ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور اکیسویں صدی مغرب کی صدی کہلاتی ہے۔ مغربی طاقتیں پچھلی تین چار صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ مغرب کا یہ عروج انسانیت اور خود زمینی سیارے کے لیے کیا تباہی لا سکتا ہے اس کے لیے آپ یہ رپورٹ پڑھیں۔ حال ہی میں معروف جریدے Food Nature میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں دنیا میں ایٹمی جنگ کی صورت میں ممکنہ تباہی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو کمپیوٹر سیمولیشن (Simulations) کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تابکاری، حدت اور دھماکے کی شدت اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ رپورٹ کی تیار ی کیلئے تصوراتی طور پر 750 کلو ٹن طاقت کے بم کے حملے کو بنیاد بنایا گیا اور یہ بم ناگا ساکی پر گرائے جانے والے بم سے تین گنا زیادہ طاقت کا حامل ہو گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا میں ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو 6 ارب 70 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور خوراک کی ترسیل کا سار انظام تباہ و برباد ہو جائے گا۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اکثر حصوں میں قحط جیسی صور تحال پیدا ہو جائے گی۔ جنگ میں براہ راست شریک ہونے والے ممالک مثلاً امریکہ، یورپ، روس، جنوبی ایشیا کے ممالک کے ستر فیصد آبادی تباہ ہو جائے گی۔ جنوبی امریکہ، آسٹریلیا اور کئی چھوٹے خطے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو نسبتاً بہتر طور پر سہہ پائیں گے کیونکہ ان ممالک کی زراعت زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔ ارجنٹائن، برازیل، یوراگوئے، پیراگوئے، آسٹریلیا، آئس لینڈ اور عمان زراعت کے معاملے میں مستحکم ممالک ہیں اس لیے ایٹمی جنگ کی صورت میں یہ ممالک عالمی بحران کے باوجود اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہیں گے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں لائیو سٹاک پر انحصار کرنے والا غذائی نظام دو طرح کے حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اول یہ کہ مویشی ہلاک نہیں ہوتے اور غذائی نظام کام کرتا رہتا ہے۔ دوم یہ کہ پہلے سال دنیا کے آدھے مویشی ہلاک ہو جائیں گے اور آدھے مویشی انسانی خوراک کے کام آئیں گے۔ جنگ اگر دوسرے سال میں داخل ہو گئی تو لوگوں کو کم ترین غذائیت کے ساتھ زندہ رہنا پڑے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین جگہ گھر کا وہ کمرہ ہو گا جو دروازے کھڑکیوں سے دور کسی کونے میں ہو گا۔ یا ایسی خندق اور گہرا گھڑا جو کسی مناسب جگہ پر ہو اور شدید دھماکے اور شدید آندھی سے تحفظ دے سکے۔ رپورٹ کے مطابق ایٹمی جنگ کی صورت میں بعض علاقے ایسے ہیں جو جغرافیائی اعتبار سے اپنی الگ تھلگ حیثیت کی وجہ سے نسبتاً محفوظ رہیں گے۔ مثلاً انٹار کٹیکا ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین مقام ہو گا۔ یہ دنیا کے آخری کنارے پر واقع ہے اور یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ ہے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں ہزاروں لوگ یہاں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ کچھ ممالک جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں مثلاً آئس لینڈ جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا لیکن یورپ پر ہونے والے حملوں کے کچھ اثرات یہاں بھی پہنچیں گے۔ نیوزی لینڈ بھی غیر جانبدار ملک ہے اور دوسرا یہ کہ یہ پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے ایٹمی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ سوئٹزرلینڈ بھی پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے محفوظ رہے گا۔
مغرب پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم ممالک پر تو جارحیت جاری رکھے ہوئے تھا اب چند سال سے مغربی دنیا کے مابین بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ روس یوکرین تنازع کسی بھی وقت کسی بھی بڑے سانحہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ پچھلے دنوں روس کے سابق صدر دمتری میدوف نے کہا تھا کہ روسی میزائل مغربی ممالک کے دفاعی حصار کو چکمہ دے کر آناً فاناً یورپی شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ان میزائلوں کے وار ہیڈ ایٹمی ہوئے تو یورپ اس نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان میزائلوں کو مار گرانا یورپ کے جدید ترین دفاعی نظام کیلئے ممکن نہیں ہو گا اور یہ سارا کھیل چند منٹوں میں مکمل ہو جائیگا۔ روس نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ اگر روس اور اسکے اتحادیوں کیخلاف روایتی ہتھیاروں سے بڑھ کر کوئی طاقت استعمال کی گئی تو روس اس کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ مغرب کی ان حرکتوں کے نتیجے میں اگر ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو اس کے ممکنہ نتائج ہم اور ذکر کر چکے ہیں۔
اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ آج مغرب کے دور عروج میں انسانیت اور یہ زمینی سیارہ تباہی سے صرف چند قدم دور ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ماضی میں جب مسلمان عروج پر تھے تو انہوں نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالمی سطح پر امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنایا تھا۔ خاص طور پر عباسی خلافت اور عثمانی سلطنت کی مثالیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی حکمرانی نے عالمی استحکام کو فروغ بخشا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں دنیا کا مجموعی نظام معاشی، سائنسی اور ثقافتی ترقی کی طرف مائل تھا اور انسانوں نے عالمی تجارت، تعلیم، فنون اور علوم میںبے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے برعکس جب مسلمان زوال پذیر ہوئے تو عالمی سطح پر کئی مسائل نے جنم لیا۔ مسلمانوں کے زوال کا ایک بڑا نتیجہ یہ تھا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان سیاسی خلا پیدا ہو گیا جس کا فائدہ مغربی طاقتوں نے اٹھایا۔ مغرب نے اپنی اقتصادی، فوجی اور سائنسی طاقت کو فروغ دیا اور عالمی سطح پر تسلط قائم کیا۔ اس تسلط کی بنیاد پر مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے لیے جنگوں اور وسائل کا استحصال کیا جس سے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی۔ بیسویں صدی میںمغرب نے عالمی سطح پر 50 سے زائد جنگوں اور تنازعات کو جنم دیا جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ ان جنگوں کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ میں تھا جو قدرتی وسائل کی لڑائی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لیے لڑی گئیں۔ اگر مغرب کا یہ عروج جاری رہا اور اس عروج کی سرپرستی میں ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میںکتنی بڑی تباہی آ سکتی ہے اس کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں۔ جبکہ ماضی میں مسلمانوں کے دور عروج میں ایسا کوئی عالمی تصادم یا جنگ نہیں ہوئی جو اتنی بڑی تباہی کا سبب بنی ہو بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے عہد عروج میں عالمی سیاست میں توازن، سماج میں امن، علوم و فنون میں ترقی اور زمینی سیارے پر اعتدال قائم رہا۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عالمی سطح پر مسلمانوں کے میں ایٹمی پیدا ہو سکتا ہے ہے کہ ا اور یہ گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سے محروم رکھنے کی بھارت کی پالیسی کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق الطاف وانی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر "جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے فروغ" کے موضوع پر ایک آزاد ماہر کے ساتھ باضابطہ مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سنجیدہ یقین دہانیوں کے باوجود، بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ اپنے وعدوں کو دس لاکھ سے زائد قابض فوجیوں کی تعیناتی، بڑے پیمانے پر نگرانی اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے جیسے سنگین اقدامات سے بدل دیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے اگست2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے یکطرفہ اورغیر قانونی اقدامات کا حوالہ دیا جن کے تحت جموں و کشمیر کے الحاق اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الطاف وانی نے خبردار کیا کہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے جہاں پرامن اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے اور صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنے آئندہ اجلاس سے قبل کشمیر پر ایک خصوصی بین الاجلاسی پینل طلب کرے، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کا فیلڈ مشن دوبارہ قائم کرے اور مستقبل کے اقدامات میں کشمیری سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے زور دیا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