Express News:
2025-07-25@01:19:23 GMT

مظلوم فلسطینیوں کی فریاد

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

اس بارغزہ پر اسرائیلی جارحیت مسلسل پندرہ ماہ تک جاری رہی، جس میں پینتالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہوئی، غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے میں امریکا نے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کی،کئی دوسری طاقتیں بھی اس سفاکیت اور غیر انسانی سلوک میں معاون تھیں، معصوم فلسطینیوں کی شہادت اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر جس نے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ 

ایک زخمی معصوم فلسطینی بچی کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ اللہ کے پاس جاکر ان ظالموں کی شکایت کرے گی۔ فلسطینیوں کے گھر بار تباہ وبرباد ہوگئے، اسرائیل نے سنگدلی اور ظلم کی انتہا کردی، اسپتالوں، اسکولوں اور دوسرے مقامات پر بمباری کی ہر چیز تباہ و برباد کردی گئی، فلسطینی اپنوں کی لاشیں اٹھائے تڑپتے، سسکتے اور اللہ سے مدد مانگتے رہے۔ اللہ غفور الرحیم، ستار و غفار ہے، سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

 یہودیوں کے مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے اللہ نے ان پر اپنی رحمتیں نازل کیں لیکن یہ قوم اللہ کی بھی ناشکری نکلی،کفران نعمت کیا۔ ان کی تاریخ بھی قابل عبرت ہے، جب رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کر دی تھی ،انھوں نے قتل کیا تو انھوں نے مسلمانوں سے امیدیں وابستہ کیں۔ 

لہٰذا جہاں بھی مسلمانوں کی حکومت ہوتی وہ اسی جگہ کا رخ کرتے، رومیوں نے انھیں بیت المقدس سے نہ صرف نکالا بلکہ ان کی عبادت گاہیں بھی تباہ کردیں، اس کے بعد ہی جب حضرت عمرؓ کا دور خلافت آیا تو بیت المقدس فتح ہوا۔

اس زمانے میں یہودیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دے دی گئی اور انھیں بیت المقدس کی زیارت کرنا بھی نصیب ہوئی یہ مہربانی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے میسر آئی، تاریخ اسلام میں ایسی بے شمار روشن مثالیں موجود ہیں جب مسلمانوں نے کفار و نصاریٰ کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کا معاملہ کیا۔ 

جب کہ اس سے قبل عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا دی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے نفرت کی وجہ سے اس چٹان کو کچرے سے ڈھانپ دیا تھا جس پر قبۃ الصخرہ Dome of Rock بنا ہوا ہے، یہودی اسے مقدس مانتے تھے، حضرت عمرؓ نے Rock پر پڑا ہوا کوڑا کرکٹ اپنے ہاتھوں سے ہٹایا۔ مسلمان اسے اس وجہ سے مقدس مانتے ہیں اس کی وجہ رسول پاکؐ شب معراج کے لیے اسی چٹان سے سفر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

 انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں عیسائیوں نے یہودیوں کی حرکتوں کی وجہ سے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ان حالات میں یہودیوں نے نقل مکانی کی۔ جرمنی، روس اور مشرقی یورپ سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے، انھوں نے برطانیہ، امریکا میں سکونت اختیارکی اور ایک بڑی تعداد فلسطین میں آکر آباد ہوگئی۔

یہودیوں کے ساتھ برطانیہ اور امریکا کی پوری مدد شامل تھی اور ان کی ایما پر ہی انھوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ ان ہی فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی کرنے لگے، جن فلسطینیوں نے برے وقت میں ان کا ساتھ دیا تھا، یہودی ہر طرف سے ذلیل و خوار تھے انھوں نے اپنے محسنوں پر ہی جنگیں مسلط کی تھی۔

اسرائیل نے غزہ میں جو مالی و جسمانی نقصان فلسطینیوں کو پہنچایا اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان میں اور درندوں میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے بلکہ درندے ان سے بہتر ہوں گے۔ ہٹلر نے ٹھیک کیا تھا اور ٹھیک کہا تھا کہ میں نے تھوڑے سے یہودی اس لیے چھوڑ دیے ہیں تاکہ دنیا کو پتا چل سکے کہ میں نے انھیں کیوں مارا؟

 غزہ اور اس میں بسنے والوں کی لاشوں کا انبار لگانے والے یہی صیہونی اور نصرانی طاقتیں ہیں، مسلمانوں نے کبھی بھی کسی مذہب، نسل سے تعلق رکھنے والوں کے لیے گھناؤنی اورگھٹیا سازشیں نہیں کیں، صرف اپنا دفاع اور جہاد کیا ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے یہ زمین اللہ کی ہے اس پر بسنے والے مشرکوں کی سرکوبی کے لیے اللہ نے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ بلاوجہ غیر مسلموں پر ظلم ڈھانے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔

 غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی محنت رنگ لے آئی۔ بے شک رنگ لے آئی۔ غزہ میں قیامت بپا کر کے۔ روز کے حساب سے سیکڑوں ٹن بارود برسا کر، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، پہلے بدترین ظلم کرتے ہیں اور پھر روٹی کے ٹکڑے جہازوں کے ذریعے نیچے پھینکتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب حشر بپا ہوگا اور جنت و جہنم میں جانے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انھوں نے کے لیے

پڑھیں:

عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت

عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت WhatsAppFacebookTwitter 0 23 July, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


انسانی تاریخ کے ہر دور میں کچھ شخصیات ایسی ابھری ہیں جنہوں نے اپنے بے مثال کردار، لازوال پیغام اور آفاقی کشش کی بدولت سب پر فوقیت حاصل کی۔ ان ہستیوں میں کوئی بھی شخصیت حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے زیادہ مقدس اور محترم نہیں، جنہیں دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان دل کی گہرائیوں سے عزیز رکھتے ہیں۔ آپ ۖ نہ صرف اسلام میں سلسلہ? نبوت کی آخری کڑی ہیں بلکہ رحمت، عدل اور اخلاقی عظمت کی علامت بھی ہیں۔ قرآنِ مجید گواہی دیتا ہے:


محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (سورة الاحزاب، 33:40)
نبوت کا یہ خاتمہ محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد ہے، اور اس کا انکار درحقیقت اسلام کا انکار ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں نبی کریم ۖ کے لیے جو بے پناہ عقیدت و محبت پائی جاتی ہے، وہ براہِ راست خدائی احکامات کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور نبی کی عزت کرو، ان کی مدد کرو، اور صبح و شام ان کی تعظیم کرو۔ (سورة الفتح، 48:8)
یہ صرف روحانی تعلق نہیں بلکہ اطاعت، محبت، اور آپ ۖ کے نام و پیغام کے دفاع میں جڑوں تک پیوست ایک رشتہ ہے۔ متعدد احادیث اس عظیم احترام کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” (بخاری)


آپ ۖ کے صحابہ کرام نے اس محبت کو اپنے عمل سے ثابت کیا۔ وہ آپ ۖ کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کرنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ جب کبھی کسی دشمن نے نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی، تو صحابہ کرام نے انتہائی غیرت مندانہ اور مضبوط ردِعمل دیا، جو ان کی آپ ۖ کی حرمت و عظمت سے بے پناہ وابستگی کو ظاہر کرتا تھا۔
حضرت محمد ۖ کے غیر معمولی کردار کا اعتراف صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں رہا۔ بہت سے غیر مسلم مورخین، فلاسفرز اور مذہبی مفکرین نے بھی آپ ۖ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ معروف برطانوی دانشور جارج برنارڈ شا نے ایک مرتبہ کہا:


انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ان جیسے شخص کو آج کی دنیا کی قیادت مل جائے، تو وہ دنیا کے مسائل کو اس انداز میں حل کرے گا جو امن اور خوشی کا ضامن ہوگا۔ اسی طرح مشہور امریکی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب ”دی ہنڈرڈ” میں حضرت محمد ۖ کو تاریخ کی سب سے مؤثر شخصیت قرار دیا، اور اس کی وجہ آپ ۖ کی دینی و دنیاوی دونوں میدانوں میں بے مثال کامیابی کو بتایا۔
مزید برآں، مختلف مذاہب کی آسمانی کتابیں اور روایات — اگرچہ صراحت کے ساتھ حضرت محمد ۖ کا نام نہیں لیتیں — لیکن بالواسطہ طور پر آپ ۖ کی آمد اور صفات کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ مسیحی روایات میں انجیل یوحنا (باب 14:16، 15:26، اور 16:7) میں مذکور ”پیراکلیٹ” یا ”تسلی دینے والا” کے حوالے کو بہت سے محققین حضرت محمد ۖ کی پیش گوئی قرار دیتے ہیں، خاص طور پر جب اس لفظ کے اصل یونانی مفہوم کا تجزیہ کیا جائے۔ یہودی صحیفے استثناء 18:18 میں لکھا ہے:


