‘ہم اپنی مٹی پر امن چاہتے ہیں،’ باجوڑ میں امن مہم کے دوران دہشتگردی کا نشانہ بننے والے مولانا خان زیب کون تھے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے شورش زدہ ضلع باجوڑ میں نامعلوم افراد نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما مولانا خان زیب کو جمعرات کے روز فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
ضلع باجوڑ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) وقاص رفیق نے بتایا کہ مولانا خان زیب کو شنڈئی موڑ کے مقام پر اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ 13 جولائی کو ہونے والے امن مارچ کی مہم چلا رہے تھے۔
حملے میں ایک پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہوا، جبکہ 3 افراد زخمی ہوئے۔ ڈی پی او کے مطابق یہ ایک ٹارگٹڈ حملہ تھا جسے موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے انجام دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
واقعے کے بعد باجوڑ میں حالات کشیدہ ہو گئے اور بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
مولانا خان زیب کون تھے؟مولانا خان زیب باجوڑ کے ایک مذہبی رہنما تھے اور سیاسی طور پر قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے وابستہ تھے۔ اے این پی کے مرکزی ترجمان احسان اللہ خان کے مطابق مولانا خان زیب پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور مذہبی امور کی مرکزی کونسل کے سربراہ بھی تھے۔
ان کا تعلق باجوڑ کی تحصیل نواگئی سے تھا اور ان کا خاندان مذہبی رجحان رکھتا تھا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شاہد خان کے مطابق اگرچہ خان زیب ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن نظریاتی اور سیاسی طور پر وہ قوم پرست تھے اور ان کا پورا خاندان عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک تھا۔ وہ باجوڑ میں خاصی مقبولیت رکھتے تھے۔
شاہد خان نے بتایا کہ خان زیب سوشل میڈیا پر بھی سرگرم تھے اور ان کے فالوورز کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ ان سے متاثر تھا اور انہیں فالو کرتا تھا۔
تعلیم اور سیاستخان زیب کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے دنیاوی تعلیم کو خیرباد کہہ کر دینی تعلیم کا آغاز کیا جس کے بعد وہ سیاست میں سرگرم ہو گئے۔
شاہد خان کے مطابق خان زیب سے پہلے ان کے بڑے بھائی سیاست میں سرگرم تھے اور فاٹا انضمام سے قبل کئی بار اے این پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے چکے تھے۔
مولانا خان زیب نے 2024 کے عام انتخابات میں این اے-8 سے اے این پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تاہم کامیاب نہ ہو سکے۔
’امن کے داعی تھے‘اے این پی کے مرکزی ترجمان نے مولانا خان زیب کو ‘امن کا داعی’ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا خان زیب ہمیشہ امن کی بات کرتے تھے اور اپنی سرزمین پر امن کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
‘ان کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ امن چاہتے تھے، اور یہ بات امن کے دشمنوں کو ہضم نہ ہوئی۔’
شاہد خان بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق مولانا خان زیب کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ دہشتگردی کے خلاف کھل کر بولتے تھے اور عملی طور پر امن کے لیے سرگرم رہتے تھے۔
13 جولائی کو باجوڑ میں قبائلی علاقوں میں بدامنی کے خلاف ایک بڑا امن جرگہ منعقد ہونا تھا، جس کی مہم میں مولانا خان زیب بھرپور طریقے سے شریک تھے۔
