امریکا انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں پاکستان کو ایک پارٹنر کے طور پر اہمیت دیتا ہے:جان کربی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
وائٹ ہاؤس کے سینئر عہدیدار جان کربی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی کی امریکی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے. لیکن وہ کبھی بھی معاہدے کی ذمہ داریوں کا پابند باضابطہ اتحادی نہیں رہا۔یہ مختصر پوزیشن پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نازک اور پیچیدہ نوعیت کی نشاندہی کرتی ہے، جو مشترکہ سیکیورٹی خدشات اور مختلف تزویراتی ترجیحات پر مبنی ہیں۔واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مواصلاتی مشیر جان کربی نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت پر کھل کر بات کی اور کسی باضابطہ دفاعی معاہدے کی عدم موجودگی پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی امریکا کا تکنیکی اتحادی نہیں رہا.
گزشتہ سال اگست میں محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے امریکا کے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ افغانستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں کو پڑوسی ممالک کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روکنا ہوگا۔اگلے ماہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔دسمبر میں جاری ہونے والی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام اور علاقائی انتہا پسند نیٹ ورکس سے نمٹنے میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔حالیہ دوطرفہ ملاقات میں وزیر داخلہ محسن نقوی اور سبکدوش امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے دہشت گردی جیسے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔اس کے ساتھ ہی جان کربی نے پاکستان میں دہشت گردی کی انسانی قیمت کا بھی اعتراف کیا اور تسلیم کیا کہ اس کے شہری اب بھی سرحد پار تشدد کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستانی عوام اب بھی سرحد پار سے آنے والے دہشت گردانہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ہم ان مشترکہ خطرات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور جب تک ہم یہاں رہیں گے، یہ تبدیل نہیں ہوگا‘۔وزارت داخلہ کے مطابق 2024 کے پہلے 10 ماہ میں دہشت گردی کے 1566 واقعات میں 351 شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 573 اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ اعتراف بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے. پاکستان کو باضابطہ اتحادی کے طور پر دیکھنے میں واشنگٹن کی ہچکچاہٹ پاکستان کی داخلی سیاسی حرکیات میں الجھنے سے بچنے کے لے اس کے وسیع تر نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے۔مثال کے طور پر جب 26 نومبر کو پی ٹی آئی کی ریلی میں مبینہ فائرنگ کے بارے میں پوچھا گیا تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے نپاتلا موقف اپنایا۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم کسی بھی احتجاج کو پرامن دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان دنیا کی کسی بھی حکومت کی طرح پرامن احتجاج سے احترام کے ساتھ نمٹے۔یہ محتاط نقطہ نظر پاکستان کے میزائل پروگرام جیسے اسٹریٹجک امور تک پھیلا ہوا ہے، گزشتہ ماہ جب امریکا نے 3 پاکستانی کمپنیوں پر ملک کے میزائل پروگرام کی حمایت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر پابندی عائد کی تھی تو نائب ترجمان پٹیل نے اس فیصلے کے پیچھے کی منطق واضح کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی جڑیں اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں ہمارے دیرینہ خدشات سے جڑی ہوئی ہیں. اس کا امریکا اور پاکستان کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔بائیڈن انتظامیہ کا پیغام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تنقید میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ فعال ورکنگ ریلشن شپ، خاص طور پر انسداد دہشت گردی پر کوئی آنچ نہ آئے۔اس کے ساتھ ہی پینٹاگون نے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو بھی مسلسل اجاگر کیا ہے. مثال کے طور پر ترجمان میجر جنرل پیٹرک ایس رائیڈر نے ایک حالیہ بریفنگ میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس تعلقات کی پائیدار نوعیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ’ہم خطے میں ایک شراکت دار کے طور پر پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ماضی میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر چکے ہیں اور یہ بات چیت جاری رکھیں گے‘۔میجر جنرل پیٹرک ایس رائیڈر نے ایک اور بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کی فوجی حکمت عملی کے حوالے سے، جیسا کہ ہم پہلے بھی بات کر چکے ہیں. امریکا یقیناً انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں پاکستان کو ایک پارٹنر کے طور پر اہمیت دیتا ہے‘۔یہ محتاط متوازن اقدام بائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر کی وضاحت اور پاک امریکا تعلقات کی پائیدار پیچیدگی کی عکاسی کرتا ہے، جو دہائیوں کے تعاون، بداعتمادی اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی ترجیحات کی شکل رکھتا ہے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے دہشت گردی کی میں پاکستان پاکستان کو پاکستان کی کہ پاکستان نے پاکستان تعلقات کی کے طور پر ہیں اور کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
خیبرپختونخوا، دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں ایس ایچ اوز کو بلٹ پروف گاڑیاں دینے کا فیصلہ
دہشت گردی سے مسلسل متاثر ہونے والے خیبرپختونخوا کے حساس اضلاع میں پولیس افسران کی جانوں کے تحفظ کے لیے حکومت نے اہم قدم اٹھا لیا ۔
صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں دہشت گردی کا زیادہ خطرہ رکھنے والے اضلاع کے ایس ایچ اوز کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی جائیں گی، تاکہ وہ بہتر انداز میں گشت اور فرائض انجام دے سکیں، اور کسی بھی ممکنہ حملے کا مؤثر جواب دے سکیں۔
صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق پولیس اور انسداد دہشت گردی فورس (سی ٹی ڈی) کو جدید ترین ہتھیار، مواصلاتی نظام، اور تحفظاتی سازوسامان سے لیس کیا جا رہا ہے تاکہ وہ شدت پسندوں سے مؤثر طور پر نمٹ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صرف قوت نہیں، بلکہ خطے میں تعاون اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اسی لیے افغان حکومت سے بات چیت اور بارڈر مینجمنٹ میں ہم آہنگی ہماری اولین ترجیح ہے۔
پولیس کا مطالبہ، حکومت کا فوری عمل
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کچھ تھانے دہشت گردی کے نشانے پر رہے ہیں، جہاں گشت کے دوران پولیس افسران پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر، پولیس نے بلٹ پروف گاڑیوں اور جدید ہتھیاروں کا مطالبہ کیا تھا، جس پر حکومت نے عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔
ایس ایچ اوز اور دیگر اہلکار گشت کے دوران خطرے میں ہوتے ہیں، ماضی میں کئی افسوسناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔ بلٹ پروف گاڑیاں نہ صرف ان کی جانوں کے تحفظ کا ذریعہ بنیں گی، بلکہ فوری ردِعمل میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔
کرپشن پر زیرو ٹالرنس: چھ اہلکار معطل
جہاں ایک طرف حکومت پولیس کو جدید خطوط پر استوار کر رہی ہے، وہیں محکمے کے اندر صفائی کا عمل بھی جاری ہے۔ کرپشن اور جرائم پیشہ عناصر سے روابط کے الزام میں چھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
یہ اقدام اس پیغام کا حصہ ہے کہ قانون کے محافظوں سے کسی قسم کی بے ضابطگی برداشت نہیں کی جائے گی۔