مظلوم فلسطینیوں کی فریاد
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
اس بارغزہ پر اسرائیلی جارحیت مسلسل پندرہ ماہ تک جاری رہی، جس میں پینتالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہوئی، غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے میں امریکا نے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کی،کئی دوسری طاقتیں بھی اس سفاکیت اور غیر انسانی سلوک میں معاون تھیں، معصوم فلسطینیوں کی شہادت اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر جس نے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔
ایک زخمی معصوم فلسطینی بچی کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ اللہ کے پاس جاکر ان ظالموں کی شکایت کرے گی۔ فلسطینیوں کے گھر بار تباہ وبرباد ہوگئے، اسرائیل نے سنگدلی اور ظلم کی انتہا کردی، اسپتالوں، اسکولوں اور دوسرے مقامات پر بمباری کی ہر چیز تباہ و برباد کردی گئی، فلسطینی اپنوں کی لاشیں اٹھائے تڑپتے، سسکتے اور اللہ سے مدد مانگتے رہے۔ اللہ غفور الرحیم، ستار و غفار ہے، سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
یہودیوں کے مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے اللہ نے ان پر اپنی رحمتیں نازل کیں لیکن یہ قوم اللہ کی بھی ناشکری نکلی،کفران نعمت کیا۔ ان کی تاریخ بھی قابل عبرت ہے، جب رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کر دی تھی ،انھوں نے قتل کیا تو انھوں نے مسلمانوں سے امیدیں وابستہ کیں۔
لہٰذا جہاں بھی مسلمانوں کی حکومت ہوتی وہ اسی جگہ کا رخ کرتے، رومیوں نے انھیں بیت المقدس سے نہ صرف نکالا بلکہ ان کی عبادت گاہیں بھی تباہ کردیں، اس کے بعد ہی جب حضرت عمرؓ کا دور خلافت آیا تو بیت المقدس فتح ہوا۔
اس زمانے میں یہودیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دے دی گئی اور انھیں بیت المقدس کی زیارت کرنا بھی نصیب ہوئی یہ مہربانی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے میسر آئی، تاریخ اسلام میں ایسی بے شمار روشن مثالیں موجود ہیں جب مسلمانوں نے کفار و نصاریٰ کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کا معاملہ کیا۔
جب کہ اس سے قبل عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا دی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے نفرت کی وجہ سے اس چٹان کو کچرے سے ڈھانپ دیا تھا جس پر قبۃ الصخرہ Dome of Rock بنا ہوا ہے، یہودی اسے مقدس مانتے تھے، حضرت عمرؓ نے Rock پر پڑا ہوا کوڑا کرکٹ اپنے ہاتھوں سے ہٹایا۔ مسلمان اسے اس وجہ سے مقدس مانتے ہیں اس کی وجہ رسول پاکؐ شب معراج کے لیے اسی چٹان سے سفر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں عیسائیوں نے یہودیوں کی حرکتوں کی وجہ سے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ان حالات میں یہودیوں نے نقل مکانی کی۔ جرمنی، روس اور مشرقی یورپ سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے، انھوں نے برطانیہ، امریکا میں سکونت اختیارکی اور ایک بڑی تعداد فلسطین میں آکر آباد ہوگئی۔
یہودیوں کے ساتھ برطانیہ اور امریکا کی پوری مدد شامل تھی اور ان کی ایما پر ہی انھوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ ان ہی فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی کرنے لگے، جن فلسطینیوں نے برے وقت میں ان کا ساتھ دیا تھا، یہودی ہر طرف سے ذلیل و خوار تھے انھوں نے اپنے محسنوں پر ہی جنگیں مسلط کی تھی۔
اسرائیل نے غزہ میں جو مالی و جسمانی نقصان فلسطینیوں کو پہنچایا اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان میں اور درندوں میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے بلکہ درندے ان سے بہتر ہوں گے۔ ہٹلر نے ٹھیک کیا تھا اور ٹھیک کہا تھا کہ میں نے تھوڑے سے یہودی اس لیے چھوڑ دیے ہیں تاکہ دنیا کو پتا چل سکے کہ میں نے انھیں کیوں مارا؟
