اپنے ایک جاری بیان میں صیہونی وزارت عظمیٰ کے دفتر کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے تمام جنگی اہداف اور سب سے بڑھ کر اپنے تمام زندہ و مردہ قیدیوں کی واپسی کیلئے پُرعزم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کی وزارت عظمیٰ کے دفتر نے اعلان کیا کہ ہماری سیاسی و سلامتی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے سے اتفاق کیا ہے۔ اس سلسلے میں صیہونی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی کہ کچھ ہی دیر قبل غزہ میں سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا جائزہ لینے کے لئے اسرائیل کی سیاسی و سیکورٹی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں مذکورہ کابینہ نے حماس کے ساتھ ان دونوں معاہدوں سے اتفاق کیا ہے۔ صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" کے دفتر نے مزید بتایا کہ معاہدے کی رو سے اتوار کے روز سے قیدیوں کے تبادلے کا آغاز ہو جائے گا۔ قبل ازیں صیہونی وزارت عظمیٰ کے دفتر نے اعلان کیا کہ ہماری مذاکراتی ٹیم نے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر مفاہمت سے نتین یاہو کو آگاہ کیا۔ جس پر نتین یاہو نے متعلقہ افراد کو حکم دیا کہ وہ حماس کی حراست میں موجود قیدیوں کے استقبال کی تیاریاں کریں۔ اپنے بے بنیاد عزائم کا اظہار کرتے ہوئے اسی دفتر نے بیان جاری کیا کہ اسرائیل اپنے تمام جنگی اہداف اور سب سے بڑھ کر اپنے تمام زندہ و مردہ قیدیوں کی واپسی کے لئے پُرعزم ہے۔
  یاد رہے کہ قطر کے وزیراعظم و وزیر خارجہ "محمد بن عبد الرحمن آل ثانی" نے رواں ہفتے بدھ کے روز غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی کامیابی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی و صیہونی فریقین نے غزہ کی پٹی میں سیز فائر کے معاہدے کو قبول کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کا نفاذ 19 جنوری 2025ء کو اتوار کے روز سے ہو گا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے 33 صیہونیوں کو رہا کرے گی۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ صیہونی رژیم نے امریکہ کی حمایت سے 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے وحشیانہ جارحیت کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شہید ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس جارحیت کے نتیجے میں غزہ کے رہائشیوں کو غذائی قحط کا بھی سامنا ہے۔ تاہم اس جارحیت کے باوجود صیہونی رژیم اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ وہ غزہ پر ایک سال سے زائد بربریت کے باوجود اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل نہیں کر سکی۔ واضح رہے کہ ان اہداف میں حماس کی نابودی اور غزہ سے صیہونی قیدیوں کی واپسی شامل تھی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قیدیوں کے تبادلے اپنے تمام کے معاہدے معاہدے کی کے دفتر دفتر نے

پڑھیں:

غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟

اسلام ٹائمز: انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ "اب تو وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہوچکے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں، جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں، جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں۔؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ غزہ کے قاتلوں میں اسرائیلی غاصب فوج کیساتھ ساتھ یہ سب حکمران بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

پاکستان بھر کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک مرتبہ پھر غزہ کی داستان ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ یہ ابال سات اکتوبر کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا، لیکن آج کل یہ ایک اور زاویہ کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ یعنی غزہ میں بھوک اور قحط کے مسائل پر ہے۔ جی ہاں یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گذشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔ نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ راقم نے متعدد جلسوں اور تحریروں میں ہمیشہ اس اہم مسئلہ طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر غزہ کی بھوک اور پیاس کو بیان کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے اثرات سے یہ بات بھی بیان ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع ہونے والے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو اس وقت اپنی نشانہ بازی کا شکار کرتے ہیں، جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کرکے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اچانک غاصب صیہونی درندہ فوجی ان کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کو اپنے پیاروں سے دور کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو صیہونی غاصب حکومت اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کے لئے پیش کرتا ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی درندہ صفت فوج جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی ویڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے، جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔

آج ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغربی دنیا بلند کرتی ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے۔؟ بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ ان کو قتل کرنے والی صرف غاصب اسرائیلی فوج ہی ذمہ دار تو نہیں ہے بلکہ یہی غاصب صیہونی فوج جب ان لوگوں کو قتل کرتی ہے، اس کے بعد جو منرل واٹر پینے کا استعمال کرتی ہے، وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں، جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہے۔ یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔

حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمہ دار ہے ہی، لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورد و نوش اسرائیل کے لئے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمہ دار اور شریک جرم ہیں۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ غزہ میں حاملہ خواتین اور بزرگوں کی حالت زار دل دہلا دینے والی ہے۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ انتہائی وسیع پیمانے پر ہولناک نسل کشی ہے۔

انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی حکومتیں خاموش ہیں۔ عالمی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی غزہ کے عوام کو دانستہ قحط کا شکار بنانے میں شراکت دار ہے۔ مسلم دنیا کے اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ممالک میں ایسے خیانت کار حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرے۔بصورت دیگر یہ نسل کشی ختم نہ ہو پائے گی۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کا دہشت گرد وزیراعظم نیتن یاہو ایک انسان کش درندہ ہے۔ دوسری جانب غزہ کی اس ساری صورتحال پر اقوام متحد ہ نے بھی تصدیق کی ہے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار ایجنسی "انروا" کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے انتہائی دل سوز الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہوچکی ہے۔

انہوں نے تصدیق کی کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ نے واضح کیا ہے کہ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عدنان ابو حسنہ کا کہنا تھا کہ اگر قابض اسرائیل چاہے تو روزانہ سات سو ٹرک غزہ میں داخل ہوسکتے ہیں، مگر دانستہ طور پر انسانی امداد کو روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے کراسنگ پوائنٹس کو فی الفور کھولا جائے اور انسانی تنظیموں خصوصاً انروا کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ کم از کم جانیں تو بچائی جا سکیں۔ دوسری جانب انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ "اب تو وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہوچکے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں، جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں، جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں۔؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ غزہ کے قاتلوں میں اسرائیلی غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سب حکمران بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے جلاد کا آخری ہتھیار
  • غزہ کے جلاد کا آخری اسلحہ
  • غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بُلالیے
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالیے
  • سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کی حمایت پر وزیرِاعظم کا اظہارِ تشکر
  • حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا
  • صیہونی پارلیمنٹ میں مغربی کنارے کو ضم کرنے کیلئے ووٹنگ کا عمل باطل ہے، انقرہ
  • ہم نے جنگبندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دیدیا، حماس
  • ہم نے ایران کیخلاف اسٹریٹجک گفتگو شروع کر رکھی ہے، غاصب صیہونی وزیر خارجہ کا دورہ کی اف