اسلام آباد(نیوز ڈیسک)قومی ایئر لائنز پی آئی اے ایک متنازع اشتہار کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئی ہے.

ساڑھے 4 سال کے طویل عرصے بعد جب پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی پروازوں پر یورپ میں عائد پابندی ہٹائی گئی تو یہ ایک خوش کن لمحہ تھا لیکن پیرس کے لیے پروازوں کی بحالی کا تصویری اعلان ایک نیا تنازع کھڑا کر گیا۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے جمعہ کو اعلان کیا کہ اس نے پابندی ہٹائے جانے کے بعد یورپ کے لئے پروازیں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ اس تناظر میں پی آئی اے نے پیرس کیلئے ایک پرواز کا اشتہار جاری کیا تھا جس نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔

اس ضمن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈل سے ایک گرافک پوسٹ جاری کی گئی جس میں پیرس کی پہچان مشہورِ زمانہ ایفل ٹاور کے ساتھ پی آئی اے کا جہاز اور پسِ منظر میں فرانس کا جھنڈا دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ اشتہار بنواتے اور اسے پوسٹ کرتے ہوئے پی آئی اے انتظامیہ نے سوچا نہیں ہو گا کہ یہ اتنا وائرل ہو سکتا ہے۔

دراصل اس تصویر کا مقصد تو خوشخبری دینا تھا کہ پاکستان کی قومی ائیرلائن کی پروازیں فرانس کے لیے بحال ہوگئی ہیں لیکن اس تصویر پر لوگ اس اندیشے کا اظہار کرتے نظر آئے کہ یہ خوشخبری ہے یا کسی سانحے کی پیشگی اطلاع؟

اس تصویر میں پی آئی کے طیارے کو ایفل ٹاور کے بالکل سامنے دکھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ”پیرس ہم آج آ رہے ہیں“ جسے دیکھ کر بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ طیارہ ایفل ٹاور سے ٹکرانے والا ہے۔

اصل میں اس گرافک پوسٹ پر امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاور پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے تناظر میں تنقید کی جارہی ہے۔

9/11 کے بعد نیویارک کی پروازوں کے لیے پی آئی اے کا ہی ایک پرانا اخباری اشتہار سامنے آیا تھا جس میں ٹوئن ٹاور پر جہاز کا عکس دیکھا گیا تھا۔
تنقید کرنے والوں میں صرف پاکستانی ہی نہیں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

کئی سوشل میڈیا صارفین نے گرافک ڈیزائنر کو نوکری سے فارغ کرنے یہاں تک کہ جیل بھیجنے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔

تو کچھ نے شبہ ظاہر کیا کہ اس طرح کا گرافک بنانا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہوسکتا ہے تا کہ اشتہار وائرل ہوسکے۔

یاد رہے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے یورپی یونین کی جانب سے ایئر لائن پرعائد پابندیاں ہٹنے کے بعد اسلام آباد سے پیرس فلائٹ آپریشن 10 جنوری 2025 سے دوبارہ شروع کیا ہے۔
مزیدپڑھیں:لاس اینجلس کی آگ میں ہالی ووڈ کا عالمی شہرت یافتہ سائن بھی بھسم؟ حقیقت کیا ہے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پی آئی اے

پڑھیں:

پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟

پاکستان کی ترقی اور اہم آئینی و انتظامی امور میں بہتری کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ایک ناگزیر قومی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ مختلف حقائق کی روشنی میں درج ذیل نکات اس ترمیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات مل گئے، مگر بلدیاتی حکومتیں 90 فیصد اضلاع میں یا تو ختم کر دی گئیں یا انہیں بااختیار نہیں ہونے دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 140-اے کے باوجود صوبوں نے گزشتہ 15 برسوں میں عوام کو مستقل مقامی حکومتیں فراہم نہیں کیں۔ 27ویں ترمیم اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔

عالمی ماڈلز جیسے جرمنی، ترکی، بھارت اور اٹلی میں آئینی عدالتیں الگ سے موجود ہیں جو پارلیمان کے قانون، فوجی فیصلوں اور سیاسی تنازعات میں صرف آئینی تشریح کرتی ہیں، حکومت نہیں چلاتیں۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کے کون سے اختیارات وفاق کو مل سکتے ہیں؟ فیصل واؤڈا نے بتا دیا

پاکستان میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 24 لاکھ سے زائد ہے اور ایک سول کیس کا اوسط فیصلہ 8 سے 10 سال میں آتا ہے۔ ایسے میں ایک آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کے تبادلوں کے شفاف طریقۂ کار سے عدلیہ پر بوجھ کم ہو سکے گا، آئینی تنازعات کے فوری حل کی راہ ہموار ہوگی اور سپریم کورٹ کا بوجھ قریباً 25 فیصد کم ہو سکتا ہے۔

ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے خاتمے کے بعد عدالتوں کا بوجھ 300 فیصد تک بڑھ گیا، جبکہ 70 فیصد مقدمات ایسے ہیں جو موقع پر مجسٹریل اختیارات سے حل ہو سکتے تھے۔

امن و امان، تجاوزات اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی میں صوبائی و انتظامی نظام بے اختیار نظر آتا ہے۔ اس لیے ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے نظام کی بحالی ایک مؤثر قدم ہوگا۔

پاکستان میں آبادی کی شرحِ اضافہ 2.55 فیصد سالانہ ہے، جبکہ ایران میں 1.1 فیصد، بھارت میں 0.9 فیصد اور چین میں صرف 0.03 فیصد ہے۔ اگر آبادی کی منصوبہ بندی وفاقی سطح پر مربوط پالیسی کے تحت نہ کی گئی تو 2040 تک پاکستان کی آبادی 34 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جس سے وسائل پر شدید دباؤ بڑھے گا۔

مزید پڑھیں: مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار 2.7 فیصد جبکہ شرح خواندگی 55 فیصد سے کم ہے۔ پنجاب میں خواندگی نسبتاً بہتر (66 فیصد) ہے مگر آبادی کے دباؤ کے باعث صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے قومی نصابِ تعلیم اور آبادی کنٹرول کی پالیسیاں وفاقی سطح پر نافذ ہونا ناگزیر ہیں۔

پاکستان میں سالانہ قریباً 19 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہو رہے ہیں۔ صوبائی کارکردگی میں نمایاں فرق ہے: پنجاب 33 فیصد، سندھ 23 فیصد، خیبر پختونخوا 21 فیصد اور بلوچستان 36 فیصد۔ یہ فرق 18ویں ترمیم کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے، اس لیے تعلیم کو دوبارہ وفاقی دھارے میں لانا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

ملک میں سرکاری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار سے زائد ہے، مگر ان میں سے نصف سے زیادہ میں بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، بجلی، باتھ روم اور چار دیواری موجود نہیں۔

صوبائی حکومتوں نے تعلیمی بجٹ عمارتوں پر صرف کیا مگر معیارِ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور ٹیکنالوجی کو نظر انداز کیا۔ اس صورتِحال میں وفاقی معیار اور نگرانی ناگزیر ہے۔

مزید پڑھیں: توجہ ترقی پر مرکوز ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں، اسحاق ڈار

دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سے 42 میں دفاع، آبادی، تعلیم، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بنیادی اختیارات وفاق کے پاس ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی اور تعلیم مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دی گئی، جس سے قومی بیانیے، سلامتی اور شناخت میں تضادات پیدا ہوئے۔

این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقم گزشتہ 15 برس میں 10 گنا بڑھ گئی، مگر صوبائی ٹیکس وصولی میں صرف 70 تا 80 فیصد اضافہ ہوا۔ خرچ بڑھنے کے باوجود آمدن میں بہتری نہ آنے سے وفاقی مالیاتی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

دفاعی بجٹ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، حالانکہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، جبکہ سول اخراجات سود، پنشن، سبسڈیز اور گورننس، مجموعی بجٹ کا 52 فیصد تک لے جاتے ہیں۔ اصل اصلاح انہی شعبوں میں ناگزیر ہے، دفاع میں نہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم کرنے والی ہے؟

بلوچستان کے بجٹ کا 83 فیصد حصہ تنخواہوں، پنشن اور انتظامی اخراجات پر صرف ہوتا ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات بمشکل 17 فیصد رہ جاتے ہیں۔ صوبہ وفاق سے زیادہ فنڈز کا مطالبہ تو کرتا ہے، مگر ٹیکس اصلاحات، ریونیو بڑھانے اور مقامی حکومتوں کے قیام پر توجہ نہیں دیتا۔

یہی عدم توازن دیگر صوبوں میں بھی موجود ہے اور یہی وہ ادارہ جاتی و مالیاتی خلا ہے جسے 27ویں آئینی ترمیم پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم آبادی، دفاع پاکستان صحت، تعلیم صوبے، وفاق ناگزیر آئینی مرحلہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟
  • اشتہار
  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • پاکستان آئیڈل میں جج بننے پر تنقید، فواد خان کا ردعمل آگیا
  • پاکستان آئیڈل کا جج بننے پر تنقید، فواد خان نے بھی خاموشی توڑدی
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی کے سلسلے میں بڑی پیشرفت
  • امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی قریب، ایف اے اے کا نیا آڈٹ جنوری میں متوقع
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم