو کی بربریت سے بچاتے ہیں۔

ابھی انھوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا ہے مگر اس سے پہلے ہی بڑی بڑی باتیں اور بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور پاناما وگرین لینڈ کو خریدنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔

کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟ لگتا ہے وہ اس دفعہ اپنی جیت سے اتنے خوش ہیں کہ آپے سے باہر ہو گئے ہیں۔ وہ سب سے پہلے اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو ہی بہتر ہوگا، اس لیے کہ بائیڈن نے اپنے چار سالہ دور میں امریکی امیج کو بہت نقصان پہنچایا ہے دوستوں کو دشمن بنایا ہے اور یوکرین جیسے محاذ پر ذلت اٹھائی ہے، اس کے علاوہ بھی دیگر مسائل ہیں جن پر توجہ مرکوزکرنا ضروری ہے۔

ٹرمپ کے اپنے دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے امریکا کو تو نقصان پہنچے گا ہی ساتھ ہی ٹرمپ کی صلاحیت پر بھی شک کیا جائے گا۔ ویسے بھی وہ 80 سال کے ہو چکے ہیں چنانچہ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے اپنے ملکی مسائل کی جانب توجہ دیں اور پھر عالمی مسائل کی جانب مائل ہوں۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت عالمی حالات امریکی مفاد کے خلاف ہیں۔ چین اور روس عالمی سطح پر اپنا مقام بنا رہے ہیں جب کہ امریکی اجارہ داری نے پوری عالمی برادری کو ناراض کردیا ہے۔ خود یورپی ممالک جو کبھی امریکا کا دم بھرتے تھے، اب امریکا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

یورپ کی سیکیورٹی کی ذمے داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے مگر اب یورپی ممالک خود اپنی حفاظت کا انتظام کر رہے ہیں اور امریکن ڈکٹیشن پر چلتے ہوئے جن ممالک سے دشمنی کی فضا قائم تھی، ان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔

ٹرمپ پہلے صدر ہوں گے جنھوں نے یورپ سے اس کی حفاظت کے عوض معاوضہ طلب کیا ہے۔ یہ امریکی رویہ سراسر یورپی ممالک کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ امریکی منفی رویے کی وجہ سے ہی مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو پہلے روس سے ٹوٹ کر مغربی ممالک کے حلیف بن گئے تھے اور بعد میں نیٹو کے ممبر بھی بن گئے تھے اب روس کی طرف واپس جا رہے ہیں وہ پیوتن کی پالیسیوں کو بھی کھلم کھلا سراہ رہے ہیں۔

دراصل روس کی پالیسی امریکا کی طرح دنیا پر حکمرانی کرنے یا اپنی طاقت کے بل پر کمزور ممالک پر قبضہ کرنے والی نہیں ہے۔ روس اب پہلے کی طرح صرف اپنے حلیفوں تک تعلقات محدود رکھنے کی پالیسی کو ترک کر کے تمام ممالک کے دکھ درد میں شریک ہو رہا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکا کے غریب ممالک میں اب وہ بہت مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغربی ممالک سے ہٹ کر وہ ’’ جیو اور جینے دو ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

روس کی اب برصغیر کے لیے خارجہ پالیسی میں بھی بہت تغیر آ چکا ہے، پہلے وہ صرف بھارت کا دم بھرتا تھا مگر اب وہ پاکستان سے بھی اچھے تعلقات قائم کر چکا ہے۔ کشمیر کے بارے میں بھی اب اس کی پالیسی پہلے کی طرح بھارت نواز نہیں رہی ہے۔

بھارت روس کو اب بدلے ہوئے حالات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اسے پہلے کی طرح اپنا قبلہ و کعبہ مانتا ہے مگر اس کی پالیسی سراسر دوغلی ہے۔ وہ مغربی ممالک سے بھی فائدہ اٹھانے کے لیے دوستی کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔ اس کی موقع شناس خارجہ پالیسی کی وجہ سے روس اور مغربی ممالک دونوں ہی اسے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

امریکا اور کینیڈا میں جب سے بھارت نے سکھوں کے رہنماؤں کو قتل کرانے کی غلطی کی ہے، اس سے باز پرس کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا اورکینیڈا دونوں چاہتے ہیں کہ بھارت اپنے جرم کا اعتراف کر لے مگر وہ اپنے جرم کو قبول نہیں کر پا رہا ہے۔ تاہم اب اس کی دہشت گردی بے نقاب ہو چکی ہے۔

وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو چکا ہے۔ امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں بھارت کے امریکا کینیڈا اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں ’’را‘‘ کے ذریعے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کی رپورٹ شایع کی ہے۔

اب حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عزت خاک میں مل چکی ہے اور یہ صورت حال بی جے پی حکومت کے لیے ڈوب مرنے والی ہے کیونکہ وہ تو بھارت کو ایک مہان دیش بنانا چاہتے ہیں مگر وہ تو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر دنیا بھر میں بدنام ہو چکا ہے۔ مودی نے لگتا ہے اب ٹرمپ کی آشیرباد سے بھارت کی ساکھ کو بہتر بنانے کی امید لگا رکھی ہے مگر اب تو وہ بھی بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مغربی ممالک کی پالیسی بائیڈن کی چاہتے ہی سے پہلے کی جانب رہے ہیں رہا ہے کی طرح کی وجہ ہے مگر سے بھی

پڑھیں:

امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے  ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔

عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔

کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو  33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔

جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔

اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سی بی ایس کی ’کٹ اینڈ پیسٹ‘ پالیسی پر صدر ٹرمپ کی نئی چوٹ
  •  امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • چین ، روس ، شمالی کوریا اور پاکستان سمیت کئی ممالک جوہری ہتھیاروں کے تجربات کررہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
  • ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق