سورج نیلا کیوں پڑا؟ سائنسدانوں نے 2 صدی پرانی گتھی سلجھا لی
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
لندن:
سائنسدانوں کی ٹیم نے سورج کا رنگ تقریباً 2 صدی قبل پراسرار طور پر نیلا پڑنے کی گتھی سلجھا لی۔
اسکاٹ لینڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق1831میں بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار ہوا میں پھیلی جس سے سورج نیلا نظر آنے لگا، اس سے ٹھنڈ میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔
اپنی دریافت کی توثیق کیلیے انھوں نے آئس کور ریکارڈز کے مطالعہ کے دوران نوٹ کیا کہ1831میں آتش فشاں کے پھٹنے کا کوئی عینی شاہد نہیں کیونکہ ایسا سموشیر نامی دور دراز اور غیر آباد جزیرے پر ہوا جوکہ اس وقت روس اور جاپان کے مابین متنازعہ علاقہ ہے۔
شریک تحقیق کے مطابق لیبارٹری میں آتش فشاں کے مرکز سے ملنے والی برفیلی راکھ کا تجزیہ ایک سنسنی خیز دریافت تھی۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا امکان ہے اسی طرح کا ایک اور آتش فشاں دوبارہ پھٹ کرکرہ ارض پر زندگی کو درہم برہم کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خواتین میں دل کی صحت بہتر بنانے کا سستا نسخہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قدرتی پھل نہ صرف ذائقے کے اعتبار سے پرکشش ہوتے ہیں بلکہ ان کے اندر پوشیدہ غذائی خزانے انسانی صحت پر دیرپا اور مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں۔
اسی حوالے سے آم جو گرمیوں کا بادشاہ کہلاتا ہے، اب ایک سادہ سا ذائقہ دار پھل نہیں رہا بلکہ جدید سائنسی تحقیق نے اسے دل کی صحت کے لیے مؤثر اور طاقتور قدرتی معاون قرار دے دیا ہے۔
حال ہی میں امریکا میں شائع ہونے والی ایک طبی تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ درمیانی عمر کی خواتین اگر روزانہ مناسب مقدار میں آم کا استعمال کریں تو ان کی دل کی مجموعی صحت میں نمایاں بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے جرنل آف دی امریکن نیوٹریشن ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی، جس نے طب و تغذیہ کے ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔
تحقیق کے دوران 50 سے 70 سال کے درمیان عمر کی 24 خواتین کو شامل کیا گیا، جن کا وزن اوسط سے زیادہ یا مٹاپے کی حد کو چھو رہا تھا۔ ان خواتین کو روزانہ تقریباً 330 گرام آم کھانے کو دیا گیا، جو اندازاً ڈیڑھ کپ آموں کے برابر مقدار ہے۔ تحقیق کا دورانیہ 2ہفتوں پر محیط تھا اور اس دوران بار بار خواتین کی جسمانی کیفیت بشمول بلڈ پریشر، کولیسٹرول کی سطح، اور انسولین کے ردعمل کو لیبارٹری میں جانچا گیا۔
حاصل کردہ ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ آم کھانے کے صرف 2گھنٹے بعد ہی خواتین کے بلڈ پریشر میں واضح کمی نوٹ کی گئی۔ اس کے علاوہ شریانوں پر دباؤ میں کمی اور خون میں کولیسٹرول کی سطح میں اوسطاً 13 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔ یہ وہ نتائج ہیں جو دل کے امراض سے بچاؤ کے لیے نہایت اہم اور حوصلہ افزا سمجھے جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق آم کو تحقیق کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ پھل قدرتی فائبر، اینٹی آکسیڈنٹس اور مخصوص بائیو ایکٹیو کمپاؤنڈز سے بھرپور ہوتا ہے جو دل کی شریانوں کو تقویت دینے، خون میں چکنائی کی سطح کو متوازن رکھنے اور بلڈ پریشر میں کمی لانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق کے دوران خواتین کو صرف آم ہی نہیں بلکہ بعض اوقات سفید ڈبل روٹی بھی کھلائی گئی تاکہ مختلف کاربوہائیڈریٹس کا انسانی جسم پر اثر موازنہ کیا جا سکے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ دونوں اشیا خون میں شکر کی مقدار بڑھاتی ہیں، مگر آم کے اثرات نرم اور قلیل مدتی ہوتے ہیں، جب کہ ڈبل روٹی خون میں انسولین کی سطح کو طویل عرصے تک بلند رکھتی ہے، جو ذیابیطس کے مریضوں یا اس کے خطرے سے دوچار افراد کے لیے مضر ہو سکتا ہے۔
آم کھانے کے بعد انسولین کی سطح میں کمی یا اضافے کی رفتار متوازن رہی، جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ پھل بلڈ شوگر کو تیزی سے بلند نہیں کرتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امر انتہائی اہم ہے کیونکہ اکثر پھلوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ شوگر لیول میں اچانک اضافہ کرتے ہیں، جو خطرناک ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین نے زور دیا کہ آم جیسے پھل اگر اعتدال کے ساتھ کھائے جائیں تو نہ صرف مٹھاس کی خواہش کو صحت مند انداز میں پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ دل کی صحت کو بہتر بنانے، بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے اور شریانوں کو نقصان سے بچانے میں بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ نتائج خاص طور پر ان خواتین کے لیے نہایت مفید ہیں جو درمیانی عمر میں داخل ہو چکی ہیں اور دل کے امراض کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ یہ تحقیق محدود تعداد میں شرکا پر کی گئی اور اس کا دورانیہ بھی مختصر تھا، مگر اس کے نتائج اتنے حوصلہ افزا ہیں کہ ماہرین نے اس موضوع پر بڑے پیمانے پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اس بات کی مکمل تصدیق ہو سکے کہ آم کے صحت پر یہ اثرات مستقل اور عالمگیر ہیں۔
ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ آم کو عموماً ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ممنوع سمجھا جاتا ہے، مگر اس تحقیق نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ تمام کاربوہائیڈریٹس ایک جیسے نہیں ہوتے اور آم جیسے قدرتی ذرائع سے حاصل کردہ کاربوہائیڈریٹس کا جسم پر اثر بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔
یہ تمام باتیں ہمیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر ہم قدرتی غذاؤں کو سائنسی بنیادوں پر پرکھیں، تو نہ صرف بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بہتر غذائی انتخاب کے ذریعے ہم صحت مند، متوازن اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ آئندہ آم کھاتے وقت اس پھل کو صرف گرمیوں کی لذت یا مٹھاس کا ذریعہ سمجھتے تھے تو اب اس میں دل کی صحت کا راز بھی چھپا ہوا سمجھیں۔