لاہور جنرل ہسپتال میں10سالہ بچی کی کامیاب برونکو سکوپی،والدین کااظہار تشکر
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک: لاہورجنرل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے 10 سالہ مناہل کی پیچیدہ برونکو سکوپی کامیابی سے مکمل کرکے بچی کوصحت کا تحفہ دے دیا۔
یہ کامیاب پروسیجر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فریاد حسین جو ایسوسی ایٹ پروفیسر آف پیڈیاٹرک میڈیسن بھی ہیں کی نگرانی میں کیاگیا، اس موقع پر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ پلمونالوجی ڈاکٹر جاوید مگسی،ڈاکٹر نعیم اختر، پروفیسر آغا شبیر اوردیگر بھی موجود تھے۔
کرک: انڈس ہائی وے پر ٹریفک حادثہ،12 افراد جاں بحق
پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر کا اس موقع پرکہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بچوں کے علاج معالجے میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیں ان کے ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے لاہور جنرل ہسپتال میں سٹیٹ آف دی آرٹ آپریشن تھیٹر مختص کیا گیا ہے جہاں بڑوں اور بچوں کی برونکو سکوپی شروع کردی گئی ہے۔
پروفیسر الفرید ظفر نے مزید کہا کہ انسانی جان بچانا ڈاکٹر زکی اولین ترجیح ہونی چاہیے، ڈاکٹر فریاد حسین نے اپنی انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کلینیکل سرگرمیاں بھی جاری رکھ کر شاندار مثال قائم کی ہے۔
پیٹرولیم منصوعات کی قیمتیں پھر بڑھنے کا امکان
ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین کے مطابق 10 سالہ مناہل کو گزشتہ تین ماہ سے بخار کے ساتھ ساتھ وزن کم ہونے کی شکایت بھی تھی جس پر بچی کے والدین اسے مختلف ہسپتالوں میں لے کر گئے مگر افاقہ نہ ہوا،اس کے بعد والدین مناہل کو لاہور جنرل ہسپتال لائے جہاں ڈاکٹروں نے تفصیلی چیک اپ کیا اور ادویات اور تشخیصی ٹیسٹ کرانے کے بعد برونکوسکوپی تجویز کی جو کامیاب رہی۔
طبی ماہرین کا کہنا تھابرونکوسکوپی کی مدد سے ہم بچوں میں مختلف بیماریوں کی تشخیص کر سکتے ہیں اور اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں موجود مسائل کو براہِ راست دیکھ سکتے ہیں، یہ خاص طور پر ان حالات میں مفید ہے جب کسی بچے کو نمونیا، فنگل انفیکشن یا کسی دوسرے انفیکشن کا شبہ ہو یا جب کینسر جیسی سنگین بیماریوں کی تشخیص کرنا ضروری ہو۔
Currency Exchange Rates Saturday 11 January , 2024
طبی ماہرین نے بتایا کہ برونکوسکوپی کے ذریعے پھیپھڑوں سے نمونے لے سکتے ہیں جس کے بعد لیب میں جانچ کر کے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس قسم کا انفیکشن یا بیماری موجود ہے،اگر فنگس یا بیکٹیریا کا انفیکشن ہو تو اس کی جانچ کے بعد ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ کون سا مائیکروارگنزم اس کا سبب بن رہا ہے جس کے بعدمناسب علاج تجویز کیا جاتا ہے، یہ طریقہ نہ صرف بیماریوں کی تشخیص بلکہ علاج کے دوران بھی مفید ثابت ہوتا ہے اورخاص طور پر اُن بچوں کے لیے جو پھیپھڑوں کی کرونک (لمبے عرصے تک رہنے والی) بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سونے اور چاندی کے آج کے ریٹس-ہفتہ 11 جنوری، 2024
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-25
خرطوم (مانیٹرنگ ڈیسک) سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل کو قتل کردیا گیا‘ ہزاروں افراد محصور ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زاید افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن ہزاروں اب بھی محصور ہیں۔ جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سیکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زاید ہلاکتیں ہوئی ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام آخری اطلاعات تک جاری تھا۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زاید افراد بے گھر اور ہزاروں ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔یہ واقعات پانچ دن بعد پیش آ رہے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا۔اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ جاری جنگ کے دوران آر ایس ایف نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد بالآخر دارفور کے اس آخری فوجی گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ کئی عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 500 شہریوں اور فوج کے ساتھ منسلک اہلکاروں نے اتوار کے روز فرار کی کوشش کی مگر زیادہ تر کو آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے قتل یا گرفتار کر لیا۔رپورٹس کے مطابق دارفور میں زیادہ تر غیر عرب نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جو سوڈان کے غالب عرب باشندوں سے مختلف ہیں۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق آر ایس ایف کو متحدہ عرب امارات سے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے گئے، تاہم اماراتی حکام نے بیان میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی کسی بھی حمایت کے الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔دوسری جانب فوج کو مصر، سعودی عرب، ایران اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے۔ الفاشر پر قبضے کے بعد آر ایس ایف نے دارفور کے تمام 5 صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے ملک عملاً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