”میں ان کے بھائیوں میں سے تیرے مانند ایک نبی ان کے لیے اٹھاؤں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں رکھوں گا۔”
اسلامی علما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت محمد ۖ، جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے، اس پیش گوئی کے مصداق ہیں کیونکہ آپ ۖ بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے تعلق رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شریعت لے کر آئے اور ایک قوم کی قیادت فرمائی۔
ہندو مذہبی کتب میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں جنہیں بعض محققین آخری نبی کی پیش گوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدیم سنسکرت مذہبی کتاب بھوِشیہ پران میں ایک شخصیت ”مہامدا” کا ذکر ملتا ہے، جو ایک غیر ملکی سرزمین میں اصلاحات لائیں گے اور سچائی کا پرچار کریں گے۔


اگرچہ ان حوالوں کی تشریحات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ایسے مقامات کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا ہے کہ حضرت محمد ۖ کے پیغام کی آفاقیت کو مختلف تہذیبوں میں تسلیم کیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ایک نہایت تشویشناک رجحان سامنے آیا ہے—آزادی اظہار یا فنون لطیفہ کے نام پر جان بوجھ کر حضرت محمد ۖ کی عظمت کو نظر انداز کرنے، تمسخر اُڑانے یا کم تر دکھانے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یورپی اشاعتی اداروں میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں سے لے کر توہین آمیز فلموں اور نفرت انگیز تقاریر تک، یہ تمام اشتعال انگیز اقدامات عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ رجحان، جسے اب اسلاموفوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے، مذہبی نفرت کو معمول بنانے، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینے، اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقائد کو چیلنج کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔


پاکستان بھی ان خطرناک کوششوں سے محفوظ نہیں رہا۔ بعض مقامی اور غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے عناصر نے خفیہ نظریاتی مہمات، نصابی بگاڑ اور قانونی چالاکیوں کے ذریعے رسول اکرم ۖ کے مرکزی مقام کو کمزور کرنے اور ختمِ نبوت کے عقیدے پر سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ قادیانی عقائد کو اصل اسلام کے طور پر پیش کرنے یا اسلامی عقائد کے بارے میں الجھن پیدا کرنے کی یہ کوششیں اس وسیع تر عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو امتِ مسلمہ کی وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم، ایسی تمام کوششوں کو نہ صرف مذہبی حلقوں کی جانب سے بلکہ پاکستانی پارلیمان، عدلیہ، اور عام عوام کی طرف سے بھی بھرپور مزاحمت اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگرچہ مسلمان سیاست یا ثقافت میں اختلافات رکھتے ہیں، لیکن ایک بنیادی مسئلے پر وہ مکمل طور پر متحد ہیں اور وہ ہے حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے محبت، عقیدت اور عقیدہ? ختمِ نبوت۔ ایشیا سے لے کر افریقہ، یورپ سے لے کر امریکہ تک، مسلمانوں نے بارہا اس اتحاد کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ پرامن احتجاج، علمی جوابات، قانونی درخواستیں اور بین الاقوامی سفارت کاری—سب ذرائع کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ نبی کریم ۖ کی عظمت اور حرمت کا دفاع کیا جا سکے۔ یہ عالمی اتحاد اس بات کی یاددہانی ہے کہ رسول اکرم ۖ کی شان میں گستاخی کوئی معمولی سیاسی یا قانونی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ مسلم شناخت کی روح پر حملہ ہے۔
قانونی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک ایسے قوانین رکھتے ہیں جو مذہبی جذبات کے تحفظ اور نفرت انگیز تقاریر کی ممانعت کو یقینی بناتے ہیں، جن میں مقدس مذہبی شخصیات کی توہین بھی شامل ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک جیسے جرمنی اور آسٹریا میں اگر کسی شخص نے مذہبی جذبات کو مجروح کیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ بھارت میں بھی تعزیراتِ ہند کی دفعات 295 اور295 اے کے تحت مذہبی برادریوں کے مقدسات اور شخصیات کی توہین کے خلاف تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔


یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے سابقہ فیصلوں میں اُن افراد کی سزاؤں کو برقرار رکھا ہے جنہوں نے حضرت محمد ۖ کی شان میں گستاخی کی تھی، اور ان اقدامات کو نفرت انگیزی پر اُکسانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے آزادی? اظہار کے دائرہ کار سے باہر تصور کیا ہے۔ تاہم، کوئی بھی ملک عقیدہ? ختمِ نبوت کے قانونی تحفظ کے معاملے میں پاکستان جتنا پُرعزم اور دوٹوک نہیں رہا۔ 1974ء میں ایک ملک گیر تحریک اور پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث کے بعد، پاکستان کے آئین میں ترمیم کی گئی جس کے تحت قادیانیوں (احمدیوں) کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
یہ تاریخی فیصلہ مذہبی امتیاز کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اسلام کے اس بنیادی عقیدے — ختمِ نبوت — کے تحفظ کے لیے کیا گیا تھا۔ اگرچہ احمدی جماعت اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے، لیکن ان کے عقائد اس بنیادی اسلامی نظریے سے متصادم تھے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ، جو عوام کی نمائندہ ہے، نے طویل سماعتوں کے بعد یہ طے کیا کہ اس گروہ کا نظریہ اسلام کے متفقہ عقائد سے انحراف کرتا ہے۔ چنانچہ، پاکستان کے آئین میں دوسری آئینی ترمیم کے تحت واضح طور پر یہ شق شامل کی گئی


”جو شخص حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا، وہ آئین اور قانون کی رُو سے مسلمان نہیں ہے۔”
بعد ازاں، 1984 میں آرڈیننس نافذ کیا گیا، جس کے تحت احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے، اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے، یا اپنے عقائد کو اسلام کے طور پر پیش کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ قانون 1993 کے معروف ”ظہیر الدین کیس” میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے برقرار رکھا، جہاں عدالت نے قرار دیا کہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی نظم و ضبط کو قائم رکھنے اور فریب دہی کو روکنے کے لیے مذہبی اظہار پر ضابطہ لگا سکے۔عدالت نے بجا طور پر مشاہدہ کیا کہ مذہبی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی گروہ کسی دوسرے مذہب کی علامات اور عبادات کو غلط طریقے سے پیش کرے یا ان کی نقالی کرے۔


یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ پاکستان کا یہ قانونی مؤقف کسی بھی فرقے یا کمیونٹی کے خلاف نفرت یا تشدد کو ہوا دینے کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی عقائد کے تقدس کے تحفظ کے لیے ایک واضح اور دوٹوک حد کھینچنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے تمام شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، قانون کے تحت مساوی حقوق کے حامل ہیں، لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے کسی مذہب کے بنیادی عقائد کو مسخ کرے۔


حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی حرمت صرف ایک دینی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی، ثقافتی اور سیاسی معاملہ بھی ہے۔ جب کبھی نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے — خواہ وہ گستاخانہ خاکوں، فلموں یا بیانات کی صورت میں ہو — تو پوری دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے جو شدید ردِعمل سامنے آتا ہے، وہ عدم برداشت کی علامت نہیں، بلکہ آپ ۖ سے گہری عقیدت اور محبت کا فطری اظہار ہے۔آزادی? اظہار کے نام پر اس قسم کی اشتعال انگیزی صرف تہذیبوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دیتی ہے اور باہمی غلط فہمیوں کو مزید گہرا کرتی ہے۔


دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ جس طرح یہودی اور عیسائی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے لیے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں، اسی طرح مسلمان اپنے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے کہیں زیادہ گہرا اور محافظانہ تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام کے نبی ۖ نہ صرف آخری رسول ہیں بلکہ سچائی، رحمت اور عدل کا مجسم نمونہ ہیں۔ آپ ۖ کا پیغام آج بھی اربوں لوگوں کے لیے ہدایت کا چراغ ہے، اور آپ ۖ کی حرمت ہر چیز سے زیادہ مقدس ہے۔ لہٰذا دنیا کے ہر کونے میں — چاہے وہ عدالتیں ہوں، عبادت گاہیں، قدیم صحیفے یا اہلِ ایمان کے دل — نبی کریم ۖ کے احترام، عزت اور ختمِ نبوت کو تسلیم کرنا اور محفوظ رکھنا لازم ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک پکار ہے کہ وہ تعصب سے بالاتر ہو کر اُس عظیم ہستی کی حرمت کو پہچانے، جنہوں نے دنیا کے اخلاقی معیار کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد میں چینی مہنگی بیچنے والوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کا بھرپور ایکشن مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی غیرت کے نام پر ظلم — بلوچستان کے المیے پر خاموشی جرم ہے آبادی پر کنٹرول عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق حلف، کورم اور آئینی انکار: سینیٹ انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا اسمبلی کا بحران اور اس کا حل موسم اور انسانی مزاج کا تعلق چینی مافیا: ریاست کے اندر ریاست TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • غزہ میں قحط کی المناک صورت حال لمحہ فکریہ ہے، حاجی حنیف طیب
  • کرایہ
  • نسل کشی کا جنون
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • اسرائیلی فوج نے غزہ میں امداد لینے والے 1000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، اقوامِ متحدہ کا انکشاف
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • مجلس عزاء میں رہبر کی تصویر لانا سیاست نہیں، علامہ حسن ظفر نقوی