اسلامی انقلاب کا آغاز… آج سے
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
میں: تم نے گزشتہ نشست میں سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث ِ رسول ؐ کا حوالہ دے کر انقلاب کی ذمے داری ہر کلمہ گو مسلمان پر بھی عاید کرد ی جبکہ میرے خیال سے اس حدیث میں ایمان کے درجات کی وضاحت کی گئی ہے؟
وہ: بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن ایمان کے ان درجوں کا تعلق بنیادی طور پر اسی ذمے داری سے تو ہے۔ کیا کوئی مسلمان یہ چاہے گا کہ اسے کم تر درجے کا مسلمان پکارا جائے۔ کیا تم گوارا کرو گے کہ تم کسی بستی کے مکین ہو لیکن تم اس جگہ سب سے کم تر درجے کی زندگی گزار رہے ہو تمہاری کوئی حیثیت کوئی سنوائی نہ ہو، کسی کالج یونیورسٹی سے آخری درجے کی ڈگری لے کر فارغ ہوئے ہو اور تمہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے کہیں داخلے کا اہل شمار نہ کیا جائے بلکہ جہاں جائو دھتکار کے نکال دیے جائو یا کسی ادارے میں سب سے کم تر درجے کی ملازمت کر رہے ہو جہاں گدھوں کی طرح کام کرنے کے باوجود صرف جھڑکیاں ہی تمہارا نصیب ہوں۔ تم کیا کوئی بھی شخص ایسا نہیں چاہے گا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ۹۰ فی صد سے زائد مسلمان ایمان کے کم ترین درجے پر ہونے کے باوجود اپنی اس حالت پر راضی اور بظاہر خوش بھی ہیں؟
میں: مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم مسلمانوں کی مسلسل بے عملی کا نتیجہ ہے اور اب یہ ہماری ایک مستقل نفسیاتی کیفیت بن چکی ہے، اگر اس ضمن میں کبھی کوئی نصیحت کان میں پڑ جائے تو کہتے ہیں کہ بھائی ہم ان کی برابری کیسے کرسکتے ہیں وہ تو بڑے ولی اللہ لوگ تھے اور ہم ٹھیرے سدا کے گناہ گار۔ وہ بڑے مضبوط دل والے تھے، ہم تو بہت کمزور ہیں۔
وہ: تم نے وہ فارسی مثَل سنی ہے نا ’عذر گناہ بدتر از گناہ‘۔ یہ تو خود کو دھوکہ اور جھوٹی تسلی دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ کیوں کہ لا الہ کا کلمہ تو فرد کو اندر سے اتنی قوت اور توانائی فراہم کردیتا ہے کہ دل کی دنیاہی بدل جاتی ہے، سیدنا بلالؓتپتی ریت پر سینے پر بھاری پتھر لیے بھی احد احد پکارتے ہیں۔
میں: تم پھر وہی پرانی مثالیں لے کے بیٹھ گئے، بھائی جان آج کی دنیا بہت بدل گئی ہے۔ میں تمہاری اس بات سے متفق ہوں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ مجموعی طور پر ہم تمام مسلمانوں کا ایمان کمزور ہوگیا ہے، مگر یہاں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ہر مہینے بجلی اور گیس کا بل ادا کرنا عذاب ہوگیا ہے، اور تم ہو کہ اپنی علامہ گیری کی دکان چمکانے میں لگے ہو کہ کسی طرح مسلمانوں کی قوت ایمانی کو جوش آجائے، لوگ تلواریں لے کر سڑکوں پر نکل آئیں اور فضا انقلاب انقلاب کے نعروں سے گونج اٹھے۔
وہ: تم تو خوامخواہ جذباتی ہوگئے، میرے کہنے کا مقصد تو بس اتنا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اپنی اپنی ایمانی کیفیات کا کلمہ طیبہ کے حوالے سے از سرِ نو جائزہ لیں، ورنہ اپنے اوپر حملہ آور یا خطرے کو دیکھتے ہی شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر صدیوں سے اپنے مٹنے کا تماشا تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ جہاں تک معاملہ طاقت کے بل پر اسلامی قوانین کے زبردستی نفاذ کا ہے تو یہ عمل تو اسلام کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر کی طرح رسول ؐ کو بھی صرف پیغام پہنچانے کی ذمے داری سونپی تھی، زبردستی کلمہ پڑھا کے مسلمان کرنے کا حکم تو کسی موقع پرنازل نہیں کیا۔ لہٰذا ایران میں جو کچھ ہوا یا افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اسے انقلاب ایران اور انقلاب طالبان تو ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن ایک اسلامی معاشرے کے لیے لازم وملزوم رواداری کی خوبی اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ جیسے اصولوں پر عمل ان دونوں خطوں میں ناپید ہے۔ ویسے یہ ایک علٰیحدہ موضوع ہے اس کو کسی اور نشست پر اٹھا رکھتے ہیں۔ رہی بات اسلام کے اختیاری اور غیر اختیاری ہونے کی تو صورت حال کچھ یوں ہے کہ ہم تو عبدالقدوس کے گھر پیدا ہوگئے تھے، بس اسی لیے ہم عبدالغفار، عبدالستار، اسلم، جمیل، قاسم، جمشید اور فلاں فلاں کے نام سے پکارے جانے لگے، یوں اسلام کو پورے شعور اور اپنی خواہش کے مطابق قبول یا اختیارکرنے کا تو سوال ہی نہیں اُٹھتا اور اس کے نتیجے میں دل کی دنیا کا بدل جانا بظاہر ایک مشکل مرحلہ ہے۔