نوجوانوں میں مقبولیت اور علمی رجحانشاہد خان نے بتایا کہ مولانا خان زیب طلبہ میں بھی خاصے مقبول تھے۔ وہ نوجوانوں کے ساتھ بیٹھتے، اسٹڈی سرکلز کرواتے اور علمی مباحثوں میں شریک ہوتے تاکہ نوجوان نسل کو شعور حاصل ہو۔
اگرچہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، لیکن علم حاصل کرنے کا شوق رکھتے تھے اور مطالعہ کرتے تھے۔ انہوں نے 2 کتابیں بھی تحریر کیں جو باجوڑ اور امن کے موضوعات پر مبنی ہیں۔
سوشل میڈیا اور مؤقفمولانا خان زیب سوشل میڈیا پر بھی خاصے فعال تھے۔ وہ مختلف پوڈکاسٹس میں شرکت کرتے اور پختون سرزمین پر امن سے متعلق بات کرتے تھے۔
ان کے کئی کلپس وائرل ہو رہے ہیں، جن میں وہ دہشتگردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دہشتگردی کو اس سرزمین پر باہر سے لایا گیا ہے، جس کی وجہ سے قابل، ہنر مند اور تعلیم یافتہ لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
وہ ایک سچے قوم پرست تھے، اور ہمیشہ پختون قوم اور پختون سرزمین پر امن کے قیام کا مطالبہ کرتے تھے۔
ایک ناقابلِ تلافی نقصاناے این پی نے ان کی شہادت کو نہ صرف پارٹی بلکہ پوری پختون قوم کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
ترجمان کے کے بقول، ‘ہم امن کے ایک سفیر سے محروم ہو گئے ہیں۔’
پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش جاری ہے اور تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امن اے این پی باجوڑ دہشتگردی عوامی نیشنل پارٹی مولانا خان زیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے این پی باجوڑ دہشتگردی عوامی نیشنل پارٹی مولانا خان زیب عوامی نیشنل پارٹی مولانا خان زیب کو اے این پی کے ان کے مطابق باجوڑ میں کرتے تھے شاہد خان تھے اور کے لیے ہو گئے امن کے اور ان
پڑھیں:
روسی خواتین ماں بننے سے گریزاں، اربوں روبل کے ترغیباتی پروگرام ناکام
روسی حکومت کی جانب سے اربوں روبل کے مالیاتی پروگراموں، خاندانی اقدار کے فروغ کی بھرپور مہم اور والدین بننے کے لیے مختلف ترغیبات کے باوجود، روس میں پیدا ہونے والے بچوں کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ صورتحال اب ایک سنگین آبادیاتی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے روسی حکومت ملک میں آبادی بڑھانے کے لیے متحرک، نئی تجاویز سامنے آگئیں
اس ماہ کے آغاز میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ ’خاندانی نظام کی معاونت‘ اور شرحِ پیدائش میں اضافہ روس کے تمام قومی منصوبوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’باپ بننا اور ماں بننا خوشی ہے، اور خوشی کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔‘
روس کی شرحِ پیدائش جدید تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ملکی شماریاتی ادارے روسٹاٹ کے مطابق، کل زرخیزی کی شرح اس وقت 1.41 ہے، یعنی ایک عورت اپنی پوری زندگی میں اوسطاً صرف 1.41 بچے پیدا کر رہی ہے۔
یہ شرح اس سطح سے کہیں نیچے ہے جس پر آبادی کا توازن برقرار رہتا ہے۔
2024 میں روس میں قدرتی آبادی میں کمی یعنی پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کا فرق 5 لاکھ 96 ہزار سے زائد رہی۔
اس سال صرف 12 لاکھ 20 ہزار بچے پیدا ہوئے، جو گزشتہ سال سے 3.4 فیصد کم تھے۔
ماہرین کے مطابق اس سے قبل اتنی کم پیدائش صرف 1999 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
پیدائش کی کم شرح سے آبادی میں کمی، عمر رسیدہ آبادی، مزدوروں کی قلت اور پینشن و صحت کے اخراجات میں اضافہ جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے فوجی شوہروں کی عدم موجودگی میں بچوں کی پیدائش کا روسی منصوبہ کیا ہے؟
