Nai Baat:
2025-07-26@15:01:11 GMT

مذاکرات ٹھس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

مذاکرات ٹھس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے

پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ 9مئی اور 26نومبر کے حادثات کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں اور عمران خان کو رہا کیا جائے۔ انکوائری کمیشن کے مطالبے اور ملاقات کے بعد رانا ثناءاللہ اور عرفان صدیقی نے پریس کانفرنس کی جبکہ دوسری طرف صاحبزادہ حامد رضا نے مذاکرات کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ دونوں فریقین کی گفتگو سے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ الزام تراشیاں ہوئیں، دونوں نے ایک دوسرے کو مذاکرات سے بھاگنے کا طعنہ دیا۔ پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی کھل کر سامنے آ گئی ہے، ان کے مطالبات اور ان پر حکومت کا تبصرہ واضح کر رہا ہے کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ دونوں فریق ہی اپنی اپنی سیاست کے اسیر نظر آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی گیم کر رہی ہے، پی ٹی آئی میں بہت سے گروہ اپنی اپنی گیم بنانے میں مصروف ہیں۔ ویسے تو پارٹی عمران خان کی ہے، عمران خان ہی پارٹی ہیں لیکن عمران خان جیل میں ہیں اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں ہیں۔ وہ کھل کھلا کر پارٹی کی رہنمائی نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے بیرسٹر گوہر کو پارٹی سربراہ نامزد تو کر دیا ہے لیکن وہ پارٹی سربراہی کر پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں کھل کر پارٹی چلانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ وہ عمران خان کی پراکسی بلکہ پیامبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پارٹی پر ان کی گرفت نہیں ہے گو ان کا تعلق وکلاءبرادری سے ہے لیکن یہاں تو پارٹی کے وکلاءہی تقسیم نظر آ رہے ہیں۔ انصاف لائرز فورم ہی دو گروپوں میں بٹ چکا ہے۔ عمران خان کی زوجہ بشریٰ بی بی بھی عمران خان کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ 26نومبر کے دھاوے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کی ہدایت کے برعکس، اسلام آباد ڈی چوک کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور بالآخر انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔ وہ 26نومبر کے دھاوے سے قبل پشاور میں پارٹی لیڈر کے طور پر ایکٹ کرتی رہیں۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فرداً فرداً ہدایات جاری کرتی رہیں، انہیں بندے لانے کے لئے دھمکاتی رہیں پھر مارچ کی قیادت کرکے اور عمران خان کی ہدایات کے برعکس ڈی چوک کی طرف چلی گئیں۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ عمران خان کی حقیقی پراکسی ہی نہیں ہیں بلکہ وہی اصل رہنما ہیں۔ ایسے میں گوہر صاحب یا سلمان اکرم راجہ صاحب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ بشریٰ بی بی ہی عمران خان کو چلاتی رہی ہیں۔ 44ماہی دور حکمرانی میں بھی بشریٰ بی بی درپردہ معاملات پر غالب تھیں۔ پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نظر نہیں آ رہے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا نے
بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے اصولی اعلان/ فیصلے کے بغیر بات چیت کا اگلا مرحلہ نہیں ہوگا گویا مذاکرات کا ڈرامہ ختم ہی سمجھنا چاہئے۔
دوسری طرف 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ عمران خان کو 14سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں 6ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث 3ماہ مزید قید بھگتنا ہوگی۔ القادر یونیورسٹی کی زمین بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے کی سزا دی گئی ہے جبکہ بشریٰ بی بی کو ان کاموں میں معاونت کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ یہ کیس اوپن اینڈ شٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ 190ملین پاﺅنڈ کیس ایسا کھلا کیس تھا کہ اس میں ملوث افراد کو سزا ہونا لازمی تھی اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
ذرا غور کریں ایک القادر ٹرسٹ ہے جس کے دو ٹرسٹیز ہیں۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی، اس ٹرسٹ میں آج تک کسی نے کوئی ڈونیشن نہیں دی۔ صرف ملک ریاض نے اراضی ڈونیٹ کی کہ اس پر ایک یونیورسٹی بنائی جا سکے، یہ بالواسطہ ادائیگی تھی، 190ملین پاﺅنڈ کو ملک ریاض کے جرمانے کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بدلے میں کی گئی۔ 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کا مال تھا جو برطانوی عدالت میں ثابت ہوا۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی اس رقم کو کرپشن کی دولت ثابت کیا، اسے ضبط کیا گیا اور پھر یہ حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا کہ یہ رقم پاکستانی عوام کی ہے اور انہیں لوٹائی جا رہی ہے۔ عمران خان نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر کابینہ کو مکمل اندھیرے میں رکھ کر جھوٹ بول کر یہ رقم ملک ریاض کے جرمانہ اکاﺅنٹ میں ایڈجسٹ کر دی جو رقم پاکستان کے خزانے میں جمع ہونا چاہئے تھی وہ ملک ریاض کے جرمانے کی مد میں جمع کرا دی گئی پھر اس مہربانی کے جواب میں ملک ریاض نے کرپٹ جوڑے کے ٹرسٹ کو 458کنال زمین عطیہ کر دی۔ دونوں فریقین ہی کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں لین دین کیا۔ بشریٰ بی بی ہیرے کی انگوٹھیاں بھی ملک ریاض سے وصول کرتی رہی ہیں۔ زیورات بھی وصول کئے گئے ہیں۔ عمران خان نے سعودی حکومت کا تحفہ گھڑی پیک جس طرح بیچا بلکہ جس طرح توشہ خانے سے نکلوایا وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی جو پاکستان کی قومی سیاست میں کرپٹ ترین جوڑے کے طور پر معروف ہو چکے ہیں۔ کذب اور جھوٹ کی سیاست میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے 190ملین پاﺅنڈ کرپشن بارے جھوٹ کی چادر تاننے میں مصروف رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس حوالے سے حکمت عملی بڑی شاندار رہی ہے وہ کسی بھی معاملے میں کچھ اس طرح بیان بازی کرتے ہیں۔ جھوٹ اس طرح پھیلاتے اور اچھالتے ہیں کہ سچ کہیں چھپ جاتا ہے، گم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف ن لیگ، پیپلزپارٹی وغیرھم تمام تر مالی وسائل رکھنے کے باوجود اس جھوٹ و کذب کا پردہ چاک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ سچ کو بھی نمایاں کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی و ن لیگ مل جل کر حکومت بناتے اور چلاتے رہے ہیں لیکن دونوں کا اخلاص ثابت شدہ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی تو ہیں لیکن ان کا یہ اتحاد مفادات پر مبنی ہے جب نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کا میثاق جمہوریت ہوا تھا تو اس کے خدوخال واضح تھے، ٹارگٹس کلیئر تھے اور دونوں بڑے اخلاص کے ساتھ ان پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ اس سے جاری سیاسی نظام میں نہ صرف بہتری پیدا ہوئی بلکہ بہتری نظر بھی آئی۔ جمہوری نظام میں بہتری نظر آنے لگی۔ طالع آزما قوتوں کے پروردہ سیاسی رہنماﺅں کی امیدوں پر اوس پڑنے لگی۔ پھر بے نظیر بھٹو کو جبراً منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت زرداری صاحب کے حوالے ہو گئی۔ انہوں نے سیاست میں جو کچھ کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی سمٹ کر سندھ میں مرتکز ہو چکی ہے۔ زرداری صاحب سب پر بھاری ضرور ہیں لیکن ان کا بھاری پن ان کی پارٹی کو بھی لے بیٹھا ہے۔ پی ٹی آئی بطور پارٹی شاید تتر بتر ہو چکی ہے لیکن اس کی پروپیگنڈہ مشینری فعال و متحرک ہے۔ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود قومی سیاست میں ایک فعال عنصر کے طور پر موجود ہیں۔ ان کی پارٹی کبھی ٹرمپ کارڈ کھیلتی ہے، کبھی سول نافرمانی کارڈ کھیلتی ہے، کبھی آخری بال اور آخری کال دیتی ہے۔ کبھی بشریٰ بی بی لانچ کی جاتی ہے سب کچھ ناکام ہونے کے باوجود عمران خان ملک کو ایک تھریٹ کے طور پر کھڑا ہے۔ اس کی زبان ملک کے خلاف شعلے اگلتی رہتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے مجرم کو حکومت کس طرح سہولیات دیتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی رہنمائی کرے۔ جیل کے دروازے رات کو بھی اور اتوار کو بھی کھول دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو ہدایات دے سکیں۔ حکمران عمران خان کی ملک و قوم دشمنی کا پردہ چاک کرنے اور اسے کرپٹ ترین شخص ثابت کرنے میں ویسا کچھ نہیں کر سکے ہیں جیسا کہا جانا چاہئے تھا۔ عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعے تو اسے کیفرکردار تک پہنچایا جا رہا ہے لیکن پروپیگنڈہ کے محاذ پر حکمران ناکام نظر آ رہے ہیں۔ سچ ظاہر ہو کر رہتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے لیکن سچ کو نمایاں کرنے اور جھوٹے کو بے نقاب کرنے میں جو کاوشیں ہونا چاہئیں وہ نظر نہیں آ رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: 190ملین پاﺅنڈ عمران خان کی عمران خان کو سیاست میں جرمانے کی پی ٹی آئی کے طور پر آ رہے ہیں انہوں نے ملک ریاض ہیں لیکن ہے لیکن کو بھی نہیں آ رہی ہے

