نون چائے: کشمیریوں کی روایتی نمکین گلابی چائے کیسے تیار ہوتی ہے اور اس کے صحت کے لیے فوائد کیا ہیں ؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
نون چائے کشمیریوں کی روایتی گلابی رنگ کی نمکین چائے ہے، جسے کشمیری نون چائے کہتے ہیں، جبکہ نسلاً کشمیری اسے وسط ایشیائی اصطلاح ’شیر چائے‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نون چائے کا ذائقہ نمکین ہوتا ہے اور اسے نمکین چائے یا گلابی چائے بھی کہا جاتا ہے۔ نون چائے کشمیریوں کی اہم روایتی نمکین کھانوں میں شامل ہے اور قریباً ہر کوئی اسے روزانہ پیتا ہے۔ یہ کشمیریوں کا سب سے مشہور اور عام مشروب ہے۔ نون چائے پینے کی رسم بہت قدیم ہے اور کشمیریوں کے ہر خاندان میں نسلوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ عموماً یہ چائے ایک فلاسک یا بڑے سماوار (پیتل کے برتن) میں پیش کی جاتی ہے، جس میں دھکتے کوئلے کو چائے کو گرم رکھتے ہیں۔ نون چائے کیسے تیار ہوتی ہے؟ جانیے شہازیب افضل کی اس رپورٹ میں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کشمیری نون چائے گلابی چائے نمکین چائے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کشمیری نون چائے نمکین چائے نون چائے ہے اور
پڑھیں:
چلاس: تھک نالہ میں درجنوں سیاحوں کی گاڑیاں اچانک ریلے میں کیسے پھنسیں؟
چلاس کے علاقے تھک نالہ میں درجنوں سیاحوں کی گاڑیاں اچانک سیلابی ریلے میں کیسے پھنسی اور اتنا بڑا جانی نقصان کیسے ہوا؟ علاقے کے عینی شاہدین نے بتا دیا۔
تھک نالے کے قریب عینی شاہدین نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اچانک سیلاب آنے کے وقت بھی وہاں 14/15 گاڑیاں کھڑی تھیں، لوگوں نے آوازیں دیں لیکن پھر بھی کچھ سیاح گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔
عینی شاہد نے کہا کہ گاڑی پر پتھر گرے پھر لوگ وہاں سے بھاگے، اس دوران کچھ لوگ لینڈ سلائیڈنگ کی ویڈیو بھی بناتے رہے۔
ریسکیو حکام کے مطابق گزشتہ شام 7 بجے تھک بابوسر کے قریب ڈاسر پر مقامی افراد نے لاش دیکھ کر حکام کو بتایا۔
بجلی کے پول اور متعدد گاڑیاں اب بھی تھک نالے کے قریب دھنسی ہوئی ہیں، مقامی لوگ اور ریسکیو اہلکاردھنسی ہوئی گاڑیوں کو نکال رہے ہیں۔
تباہ ہونے والی کوسٹر میں کھانے پینے کا سامان، پانی کی بوتلیں اور بچوں کے واکر موجود ہے، سیاحتی مقام پر موجود ہوٹل کی پارکنگ میں محفوظ رہ جانے والی کئی گاڑیاں کھڑی ہیں۔
سڑک بہہ جانے سے آمدروفت معطل ہو گئی اور سیاح گاڑیوں کے لیے پریشان ہیں، جگہ جگہ گرنے والے پہاڑی تودوں میں کچھ سرکاری گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی ہیں۔