ایک برس سے زائد عرصہ تک نہتی فلسطینی مسلمان آبادیوں پر آگ برستی رہی۔ دنیا زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھی، اوروں سے کیا شکوہ، دنیا بھر کے مسلمان تو اپنے اپنے ملکوں میں کھل کر احتجاج بھی نہ کر سکے، خال خال چند ملک ایسے تھے جہاں احتجاج ہوا، حکومتیں پہلے تو اپنے آقائوں کے ڈر سے خاموش رہیں پھر جب عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو بعض سیاسی و سماجی جماعتوں کے جھنڈے تلے امدادی سامان کے ٹرک بھجوائے گئے۔ مجموعی طور پر مسلمان ممالک کی بجائے غیر مسلم ممالک کی آبادی اس ظلم و بربریت کے خلاف سڑکوں اور بازاروں میں نکلی، یہ اجتماعات اور ریلیاں ہزاروں افراد پر مشتمل تھیں۔ وہ امریکہ جو ہنگامی طور پر اسرائیل کیلئے ہر چند ماہ بعد اربوں ڈالر نقد امداد اور اسلحہ بھجواتا تھا آج اس کی ریاست ایسی آگ کی لپیٹ میں آئی جو کسی بمباری کے نتیجے میں نہیں لگی۔ جنگلات میں ایک چنگاری کہیں بھڑکی پھر ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے اور تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تھمنے والی تیز ہوا نے اسے ہزاروں کلومیٹر تک پھیلا دیا۔ صحافت کا چولا پہنے ٹور آپریٹر کے طور پر جانا پہچانا ایک کاروباری شخص پرچار کرتا نظر آتا ہے کہ اس واقعے کو غزہ کے مظلوموں کی آہ سے نہ جوڑا جائے۔ یہ شخص ہمیں ہر زمانے میں ظالم کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ وہ مظلوموں کے ساتھ پر یقین نہیں رکھتا شاید خوب جانتا ہے ظالم اور حاکم ہی اسے بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ مظلوم تو صرف دعا دے سکتا ہے۔ وہ دعائوں پر یقین نہیں رکھتا، نہ ہی وہ سمجھتا ہے کہ مظلوم کی آہ یا بدعا سات آسمانوں کو چیرتی ہوئی خدا کے پاس پہنچ جاتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے ہر دور کے فرعون کیلئے مختلف دریا نظر آتے ہیں جہاں وہ اپنے لشکروں سمیت ڈوب جاتے ہیں۔ ہر دور کے ابراہا کیلئے مختلف ابابیلیں بھیجی جاتی ہیں جو اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہیں لیکن کتابوں کے بوجھ تلے گدھے اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ جنگل کی آگ کیسے پھیلتی ہے جنہوں نے صرف سن رکھا تھا آج دیکھ لیا ہو گا۔ تیزی سے پھیلتی آگ کی شکل میں ایسا عذاب تھا جس پر قابو پانے کیلئے کیلیفورنیا جیسی ماڈرن ریاست اور لاس اینجلس کے وسائل اور انتظامیہ ناکافی ثابت ہوئے، مجبوراً جیلوں میں بند قیدیوں کو اس مقصد کیلئے رہا کرنا پڑا کہ وہ انتظامیہ کی مدد کیلئے آئیں، انہیں پچیس سے تیس ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔ آگ سے ہالی ووڈ روڈ اور اس کے پہاڑ تک جل گئے سب کچھ راکھ بن گیا۔ لاس اینجلس کی آگ سوچوں کے کئی دریچے کھولتی ہے۔ ذرا سوچئے یہ آگ 20 جنوری کے بعد بھی تو لگ سکتی تھی یوں یہ سب ناکامیاں آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کھاتے پڑ جاتیں۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد توہم پرست ہے اس کے زیر اثر بہت سے بہ آسانی سے اسے منحوس صدر قرار دیتے لیکن وہ یہ بھول جاتے کہ اگر یہ نحوست کسی ایک شخص کی وجہ سے ہے تو پھر جوبائیڈن کی نحوست جنوری کا آخری سورج غروب ہونے تک باقی رہے گی۔ معاملہ کچھ بھی ہو ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی سکور کرتے ہوئے اسے بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی اور غفلت قرار دیتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ کے پاس آگ بجھانے میں استعمال ہونے والی گاڑیاں ناکافی تھیں، عملہ بھی پورا نہ تھا جبکہ پانی کی کمی بھی دیکھی گئی۔
لاس اینجلس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں کی انشورنس کمپنیوں نے آج سے تین ماہ پہلے ہی ’’فائر کوریج‘‘ ختم کر دی تھی وہ کیسے جانتے تھے کہ آگ ہر آنے والے دن کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ محکمہ موسمیات کی طرف سے دی گئی اطلاعات کے مطابق عمل کر رہے تھے یا انہیں دیگر ذرائع سے خبریں مل رہی تھیں کہ آتشزدگی کا سیزن آرہا ہے۔ یاد رہے ٹمبر مافیا صرف غیر ترقی یافتہ ملکوں اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ دنیا کے امیر ترین اور مہذب ترین ملکوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کی پشت پناہی اہم کاروباری اور سیاسی شخصیات کرتی ہیں، جتنا بڑا جنگل اتنی بڑی ڈکیتی پھر اتنی ہی بڑی آگ ، تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے لیکن ہر مرتبہ لگنے والی آگ کو موسمی تبدیلی کے کھاتے میں ڈال کر تحقیق و تفتیش کے تمام کھاتے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ گویا مٹی پائو کلچر کا سہارا کہیں بھی لیا جا سکتا ہے، حالیہ آتشزدگی کے حوالے سے اطلاع ہے کہ پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر شبہ ہے کہ آگ لگانے کی ابتدا اس سے ہوئی، یہ معلوم نہیں اس شخص کا تعلق کس سیاسی گروپ سے ہے یا نہیں لیکن کچھ عجب نہیں وہی اس آتشزدگی کا ماسٹر مائنڈ قرار پائے۔