میں: یعنی جو شخص پیدائشی مسلمان ہے اس کے دل کی دنیا ابھی تک بدلی ہی نہیں، یا اس کے دل میں ایمان کی شمع بہت مدھم جل رہی ہے؟
وہ: میرے خیال سے مجموعی طور پر صورت حال کم وبیش ایسی ہی ہے، لیکن اصل میں آج کے مسلمان کی کمزور ایمان کی وجہ وہ ماحول ہے جو ہر قدم پر اسے مادی اشیا کے حصول کے رستے پر اس فانی دنیا کے قریب اور خدا سے دور لے جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم خدا شناس ہیں نہ خود آشنا۔ آج تو ہر شخص پاگلوں کی طرح اس ملک سے باہر جانے کے لیے دوڑیں لگا رہا ہے، شاید ہمارے سجدے بھی اظہار بندگی کے بجائے کسی دنیاوی خواہش کی تکمیل کا وسیلہ بن کے رہ گئے ہیں۔ بقول اقبالؔ
جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی ماحول اوردنیا میں رہتے ہوئے بھی بے شمار مسلمان ہیں جن کے دل ایمان سے لبریز اورقرآن کے نور سے منور ہیں۔انہوں نے رسولؐ کی سیرتِ مبارکہ کو صرف اپنی معلومات میں اضافہ کا ذریعہ نہیں بنایا،بلکہ اس پیغام کو جو بلال ؓ کی احد احد کی صدائوں سے بلند ہورہاتھا اس کی گونج کو اپنے دل کی آوازاورشخصیت کا اظہار بناتے ہوئے تمام دنیا میں پہنچانے کا عملی نمونہ بن کے دکھایاہے۔
میں:لیکن آج کے پرآشوب دور میں ایمان و عمل کی تھوڑی بہت جتنی بھی روشن مثالیں ہیںوہ محض ان برگزیدہ بندوں کی انفرادی ریاضت وجستجو کا انعام ہیں جسے انہوں نے اس عارضی دنیا میں اپنی حیثیت کوپہچان کرخدا شناسی کے ذریعے حاصل کیاہے۔اس کے باوجودہم دنیاکی کسی بھی اسلامی ریاست میںایک بھی ایسی اجتماعیت،کوئی ایک شہر،ہزار دوہزار افراد پر مشتمل کوئی بستی یا ایک چھوٹی سی آبادی کی ہی بنیاد رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے جسے ایک مکمل اورمثالی اسلامی معاشرہ کہا جاسکے۔اورباقی دنیا کو فخر کے ساتھ یہ بتاسکیں کہ ایسے ہوتے ہیں مسلمان، اسے کہتے ہیں اسلامی معاشرہ۔جہاں عورت کی تعلیم پر کوئی قدغن ہے،نہ ہی سماج میں اس کے مقام واحترام میں کوئی کمی،عورت کا احترام لفظوں سے نہیں، نظریں نیچی رکھ کر کیا جاتا ہے، بینکاری کا نظام بلاسود بینکاری کی دل فریب جملے بازیوں اور خوشنما لبادے کے بجائے عملی بنیادوں پرقرآن اور رسولؐ کے بتائے ہوئے نفع ونقصان کے شرعی اصولوں اور طریقوں کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ہماری پانچ سے دس ہزار نفوس پر مشتمل اس آبادی میں انسان توکیا کتا بھی بھوکا نہیں سوتا۔ ہماری اس بستی کی ایماندار انتظامیہ نے ایک ایسی بی سی بھی ڈال رکھی ہے جس میں دوہزار گھروں میں سے ہر گھر سے صرف 100روپے ماہانہ لیے جاتے ہیں اورہر مہینے کسی ایک گھر کو دولاکھ روپے کی رقم ادا کردی جاتی ہے۔
یہ چھوٹی سی ریاست ہرسال 100افراد کو سرکاری خرچ پرحج پر بھیجنے کی ذمے داری بھی ادا کرتی ہے۔ کسی سرکاری دفترکا کوئی بڑا افسریا معمولی ملازم، سڑک پر کھڑا سپاہی یا تھانے میں براجمان محافظ رشوت لینے کے جرم میں اسی وقت اپنی نوکری سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے اورصرف اتنا ہی نہیں بستی کے مرکزی چوراہے پرلگے قد ِآدم اشتہاراتی بورڈز پر ایسے تمام افراد کی بڑی بڑی تصاویر ان کے ناموں اورجرم کی تفصیل کے ساتھ کم ازکم ایک مہینے تک نشان ِ عبرت بنی رہتی ہیں۔ہر محلے میں ایک لائبریری بنائی گئی ہے جہاں عالم دین حضرات قرآن کی درست تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ اورتشریح بھی سمجھاتے ہیں۔
