بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافے کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیروں کو طلب کرلیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلا دیش کا کہنا ہے کہ بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان 4 ہزار 156 کلومیٹر طویل سرحدکے 5 مختلف مقامات پر باڑھ لگانے کی کوشش کی ہے۔

بھارتی دفترخارجہ نے بنگلادیش کے اس بیان پر بھارت میں بنگلا دیش کے ڈپٹی سفیر نورالسلام کو طلب کرلیا۔ بنگلا دیش نے جوابی کارروائی کے طور پر ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمشنر پررنے ورما کو طلب کرکے باڑھ کے معاملے پر بات کی۔ بنگلا دیش کا موقف ہے کہ بھارت کے اس طرح کے اقدامات سرحدی نقل وحرکت سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

بھارت کی جانب سےبنگلا دیش کی مفرور سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو سیاسی پناہ دئیے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ گزشتہ ماہ بنگلادیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک بنگلا دیش

پڑھیں:

پاک افغان سفارتی تعلقات میں نئے امکانات

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں جو بداعتمادی،تناؤ،ٹکراو اور الزام تراشیوں کا جو ماحول تھا، اس میں اب دونوں اطراف سے سفارتی محاذ پر بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔یہ نئے مثبت امکانات دونوں ممالک سمیت خطہ میں موجود کشیدگی کے خاتمہ یا بہتر تعلقات کی بحالی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔

حالیہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کے بعد یہ اتفاق رائے کا سامنے آنا کہ ہم دونوں ممالک سفارتی تعلقات کی بنیاد پر درپیش مسائل پر بات چیت اور سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں گے، اہم پیش رفت ہے۔کیونکہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کا ایک اہم راستہ ہماری اپنی داخلی سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی یا دہشت گردی کے خاتمہ کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔

یہ اعلان یا بڑی پیش رفت پچھلے دنوں بیجنگ میں چین ، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والی ملاقات یا غیر رسمی سہہ فریقی اجلاس کے بعد کیا گیاجو ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود تعلقات میں خرابی ختم ہورہی ہے بلکہ اس کے خاتمے میں چین کا کردار بطور ثالثی کے بڑھ گیا ہے اور چین کی یہ خواہش کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں،پاکستان کے لیے امید کا نیا پہلو ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے نئے امکانات حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے ماحول کے بعد سامنے آئے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ سفارتی محاذپر جو برتری پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ملی ہے اس نے یقینی طور پر پاکستان کے لیے نئے مثبت امکانات کو پیدا کیا ہے۔

کیونکہ ایک عمومی سوچ دنیا اور خطہ کی سیاست میں یہ پیدا ہوگئی تھی کہ موجودہ حالات میں افغانستان میں موجود طالبان حکومت کا جھکاؤ بھارت پر بڑھ گیا ہے۔افغانستان کی بھارت پر بڑھتی ہوئی سیاسی پینگین یا ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ خود پاکستان کے لیے خطہ کی سیاست میں نئے خطرات کو جنم دے رہا تھا۔پاکستان تواتر کے ساتھ اپنے اس موقف کو بار بار پیش کررہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال میں جہاں یقینا افغان طالبان حکومت کی حمایت موجود تھی، وہیں افغانستان اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی میں بھارت کی ریاست کی سطح پر سرپرستی کے پہلو کو بھی کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں اب اگر افغانستان نے سفارتی بنیادوں پر پاکستان سے تعلقات کو نئے سرے سے مثبت طور پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے پاکستان کی سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی سمجھا جاسکتا ہے۔یقینا یہ جو کچھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثبت پیش رفت آگے بڑھی ہے اس پر بھارت کو یقینا تشویش ہوگی اور وہ ان بہتری کی کوششوں کو پاکستان اور افغانستان کے تناظر میں خراب اور بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔کیونکہ بھارت کو یقین تھا کہ افغان طالبان کا جھکاو کسی بھی صورت میں پاکستان کی حمایت کی صورت میںنہیں آئے گا اور وہ کھل کر بھارت کی حمایت کرے گا،لیکن ایسا نہیں ہوسکا جو یقینی طور پر بھارت کی اپنی سفارت کاری کے عمل کو کئی محاذوں پر چیلنج کرتا ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ بیجنگ اجلاس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ کو کم کیا ہے اور خاص طور پر اس میں چین کا اپنا صلح میں سہولت کاری کا کردار نہ صرف اہمیت رکھتا ہے بلکہ بڑھ گیا ہے۔

