اور اب نواز شریف پر پی ٹی آئی حکومت "مذاکرات" ناکام بنانے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
سٹی42: پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے وفاقی حکومت کو "جعلی" قرار دینے کے ساتھ مسلم لیگ نون کے صدر میاں نواز شریف پر یہ الزام بھی لگا دیا کہ پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ "مذاکرات" کو وہ ناکام بنا رہے ہیں، ان الزامات کے ساتھ اسد قیصر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے اور ہم "مذاکرات" کے ذریعہ ملک میں سیاسی استحکام لانا چاہتے ہیں۔
اسد قیصر نے "مذاکرات" کے لئے دو مطالبات بھی دہرائے جو 9 مئی 2023 کو ریاست کے اداروں پر درجنوں منظم حملوں اور 26 مئی 2024 کو اسلام آباد پر دھاوے کے واقعات کی "عدالتی تحقیقات" پر مبنی ہیں۔ ان دونوں دنوں پر کئے گئے درجنوں حملوں کے درجنوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور کئی مقدمات میں درجنوں شر پسندوں کو عدالتوں سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔
ساٹھ روپے کا چوزہ 220 روپے میں بکا، گٹھ جوڑ کر کے شہریوں کو لوٹا گیا، سرکاری ادارہ کی بعد از وقت تحقیقات
صوابی میں پی ٹی آئی رہنما گوہر خان کی تعزیتی کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اسدقیصر نے کہا، ہم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے، ہم نے مذاکرات" اہم وجوہات کی بنا پر شروع کیے۔" اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے حکومت کو مذاکرات کا ایک موقع دیا۔
اسد قیصر نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی مخدوش اور نامناسب ہیں، ہم نے ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے حکومت کو مذاکرات کا ایک موقع دیا، ہم نے کوئی بڑا مطالبہ نہیں کیا ہے حالانکہ ہم کہہ سکتے تھے کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کریں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ کی حکومت جعلی ہے اور آپ سے بات نہیں کرسکتے،
اسرائیل کے پاس بفر زون میں رہنے کا کوئی جواز نہیں، شام اور قطر کے رہنماؤں کی مشترکہ نیوز کانفرنس
ہمیں پتہ چلا ہے نوازشریف اور ان کے قریبی ساتھی مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
اسد قیصر نے کہا، ہمارا مطالبہ ہے کہ 9 مئی اور 26نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، ہمارا دوسرا مطالبہ ہے کہ ہمارے بےگناہ کارکنوں کو رہا کیا جائے۔
اسد قیصر نے مزید کہا، ہم تین چار ہفتوں میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس بلارہے ہیں جس میں "ون پوائنٹ" پر بات کریں گے۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے پی ٹی آئی نے جو "دو مطالبات" پیش کئے ہیں ان کو حکومت کے اہم رہنما اور قانونی ماہرین "عدم استحکام" کی چابی قرار دیتے ہیں۔ حکومت کے اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نو مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کر وفاقی دارالحکومت میں دوست ملک کے معزز سربراہ کی موجودگی کے موقع پر اسلام آباد پر دھاوے کے دوران تشدد اور سنگین جرائم کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، عدالتوں پر عدم اعتماد کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اگر کسی کو کسی مقدمہ کی کارروائی پر کوئی قانونی اعتراض ہے تو اس کے لئے وہی عدالتی فورم کھلے ہیں جن سے پی ٹی آئی "عدالتی تحقیقات" کروانا چاہتی ہے۔
میٹ ڈیپارٹمنٹ نے کشمیر میں بھی بارش کی پیش گوئی کر ڈالی