پڑھیں:

سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی بغاوت کا عمران خان کی رہائی کی تحریک پر کیا اثر ہوگا؟

خیبر پختونخوا سینیٹ الیکشن کے دوران نشستوں کے لیے نامزدگی پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ورکرز کی جانب سے قیادت کے خلاف بغاوت کے بعد قائدین اگست سے عمران خان کی رہائی کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کے متاثر ہونے کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی قیادت نے پارٹی ورکرز اور نظریاتی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود بیرسٹر سیف کی جانب سے دی گئی فہرست کے مطابق سینیٹ امیدواروں کو فائنل کیا جبکہ احتجاج کے باوجود پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو مبینہ طور پر نظرانداز کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ انتخابات کے بعد اب ایوان میں کس جماعت کو کتنی نشستیں حاصل ہوگئیں؟

پارٹی ورکرز کے مطابق پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور رہنماؤں نے بیرسٹر سیف کی فہرست کو مسترد کر دیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق عرفان سلیم، ذیشان خرم اور عائشہ بانو کو ٹکٹ دیے جانے چاہییں، جو منظور نہیں کیا گیا۔

پارٹی کے اندرونی معاملات سے باخبر رہنماؤں کے مطابق سینیٹ انتخابات سے پارٹی میں اختلافات شدید حد تک بڑھ گئے ہیں اور ہر گروپ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے جس سے قیادت اور ورکرز میں دوریاں اور عدم اعتماد مزید بڑھ گیا ہے۔

اختلافات اور قیادت پر عدم اعتماد

سینیٹ انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر ورکرز اور کئی پرانے نظریاتی اراکین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹ الیکشن کے دوران دیرینہ کارکنان عرفان سلیم، عائشہ بانو اور دیگر نے مؤقف اپنایا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا، تاہم ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بیرسٹر سیف فہرست کے ساتھ سامنے آئے اور نظریاتی لوگ نظر انداز ہوئے۔ عرفان سلیم، عائشہ بانو اور ارشاد حسین نے آخری وقت میں الیکشن سے دستبرداری اختیار کی، لیکن ذیشان خرم نے الیکشن میں حصہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم: نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کرنے پر پشاور میں پی ٹی آئی کا احتجاج

ناراض اراکین کا مؤقف تھا کہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ‘چند مخصوص شخصیات’ کے مفادات کے تحت کیے گئے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سابق وزراء اور دیرینہ کارکنان نے نجی محفلوں میں علی امین گنڈاپور کی قیادت پر سخت تنقید کی جبکہ بعض نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا وہ پارٹی کو عمران خان کے نظریے سے ہٹا رہے ہیں؟

ذرائع کے مطابق پارٹی اپنی من پسند شخصیات کو ٹکٹ دینے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن ورکرز کو ناراض کیا، جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ورکرز کی ناراضگی، ایک خاموش بغاوت

سینیٹ الیکشن کے بعد بظاہر خاموشی چھا گئی ہے، لیکن باخبر حلقے اسے طوفان کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر پارٹی کی موجودہ صورت حال اور اختلافات پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ورکرز کی یہ ناراضگی محض محدود سطح تک نہیں بلکہ کئی اضلاع میں کھل کر سامنے آئی ہے۔ پارٹی کی ضلعی سطح کی تنظیمیں بھی اب تقسیم ہوتی جا رہی ہیں۔

سینیٹ آف پاکستان

انہوں نے بتایا کہ عرفان سلیم کی خیبر پختونخوا میں مضبوط جڑیں ہیں اور وہ ورکرز میں بہت مقبول ہیں۔ وہ اس وقت سخت ناراض ہیں۔ ’عرفان سلیم کی ناراضگی کا مطلب ورکرز کو ناراض کرنا ہے اور ورکرز کی ناراضگی کا مطلب پارٹی کا نقصان ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے: مراد سعید کی سیاست میں واپسی، سینیٹ انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل

رہنما نے بتایا کہ پارٹی ورکرز اس وجہ سے بھی ناراض ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن کو نشستیں دی گئیں۔ حکومت نے مبینہ طور پر کمپرومائز کیا اور مرزا آفریدی کو لایا گیا۔ ’یہ سب کچھ ورکرز کے دل میں ہے، وہ سخت ناراض ہیں۔‘