امریکہ کی وہ ریاستیں وہ شہر جس کے جنگل مشہور ہیں وہاں اسی باقاعدگی سے آگ لگتی ہے جس طرح کراچی اور لاہور کی کپڑا مارکیٹوں، گواموں میں یا مری اور سوات کے جنگلات میں لگتی ہے۔ ہم چھوٹا ملک ہیں ہماری آگ ہماری بساط کے مطابق نسبتاً چھوٹی ہوتی ہے۔ امریکہ بڑا ملک ہے، بڑی ریاستیں اور ان کے بڑے بڑے شہر ہیں، وہاں کی آگ بھی بڑی ہوتی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کسی ایک جگہ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اڑتالیس گھنٹوں میں یہ آٹھ مختلف جگہوں پر لگی اور بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے سے آملی۔ کیا قیامت کا منظر ہو گا، شعلے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے تھے جبکہ زمین پر آگ یوں آگے بڑھ رہی تھی جیسے سرخ رنگ کا ناگ ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ آگ بجھانے والی گاڑیاں دوسری مرتبہ پانی لینے گئیں تو معلوم ہوا پانی کے ٹینک خالی ہیں۔ آگ لگنے سے قبل بھی کچھ ٹینک خالی تھے جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے ٹینکر مافیا صرف کراچی میں ہی نہیں لاس اینجلس میں بھی ہے۔ اس سوال کا جواب شاید کبھی نہ مل سکے کہ آٹھ مختلف جگہوں پر لگنے والی آگ کیا مختلف ابابیلوں نے لگائی یا یہ ایک ہی ابابیل تھی جو اپنی چونچ میں سلگتا ہوا تنکا لیتی اور چند کلومیٹر دور جا کر پھینک دیتی پھر آتی اور ایک اور جلتا بلتا تنکا لے کر اسے کچھ فاصلے پر پھینک آتی تھی۔ امریکہ کا کچھ حصہ برف سے ڈھکا ہے، کہیں آگ بھڑک رہی ہے۔
لاس اینجلس میں لگنے والی حالیہ آگ اپنی نوعیت کی پانچویں آگ ہے جس میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کے نقصان کا احتمال ہے، قریباً بائیس ہزار رہائشی اور کمرشل عمارتیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ دو لاکھ افراد علاقہ خالی کر چکے ہیں اور محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ تین لاکھ افراد کو الرٹ کر دیا گیا ہے، ابتدائی اطلاعات کے مطابق پندرہ افراد آگ میں جل کر ہلاک ہو گئے ہیں، ان کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ اس سے زیادہ تعداد زخمیوں کی ہے۔ شہر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ آتشزدگی سے فلمی اور کاروباری دنیا کی اہم شخصیات کے گھر جل کر راکھ ہو گئے ہیں جبکہ بعض سیاسی شخصیات کے گھر بھی تباہ ہوئے ہیں۔ آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا، قریباً ایک کروڑ افراد سکتے کے عالم میں ہیں، انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو گیا ہے، جسے درست کرنے میں طویل عرصہ درکار ہو گا۔ امریکی جمہوریت کا حسن ملاحظہ فرمائیے، اس سانحے کا انتقال اقتدار پر کوئی اثر نہیں ہو گا، نئے صدر 20 جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالیں گے اور زندگی معمول کے مطابق اپنا سفر جاری رکھے گی۔ زندگی کے میلے کم نہ ہوں گے مگر جانے کتنے نہ ہوں گے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: لاس اینجلس لگنے والی کے مطابق ا تشزدگی
پڑھیں:
ٹرمپ بمقابلہ مسک: ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلئے تیار رہو،امریکی صدر
نیویارک(اوصاف نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ آئندہ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی حمایت کرتے ہیں تو ان کے خلاف سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے امریکی میڈیا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور مسک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جو حالیہ دنوں میں ایک عوامی بحران کی صورت میں سامنے آیا۔
اس دوران برنس ٹائیکون ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کو مجرم جنسی حملہ آور جیفری ایپسٹین سے جوڑنے والی پوسٹ ہٹا دی۔
تاہم جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا مسک کے ساتھ تعلق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں یہی سمجھتا ہوں۔
ٹرمپ نے مسک کے بارے میں ایک اور وارننگ بھی جاری کی، خاص طور پر اس قیاس آرائی کے درمیان کہ مسک 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی حمایت کر سکتے ہیں۔
اگرچہ صدر ٹرمپ نے ان نتائج کی تفصیل نہیں بتائی لیکن ان کے کاروبار کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایلون مسک کی کمپنیوں پر سرکاری معاہدوں کے حوالے سے ردعمل ممکن ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ مسک کو متعدد بار رعایتیں دی تھیں اور ان کے لیے حکومت میں کام کرنے کے دوران فائدے فراہم کیے تھے، تاہم اب ان کے ساتھ بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں۔
دوسرے بڑے شہر پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ، بڑا نقصان ہو گیا