حکومتی شخصیات پبلک فورمز پر بتا چکی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ڈائیلاگ/ مذاکرات ملک میں سیاسی ٹمپریچر نارمل رکھنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں حکومت ریاست کے دوسرے اداروں خصوصاً عدالتوں کو لیٹ ڈاؤن کرنے کی طرف نہیں جا سکتی۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ملک میں سیاسی استحکام پی ٹی ا ئی حکومت کے کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
مسلم لیگ ن کے وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، شہباز شریف، نواز شریف اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے کچھ وزراء بیان بازی کر رہے ہیں، شہباز شریف اور نواز شریف اپنے لوگوں کو سمجھائیں، یہی روش رہی تو بات نہیں بنی گی۔
کراچی میں پارٹی کے سینئر رہنما ناصر حسین شاہ اور عاجز دھامراہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متنازع کنالز پر پیپلز پارٹی کا واضح موقف رہا ہے، کوشش ہے کہ مسئلے کو حل کیا جائے، لوگوں کے جائز خدشات ہیں۔ نگراں حکومت کے دوران ارسا نے سرٹیفکیٹ جاری کیا اور کہا کہ کنالز بنائیں پانی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی سندھ کے نمائندے نے مخالفت کی تھی، جو لوگ کہتے ہیں پیپلز پارٹی بعد میں جاگی ہمارے پاس رکارڈ موجود ہے کہ وزیر اعلی سندھ نے مخالفت کی، سولہ جون کو وزیر اعلی نے سمری سائن کی اور تین جولائی کو سمری وفاق کو پہنچ چکی تھی۔
شرجیل میمن نے کہا کہ ہمارے پاس سارے خطوط موجود ہیں جو ہم نے کنالز کی مخالفت کی، پیپلز پارٹی کا یہی موقف ہے کہ متنازعہ کنالز نہیں بنائے جائیں، جہاں سے آپ پانی لیتے ہیں ان کو بھی بتا دیں کہ ہم آپ کا پانی لے رہے ہیں، صدر مملکت نے جوائنٹ سیشن میں کہا کہ ہم اس منصوبے کو سپورٹ نہیں کر سکتے، پہلے دن سے کنالز کے معاملے پر پیپلز پارٹی کا واضح موقف ہے۔ جہاں جہاں ہماری میٹنگز ہوئی وہاں ہم نے مخالفت کی۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں زیر زمین پانی میٹھا موجود ہے اس سے کاشتکاری ہوسکتی ہے۔
رانا ثناءاللہ کا دو دن پہلے فون آیا اور انہوں نے کہا وزیر اعظم صاحب اس معاملے کو حل کرنا چاہتا ہیں۔
رانا ثناءاللہ سے کل اور آج بھی بات ہوئی، شہباز شریف پوری ملک کے وزیر اعظم ہیں، لوگوں کے خدشات ختم کرنے چاہیے۔
سینئر وزیر نے کہا کہ ملک عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اکانوے کے معاہدے کے تحت بھی ہمیں ہانی نہیں مل رہا ہے۔ قانونی اور آئینی طور پر جو ہمارا پانی کا شیئر بنتا ہے وہ دے دیں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنا آئینی اور قانونی حق ہے لیکن سڑکوں کو بلاک نہ کریں، ٹرکوں میں مویشی پہنسے ہوئے ہیں ان کو خوراک نہیں پہنچ پا رہی ہے، ایکسپورٹ کا سامان پہنسا ہوا ہے۔ میری التجہ ہے کہ لوگوں کا خیال کریں، احتجاج کو پرامن رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ن لیگ کے سنجیدہ لوگوں سے بات ہورہی ہے اور کچھ وزراء بیان بازی کر رہے ہیں، وہ لوگ غیر سیاسی ہیں جو اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، سیاستدان اس صورتحال میں معاملے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ رانا ثناءاللہ نے بات کی ہم خوش آئین قرار دیتے ہیں، اگر ہمارے طرف سے بھی شعلہ بیانی ہوئی تو بات بنے گی نہیں، شہباز شریف اور نواز شریف اپنے لوگوں کو سمجھائیں، ن لیگ اپنی وزراء کو سمجھائے ورنہ پھر شاید ہم اپنے ترجمانوں کو روک نہ سکیں، یہی روش رہی تو بات نہیں بنی گی۔