اگرچہ یہ اثرات ابھی مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوئے، لیکن ماہرین کے مطابق روس ایک طویل مدتی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی زرخیزی کی شرح میں کمی دیکھی جا رہی ہے
یورپی یونین میں یہ شرح 1.38 اور امریکا میں 1.59 ہے۔
روس کے تمام خطوں میں شرحِ پیدائش یکساں نہیں۔
بعض علاقوں میں مذہبی و ثقافتی روایات کے باعث شرح زیادہ ہے۔
مثلاً:
چیچنیا: 2.7
توا: 2.3
یامل نینیتس: 1.9
الٹائی: 1.8
انگوشیتیا: 1.8
یہ شرح ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔
اس کے برعکس لینن گراڈ ریجن (0.89)، موردوویا (0.99) اور سیواستوپول (1.0) میں زرخیزی کی شرح سب سے کم ہے۔
ماہرین کے مطابق بعض علاقوں، خاص طور پر وسطی اور شمال مغربی روس، میں عورتیں بچے پیدا کرنے کے حوالے سے زیادہ محتاط ہیں، جس کی وجوہات میں معاشی دباؤ، رہائشی مسائل، اور جنگی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔
حکومت کے مالیاتی اقداماتروس نے گزشتہ چند برسوں میں شرحِ پیدائش بڑھانے کے لیے کئی مالیاتی پروگرام متعارف کروائے ہیں۔
اہم اقدامات میں شامل ہیں:
میٹرنٹی کیپیٹل پروگرام: پہلے یا دوسرے بچے کی پیدائش پر 6.9 سے 9.1 لاکھ روبل (8,700 سے 11,500 ڈالر) تک کی رقم۔
گھروں اور گاڑیوں کے لیے رعایتی قرضے۔
زیادہ بچوں والے خاندانوں کو ٹیکس میں چھوٹ۔
حاملہ خواتین کو ماہانہ وظائف۔
روایتی اقدار کی تشہیرمالی ترغیبات کے ساتھ ساتھ روسی حکومت نے ’روایتی خاندانی اقدار‘ کے فروغ کے لیے ایک شدید مہم بھی شروع کی ہے۔
حکومت مغرب کی ’بے راہ روی‘ کے مقابلے میں ’اخلاقی خاندانی نظام‘ کو روسی شناخت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
اسی مہم کے تحت چائلڈ فری نظریات کو فروغ دینے پر بھاری جرمانوں کا قانون منظور کیا گیا ہے۔
27 روسی علاقوں میں ایسے قوانین نافذ ہو چکے ہیں جن کے تحت کسی عورت کو اسقاط حمل پر آمادہ کرنا یا اس سے متعلق معلومات فراہم کرنا بھی قابلِ سزا جرم ہے۔
ماہر سلاوت ابیلکالیف کے مطابق، روایتی اقدار کی مہم کا کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا، ’یہ اقدامات بظاہر تو سرگرمی دکھانے کے لیے ہیں، لیکن عملی طور پر مؤثر نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شرحِ اسقاط حمل پہلے ہی کم ہو رہی تھی اور حکومت کے اقدامات سے اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
دوسرے ماہر الیگسی راکشا نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد زیادہ تر ’پیدائش کے وقت کو تبدیل کرنا‘ ہے یعنی خاندان پہلے سے طے شدہ منصوبے سے پہلے بچے پیدا کر لیتے ہیں، لیکن بچوں کی کل تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا۔
جنگ اور پابندیوں کے اثراتماہرین کے مطابق یوکرین جنگ، مغربی پابندیوں، اور معاشی غیر یقینی صورتحال نے روسی عوام میں طویل مدتی منصوبہ بندی کو متاثر کیا ہے۔
راکشا کے مطابق، جنگ نے براہِ راست شرحِ پیدائش پر زیادہ اثر نہیں ڈالا بلکہ اموات میں اضافہ کیا ہے۔
دوسری جانب فوجی خدمات کے بدلے ملنے والی بڑی رقوم نے بعض خاندانوں کو بچوں کی پیدائش کی طرف راغب بھی کیا ہے۔
لیکن ابیلکالیف کا کہنا ہے کہ جنگ، پابندیاں اور بجٹ کی کمی بالآخر صحت کے نظام کو کمزور اور سماجی دباؤ کو بڑھا دیں گی، جس سے درمیانی مدت میں اموات کی شرح میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خاندانی اقدار مہم روس شرح پیدائش میں کمی ولادی میر پیوٹن