کیا عمران خان کی رہائی کے لیے اعلان کردہ تحریک متاثر ہو سکتی ہے؟

پی ٹی آئی نے حال ہی میں عمران خان کی رہائی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور خیبر پختونخوا کی قیادت نے ورکرز کو فعال کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا ہے۔

لیکن سینیٹ الیکشن کے بعد قائدین پریشان دکھائی دیتے ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ ورکرز اب احتجاج سے دوری اختیار کر سکتے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ ورکرز اب سوال اٹھا رہے ہیں کہ ‘ٹکٹ سرمایہ داروں کے لیے ہیں اور احتجاج، لاٹھی چارج، اور آنسو گیس کھانے کے لیے ورکرز ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی بھی جلسے یا تحریک کی کامیابی کا انحصار پشاور کے ورکرز پر رہا ہے، اور ہمیشہ پشاور سے سب سے زیادہ ورکرز نکلتے ہیں، لیکن اس بار عرفان سلیم کو نظر انداز کرنے سے شاید حالات مختلف ہوں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ پارٹی قیادت نے سینیٹ الیکشن اور فہرست کو عمران خان کی منظور کردہ قرار دے کر تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن ورکرز اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر ارب پتی افراد کے سینیٹ تک پہنچنے کی داستان

عارف حیات، سینیئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار کا ماننا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے ایشو پر پی ٹی آئی مزید تقسیم ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی میں بیرسٹر سیف اور مرزا آفریدی کو مقتدر حلقوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ ’ورکرز اور نظریاتی لوگ ہر وقت اور ہر پارٹی میں نظر انداز ہوتے ہیں، لیکن اس بار ایشو بیرسٹر سیف کا ہے، جیل سے نام بھی بیرسٹر سیف لے کر آئے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ورکرز کو بیرسٹر سیف کسی صورت منظور نہیں۔

سینیٹ کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی

عارف کا کہنا تھا کہ اختلافات کا پارٹی پر اثر پڑتا ہے اور سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا، اس کا آنے والی تحریک پر ضرور اثر پڑے گا۔ ’پی ٹی آئی نے اگست سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس وقت ورکرز ناراض ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت ورکرز علی امین گنڈاپور کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور پہلے بھی احتجاج کے دوران علی امین پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ الیکشن کا معمہ: خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی نے پانچویں نشست کیوں گنوائی؟

عارف حیات نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے لیے لوگ نکلتے ہیں اور ورکرز کسی حد تک جانے کو تیار ہیں، لیکن اس بار سینیٹ الیکشن سے ورکرز میں یہ تصور پیدا ہوا ہے کہ فیصلے علی امین گنڈاپور مقتدر حلقوں کے کہنے پر کرتے ہیں اور نام عمران خان کا استعمال ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ورکرز اور قیادت میں اعتماد کا فقدان ہے، جس کا اثر پارٹی کی احتجاجی تحریکوں پر پڑے گا۔ ’یہ نہیں کہ کوئی بھی نہیں نکلے گا، لوگ ضرور نکلیں گے، لیکن شاید تعداد اتنی زیادہ نہ ہو اور ورکرز کی دلچسپی کم ہو۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انتخابات پی ٹی آئی احتجاج ٹکت خٰبرپختونخوا سینیٹ وزیراعلیٰ خٰبرپختونخوا

متعلقہ مضامین

  • پارٹی کا ہر فرد 5 اگست کی تحریک پر توجہ دے (عمران خان کا جیل سے پیغام )
  • ’’ پارٹی کا ہر فرد فوری طور پر آپس کے تمام اختلافات بھلا دے اور مکمل طور پر 5 اگست کی تحریک پر توجہ دے ‘‘عمران خان نے جیل سے پیغام جاری کر دیا 
  • عمران خان کی فیملی کیخلاف بات کرنے والوں کو پارٹی سے نکال دیں گے
  • عمران خان ہی پارٹی لیڈر، شاہ محمود قریشی لیڈ نہیں کرینگے، سلمان اکرم راجہ
  • عمران خان، بشری بی بی کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت، مزید ایک گواہ پر جرح مکمل
  • 5اگست کے احتجاج کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آرہا،جس نے پارٹی میں گروہ بندی کی اسے نکال دوں گا،عمران خان
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں، شاہ محمود قریشی کے لیڈ کرنے کی بات غلط ہے، سلمان اکرم راجہ 
  • سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی بغاوت کا عمران خان کی رہائی کی تحریک پر کیا اثر ہوگا؟
  • عمران خان نے پارٹی میں انتشار پھیلانے والوں کیخلاف کارروائی کا کہا، علی امین گنڈاپور
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