فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں جنگ بندی کے معاہدے میں تاخیر کے خلاف مظاہرے
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، تل ابیب نے تاحال سرکاری طور پر جنگ بندی کے اس معاہدے کی منظوری نہیں دی، جو ایک دن قبل اعلان کیا گیا تھا، اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حماس مذاکرات میں نئی شرائط پیش کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تل ابیب میں مظاہرین نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے ممکنہ التوا کے خلاف احتجاج کیا۔ فارس نیوز کے مطابق، اسرائیلی میڈیا میں ایسی رپورٹس شائع ہونے کے بعد کہ نیتن یاہو کی کابینہ جنگ بندی کے معاہدے کو ایک دن کے لیے مؤخر کرنا چاہتی ہے، تل ابیب میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ دی کہ کچھ مظاہرین نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی میں لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ، ان سب کو گھر واپس بھیجو۔
اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کے مطابق، چونکہ اسرائیلی کابینہ نے جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری کے لیے ووٹنگ کو ہفتہ کی رات تک مؤخر کر دیا ہے، اس لیے پیر سے پہلے اس معاہدے پر عمل درآمد ممکن نظر نہیں آتا۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، نیتن یاہو کی کابینہ کے وزراء طے شدہ پروگرام کے مطابق کل (جمعہ) جنگ بندی کے معاہدے پر مشاورت کے لیے ملاقات کریں گے، لیکن یہ اجلاس ہفتہ کی رات تک جاری رہے گا۔
مصری وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بغیر کسی تاخیر کے عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، تل ابیب نے تاحال سرکاری طور پر جنگ بندی کے اس معاہدے کی منظوری نہیں دی، جو ایک دن قبل اعلان کیا گیا تھا، اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حماس مذاکرات میں نئی شرائط پیش کر رہی ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب تمام نظریں اسرائیلی کابینہ کے اندرونی اختلافات پر جمی ہوئی ہیں۔
انتہا پسند وزیر ایتمار بن گویر نے کہا ہے کہ جیسے ہی یہ معاہدہ نافذ ہوگا، وہ کابینہ سے استعفیٰ دے دے گا۔ اس نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ہماری شکست کے مترادف ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی کے معاہدے معاہدے پر کے مطابق تل ابیب
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) * غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے جمعرات 24 جولائی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک بیان میں کہا کہ اس نے اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ غزہ پٹی میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز کا جواب دے دیا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات دو ہفتوں سے زائد عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔
(جاری ہے)
ثالثی کی کوششوں کے باوجود فریقین تاحال کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں، جس سے خطے میں جاری انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
غزہ پٹی میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینی شہری شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ 100 سے زائد بین الاقوامی امدادی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں ’’بڑے پیمانے پر بھوک‘‘ پھیل رہی ہے، جس سے ایک ممکنہ انسانی المیے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر اپنا اور دیگر فلسطینی دھڑوں کا جواب ثالثوں کو پیش کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسے یہ جواب موصول ہو چکا ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان میں اس امر کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ اسے حماس کا جواب موصول ہو گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا، ’’ فی الحال حماس کے جواب کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
‘‘دوحہ میں مذاکرات سے واقف فلسطینی ذرائع کے مطابق حماس کے ردعمل میں امداد کے داخلے سے متعلق شقوں میں مجوزہ ترامیم، ان علاقوں کے نقشے جہاں سے اسرائیلی فوج کو واپس جانا چاہیے اور جنگ کے مستقل خاتمے کی ضمانتوں کے مطالبات شامل ہیں۔
گزشتہ 21 مہینوں کی لڑائی کے دوران دونوں جنگی فریق اپنے اپنے طویل المدتی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، جو دو مرتبہ قلیل المدتی جنگ بندی کو دیرپا جنگ بندی میں بدل دینےکی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔
دوحہ میں بالواسطہ بات چیت چھ جولائی کو ایک جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی بھی عمل میں آنا تھی۔
اکتوبر 2023ء میں حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 49 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 27 ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس کے اسرائیل میں حملے میں 1200 سے زائد افراد مارے گئے تھے اور اسی حملے کے فوری بعد غزہ کی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔
ادارت: افسر اعوان، مقبول ملک