یہ تو ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے محض چند تجاویز اورمشورے ہیں ورنہ کرنے کے کام تو بے شمار ہیں۔اوریہ سب محض ایک خیالی اسکیم نہیں،مذکورہ بالاتمام باتوں کو بآسانی عملی شکل دے کر ریاست چھوٹے چھوٹے پاکٹس کی شکل میں اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔اوراگرریاست ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر ہر مسلمان کو انقلابی بننا پڑے گا۔اسے انفرادی اوراجتماعی ہر سطح پر ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،خود کو ایمان کے تیسرے درجے سے نکال کر پہلے درجے پر لیکر آنا ہوگا۔اورجس مغربی تہذیب اوربودوباش کواپنی منزل ومقصود سمجھ کرخودسے دھوکا کھارہے ہیں،اسے اپنے دلوں سے نکال کر اللہ اوراس کے رسولؐ کی بنائی ہوئی ترکیب اوراصلاحی اسکیم کو اپنے گھر اورسماج میں رائج کرنا ہوگا۔کسی اللہ کے بندے کے انتظار کے بجائے خود اللہ کا بندہ بن کر دکھانا ہوگا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایمان کے کی دنیا کی طرح لیکن ا کے لیے
پڑھیں:
تاجروں اور صنعت کاروں نے بجٹ 2025-2026 پر تحفظات کا اظہار کردیا
کراچی، لاہور اور پشاور چیمبرز نے وفاقی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زراعت سمیت مختلف شعبوں میں سبسڈی نہ دینے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی تاجر اور صنعتکار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھادیے۔
کراچی چیمبر آف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے جب گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے ایف بی آر کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاؤہ کچھ نہیں، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی جبکہ ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی پاکستان کی مسابقت کو آسان بناکر ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی ابادی کو کیسے روزگا دیا جائے گا، بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا، پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی پانچ ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے ان سوالات کا جواب بجٹ میں نہیں ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروارہے ہیں پچاس فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہورہا ہے مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا، زراعت صوبوں کی زمہ داری ہے اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار نوے کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایس ای ایف ایس اسکیم کہ وجہ سے کچھ ایکسپورٹ بڑھی ہے اس کو بھی اب خراب کیا جارہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گراتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے رکھے گئے جو ناکافی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کراچی سے پچاس فیصد کم ابادی والے شہروں کے لیے کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئی جبکہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
مہنگائی میں اضافہ روکا گیا اسے مائنس میں لانا ضروری ہے بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بناکر دکھائیں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے۔
کراچی چیمبر کے صدر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا بجٹ میں ایکسپورٹ کو ریلیف نہیں دیا گیا۔
لاہور چیمبر کے صدر نے بجٹ میں دفاع کے شعبے کیلیے مختص رقم میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا اور ضم اضلاع پر جو 10 فیصد ٹیکس لگایا ہے اس سے ملک کی بزنس کمیونٹی کے تحفظات دور ہوئے ہیں۔