افغانستان کا پاکستان کی طرف دوبارہ جھکاؤ یا سفارت کی بنیاد پر عملا تعلقات کی بحالی میں سامنے آناچین کی مصالحت کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جو کچھ بھارت کے ساتھ ہوا ہے اس نے کابل میں موجود افغان طالبان میں نئی سوچ اور فکر کو جنم دیا ہے ۔ پاکستان افغان حکومت کی حمایت اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور اس کھیل میں بھارت کے کردار پر بہت سے شواہد بھی پیش کیے مگر افغان حکومت وہ کچھ نہ کرسکی جس کی ہمیں توقع تھی۔اب بھی تعلقات کی بہتری کا راستہ یہی ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی بند کرے۔

پاکستان نے کئی بار افغان حکومت کی خواہش پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کیا اور خود افغان طالبان کی یہ خواہش تھی کہ ہم ٹی ٹی پی سے بات چیت کا راستہ نکالیں،لیکن اس تناظر میں ہونے والی تمام بات چیت کی کوششوں کاٹی ٹی پی نے کوئی بھی مثبت جواب نہیں دیا اور پاکستان کے خلاف اپنی مخالفانہ اور دہشت گردی پر مبنی کاروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ افغان حکومت بھارتی حکومت پر بہت انحصار کررہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ بھارت کی معاشی طاقت کا فائدہ اٹھا کر وہ اپنے لیے نئے معاشی امکانات کو پیدا کرسکتی ہے۔لیکن اب ایسے لگ رہا ہے کہ کابل کی سوچ بدل رہی ہے اور ان کو احساس ہوگیا ہے کہ بھارت کی اہمیت اپنی جگہ مگر نئے حالات میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی ان کے مفاد میں نہیں ہے۔

کابل میں ابھرنے والی نئی سوچ میں چین کی سفارت کاری کا بھی بڑا عمل دخل ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثبت پیش رفت ہورہی ہے اس میں چین کا کردار اہم ہے اور جب تک اس سوچ کے ساتھ کھڑا ہے کہ پاکستان اور افغانستان بداعتمادی کے ماحول سے نکلیں تو ہمارے لیے افغانستان سے تعلقات کی بہتری میں کئی نئے اشارے یا نئے امکانات ہیں جن کو ہم بنیاد بنا کر سفارت کاری کے محاذ پر بھارت کے مقابلے میں اپنے کارڈ زیادہ بہتر طور پر کھیل سکتے ہیں۔

اب پاکستان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ چین کی مدد کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں نئی جہتوں کو یا نئے امکانات کو تلاش کرے اور روائتی سوچ اور فکر سے باہر نکل کر کچھ غیر معمولی اقدمات کی طرف پیش رفت کرے ۔پاکستان کو خبردار رہنا ہوگا کہ بھارت اپنی پوری کوشش کرے گا کہ اسلام آباد اور کابل میں تعلقات کی بہتری کی ہر کوشش کو وہ ناکام بنائے ۔

بھارت افغانستان کی حکومت کی مدد سے پاکستان میں اپنی پراکسی جنگ کو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو داخلی محاذ پر کمزور رکھا جاسکے۔اس لیے جہاں ہمیں ایک طرف سفارتی کوششوںسے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہیں وہیں بھارت سے تعلقات کی بہتری کو ممکن بنائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے پاس متبادل پالیسی کے تحت بھارت کی پاکستان مخالف ایجنڈے کا روڈ میپ ہونا چاہیے تاکہ ہم خود کومحفوظ بناسکیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار سے اسپین کے سفیر اور بنگلادیشی ہائی کمشنر سے ملاقات
  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین عوامی رابطوں کو بڑھانے پر زور
  • چین اور کرغیزستان کے درمیان تعاون کے وسیع امکانات ہیں، چینی صدر
  • پاکستان اور مصر کے وزارئے خارجہ میں رابطہ، ایران اسرائیل جنگ پر بات چیت
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • پاک افغان سفارتی تعلقات میں نئے امکانات
  • وزیر اعظم کی بنگلہ دیش میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنر سمیت دیگر ممالک میں اہم سفارتی تعیناتیوں کی منظوری
  • چین اور وسطی ایشیا ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات کا مسلسل فروغ
  • چین اور وسطی ایشیا ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات کا مسلسل فرو غ
  • پاکستان اور بلغاریہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے 60 سال مکمل ہونے پر تہنیتی پیغامات جاری