غزہ اور اس میں بسنے والوں کی لاشوں کا انبار لگانے والے یہی صیہونی اور نصرانی طاقتیں ہیں، مسلمانوں نے کبھی بھی کسی مذہب، نسل سے تعلق رکھنے والوں کے لیے گھناؤنی اورگھٹیا سازشیں نہیں کیں، صرف اپنا دفاع اور جہاد کیا ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے یہ زمین اللہ کی ہے اس پر بسنے والے مشرکوں کی سرکوبی کے لیے اللہ نے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ بلاوجہ غیر مسلموں پر ظلم ڈھانے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی محنت رنگ لے آئی۔ بے شک رنگ لے آئی۔ غزہ میں قیامت بپا کر کے۔ روز کے حساب سے سیکڑوں ٹن بارود برسا کر، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، پہلے بدترین ظلم کرتے ہیں اور پھر روٹی کے ٹکڑے جہازوں کے ذریعے نیچے پھینکتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب حشر بپا ہوگا اور جنت و جہنم میں جانے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
قبولیت دعا: چند تقاضے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دعائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جتنا بھی چاہیں اس کو پھیلا لیں۔ ایک ایک دعا کو‘ اس کے الفاظ کو آپ دیکھیں‘ ان میں جن چیزوں کو مانگا گیا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بندے کو کیا ہونا چاہیے‘ کیسا بننا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی‘ کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘ بلکہ چند مختصر جملوں میں دعا کے انداز میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی ایک خوب صورت مثال: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہے۔ چار الفاظ کے ایک مختصر جملے میں بندگی کی پوری تعلیم دعا کے انداز میں دے دی گئی ہے۔ دعا آدمی کو یاد ہوجاتی ہے اور وہ مانگتا رہتا ہے‘ اُس کے ذریعے طلب کرتا رہتا ہے‘ سیکھتا رہتا ہے‘ ویسا بنتا رہتا ہے‘ اس طرح سے عبد‘ یعنی اس کا حقیقی و سچا بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ ساری دعائیں دراصل حرص بھی ہیں‘ طلب بھی ہیں اور یہ ہماری تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہیں۔
یہ وہ صفات ہیں جو دین میں مطلوب ہیں۔ اللہ کی خشیت‘ اللہ کی محبت‘ اللہ سے اپنے گناہوں پر استغفار‘ اللہ پر بھروسا کہ جو کچھ ملنا ہے اسی سے ملنا ہے‘ جو کچھ چھن جانے والا ہے وہی چھیننے والا ہے۔ جب یہ سوچ اور یہ کردار ہوگا تو دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا‘ آخرت میں بھی جنت ملے گی اور دنیا کے اندر غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”صرف میری ہی بندگی کریں اور ذرہ برابر بھی کسی کو میرے ساتھ شریک نہ کریں”۔ اللہ نے زمین میں اپنی خلافت کا‘ زمین میں غلبے کا وعدہ انھی سے کیا ہے جنھوں نے بندگی کی نسبت اس کے ساتھ قائم کرلی‘ جو اس کے محتاج بن گئے‘ اس کے فقیر بن گئے اور صرف اسی کے دَر پر آکر کھڑے ہوگئے اور یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ملے گا صرف اللہ ہی سے ملے گا۔
اصل چیز دل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ساری چیزیں جمع ہوجائیں تو زندگی سدھر جائے گی‘ نہ ہوں تو نہیں سدھرے گی۔ دل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ساتھ متعلق کرلیا ہے۔ حضورؐ کی ایک بہت پیاری دعا ہے۔
میں اپنی دعا کا آغاز اکثر اسی دعا سے کرتا ہوں:
اَللّٰھمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَنَوَاصِیَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ وَلَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَا فَکُنْ اَنْتَ وَلِیَّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ – (ترمذی‘ عن ابی ہریرہ)
’’اے اللہ! ہمارے دل بھی تیرے ہاتھ میں ہیں‘ اعضا اور جوارح بھی تیرے ہاتھ میں ہیں۔ پوری شخصیت بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ہمیں کسی چیز پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے۔ جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا تو تو ہی ہمارا ولی بن جا‘ دوست بن جا‘ ہمارا رفیق بن جا‘ ہمارا مددگار بن جا۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ ۔
دیکھیے‘ کس طرح دل کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیا گیا!