صدر لاہور چیمبر ابو ذر شاد نے کہا کہ حکومت نے ایک کامرس کو ٹیکس نیٹ میں لا کر بہترین کام کیا ہے، پانی کے منصوبوں کے لئے جو بجٹ رکھا گیا ہے اسکو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جتنی جلدی پانی کے منصوبے مکمل ہوں گے ،اس سے ملکی کو فائدہ ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس میں کمی ہوئی ہے ،ہمیں اس پر حکومت سے زیادہ امیدیں تھیں، ٹیکس کسٹم ڈیوٹی کم ہو رہی ہے، کاٹن انڈسٹری کے لئے بھی حکومت کو ریلیف دینا چاہیے تھا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ جب تک بجٹ کی تفصیلات نہیں ملیں گی ابھی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، بیوکریسی اچھے خاصے کاروبار کو تباہی سے دو چار کر دیتی، وہی کاروبار پرائیوٹ سیکٹر میں بڑھتا ہے، رئیل اسٹیٹ میں کم کرنے سے عوام کو فائد ہ ہو گا ، لاگ بروقت رجسٹریاں کروائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 50 کروڑ تک کے کاروبار کے لئے بجٹ تقریر کوئی ریلیف نہیں آیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے لئے جو ٹیکس کم کیا گیا ،یہ بھی اچھا قدم ہے، 15 ہزار سے زیادہ پٹرول پمپ ہیں ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، پٹرول پمپس پر کیرے لگا کر مانیٹرنگ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اکانومی ڈاکیومنٹ کرنا ہے تو 5 ہزار ، ایک ہزار والے کو بند کرنا پڑے گا، آئی پی پیز جس پر 24 ہزار ارب روپے خرچ کر چکے ہیں اس پر بجٹ تقریر میں کوئی پالیسی نظر نہیں آئی، ایف بی آر کے ٹیکس کولیکشن میں 1200 ارب روپے کا خسارہ آیا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ وفاقی وزرا کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کوارڈینیشن بہتر نہیں ہے، جو وزیر 400 ارب کا نقصان کرکے بیٹھا ہے اسکو فارغ کرنا چاہیے۔
تاجر رہنما میاں انجم نثار نے کہا کہ جب بجٹ دیا جاتا اس میں ڈائریکشن ہوتی ہے، اس بجٹ میں کوئی ڈائریکشن نظر نہیں آرہی، انڈسٹری اور زراعت کے لئے بھی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی اسپیڈ بھی کم ہوئی ہے حکومت کی اس پر کوئی توجہ نہیں جبکہ اس انڈسٹری سے ہماری 3.1 ارب کی برآمدات ہیں، آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا ،سری لنکا سمیت دیگر ممالک آگے نکل گئے ہیں۔
میاں انجم نے کہا کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جارہا ہے، ایف بی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ناکام رہا۔ یں نہیں سمجھتا اس پالیسی سے ملک میں انویسٹمنٹ آئے گی۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی بجٹ میں جو چھوٹے تاجروں پر بجٹ میں ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جسے مسترد کرتے ہیں، بجلی اور گیس مہنگی کرنے سے غریب عوام پر بوجھ مزید بڑھے گا۔
بجٹ تقریر کے بعد سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے مشاورت کے بعد وفاقی بجٹ پر بیانیہ جاری کرینگے، ان کا کہنا تھا بجٹ کیلئے وفاقی وزیر خزانہ کو تجاویز دی تھیں، ان پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر تفصیلی مؤقف جاری کریں گے۔
ان کا کہنا تھا وفاقی بجٹ میں فاٹا پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کے قوانین سے انڈسٹری کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے گا۔
اس موقع پر غضنفر بلور کا کہنا تھا کہ 18 فیصد سولر پینل پر ٹیکس لگایا گیا جبکہ پٹرول پر بھی غریب عوام سے ٹیکس لیا جائے گا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پہلے سے چھوٹے کارخانہ دار رو رہے ہیں اور ان پر مزید ٹیکس لگایا گیا جس کی وجہ سے ملک سے مزید کارخانے دیگر ممالک کو منتقل ہوجائینگے، انکا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پختونخوا کے تاجر برادری اس بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں۔
سرحد چیمبر آف.کامرس کے سینئر ممبر جلیل جان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سنیٹرز اور قامی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں 400 فیصد اضافہ کردیا انکا کہنا تھا کہ کوڈ بار کے بغیر سامان کے ضبظ کا فارمولا بھی ظلم کی انتہا ہے انکا کہنا تھا کہ صوبے کے چھوٹے اور بڑے کاروباری طبقہ اس وفاقی بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں اور ایک بار پھر حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ اس بجٹ کو دوبارہ ریوو کیا جائے .