دعا کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔ دعا مانگنے کا‘ اگر ذوق و شوق ہو‘ توجہ و یکسوئی اور پورے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے خواہ اُردو میں ہو یا پنجابی میں‘ خواہ پشتو میں ہو یا کسی بھی زبان میں‘ دل کی یہ پکار‘ زبان پہ آئے یہ کلمے بارگاہِ الٰہی تک پہنچتے ہیں اور اپنا اثر رکھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ بندگی کا‘ حاجت کا‘ فقر کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ بے نیاز ہے‘ ہم فقیر ومحتاج ہیں‘ اس کے در کے بھکاری ہیں۔ جو کچھ بھی چاہیے‘ خواہ جوتے کا تسمہ ہی ہو‘ اسی سے مانگنا چاہیے۔ ہدایت و غلبہ بھی اُسی سے مانگنا ہے۔ فتح و نصرت بھی اسی سے ملنا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو اللہ کی یاد کو‘ اللہ کے ساتھ تعلق کو دل کے اندر راسخ کر دیتی ہے۔ ہم دعوت یا اپنے ذاتی یا دنیاوی کام کے لیے نکلیں‘ گھر سے نکلیں‘ کھانے کے لیے بیٹھیں اٹھیں۔ ہر موقع پر اللہ کو یاد کریں اور صرف اسی سے مانگیں۔ جیسے جیسے یہ اخلاص پیدا ہوتا جائے گا کہ جو کچھ ملے گا اللہ ہی سے ملے گا کہیں اور سے کچھ نہیں ملے گا‘ نہ بندوں سے ملے گا‘ نہ اپنی کوششوں سے اور نہ عوامی تائید سے‘ بلکہ جو کچھ بھی ملے گا وہ اللہ ہی سے ملے گا۔ جتنا زیادہ اخلاص پیدا ہوگا اتنا ہی اور ملے گا۔ جتنی نسبتیں دوسروں سے قائم ہوں گی‘ اتنا ہی کم ملے گا اور اتنی ہی مایوسیاں ہوں گی۔ اللہ ہی سے ملنے کا‘ اللہ ہی سے پانے کا‘ اللہ ہی سے طلب کرنے کا یہ انداز‘ دعا ہمیں سکھاتی ہے۔
دعا عبادت کا مغز ہے‘ خدا کی بندگی ہے‘ اور یہی روحِ عبادت ہے۔ اسی لیے قرآن یَدْعُوْنَ وَیَعْبُدُوْنَ ان دونوں الفاظ کو بدل بدل کے ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے: ’’مجھ سے مانگو‘ مجھے پکارو‘ میں تمھیں دوں گا اور تمھاری پکار کو قبول کروں گا‘‘۔ مزید فرمایا: ’’جو لوگ گھمنڈ میںآکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘ (المومن: 60)۔ اب یہاں فوراً اسی آیت کے اندر دعا کی جگہ عبادت کا لفظ آگیا کہ جو لوگ میری عبادت سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں وہی تکبر کرنے والے ہیں اور جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ یہاں دعا کے لفظ کو عبادت کے لفظ سے بدل دیا گیا‘ یہ بتانے کے لیے کہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