WE News:
2025-07-26@15:03:16 GMT

پیارا دشمن                           

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

آج مجھے دفتر سے گھر کے لیے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی تھی، عین چھٹی سے آدھ گھنٹے پہلے سیٹھ صاحب کو مہینوں سے فائلوں میں دبے کچھ ضروری کاغذات اچانک لاہور بھجوانے یاد آگئے، تو چار و ناچار مجھے گھر کے بجائے ڈاک خانے کا رخ کرنا پڑا۔ سردیوں میں شامیں 6 بجے ہی تاریکی کی چادر لپیٹ لیتی ہیں، اسی لیے مَیں سردیوں میں وقت سے تھوڑا پہلے ہی دفتر سے نکل جاتا ہوں اور رستے سے دودھ، ڈبل روٹی اور روزمرہ کا سامانِ ضرورت خریدتا ہوا اندھیرا پھیلنے سے قبل ہی گھر پہنچ جاتا ہوں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا اندھیرے سے پہلے ہی کیوں؟  دراصل کئی سال سے ہماری زندگی گینگ وار اور لسانی فسادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ غنڈہ گردی، اغوا کی وارداتیں، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کر دیا گیا ہے کہ سورج کے ڈھلتے ہی علاقوں میں ایسا سناٹا ہو جاتا جیسے یہاں برسوں سے کوئی آدم زاد پیدا نہ ہوا ہو۔ گلیوں کے مکینوں نے بچاؤ کی خاطر خود ساختہ کرفیو بھی نافذ کر لیا تھا اور بنا سائرن کے گھروں میں محصور ہونے کے اوقات بھی متعین کر لیے تھے۔  زندگی دائروں میں مقید ہو کر رہ گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:علی چوہدری کا 2060 کا اسلام آباد   

’آج سودا سلف نہیں لے پاؤں گا، پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے‘۔میں نے سوچا، اور سرعت سے کاغذات ڈاک خانے میں جمع کروا کر موٹر سائیکل کو ہوا کے دوش پر اڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔

خیر سے وقت پر گھر پہنچ گیا۔

میرے دونوں بچے ’بابا آگئے، بابا آگئے‘ چلاتے ہوئے میرے اردگرد منڈلانے لگے کہ میں روزانہ کی طرح  اپنی جیب سے چاکلیٹ نکال کر ہوا میں لہرا لہرا کر پہلے انہیں ستاؤں گا پھر ان کو گود میں بھر کر اتنی گدگدی کروں گا کہ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔ پھر دونوں کو ایک ایک چاکلیٹ تھما کر زور کی چپت لگا کر، بیوی کو کھانا گرم کرنے کا کہہ کر خود غسل خانے کا رخ کروں گا۔

لیکن آج میرے ہاتھ اور جیب دونوں خالی تھے، نہ ہی میں چائے کا سامان لے پایا نہ بچوں کی دل پشوری کے لوازمات۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میں ہوں کون؟

تو جناب میں اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک قدیم بستی لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں رہنے والا ایک عام سا انسان ہوں، جو روزمرہ کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مسلسل بھاگ رہا ہے،  دوڑ رہا ہے۔

میرا نام کیا ہے؟

بھئی نام میں کیا رکھا ہے آپ مجھے کوئی بھی نام دیں لیں، ہم جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کی کہانی کم وبیش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔

گھاس منڈی کی مین سڑک پر میرا ایک چھوٹا سا گھر ہے جس میں چار نفوس کا ایک کنبہ راضی خوشی قیام پذیر ہے۔ میں،  میری بیوی،  میرا 5 سالہ بیٹا اور 3 سال کی میری ننھی پری۔

یہ بھی پڑھیں:روبی مسیح

ویسے تو میں ایک بلوچ ہوں لیکن گھاس منڈی چونکہ  لیاری کا وہ علاقہ ہے جہاں اردو بولنے والے مہاجروں کی اکثریت ہے، دوسری بڑی آبادی کچھی میمنوں اور مارواڑیوں کی ہے جبکہ تیسری آبادی بلوچوں کی ہے۔ چونکہ بچپن مختلف زبانیں بولنے والوں کی صحبت میں گزرا تو بلوچی کے علاوہ مجھے بیک وقت دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل ہوتا گیا، تاہم اردو ادب اور شاعری سے رغبت نے میری اردو  کو شُستہ ، لہجہ شگفتہ اور بیاں گلفشاں

کردیا تھا۔ اسی لیے اکثر لوگ میرے اہل زبان ہونے پر دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے وقت نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ مہاجروں اور بلوچوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں، بلکہ پیدا کر دی گئیں تھیں۔ جن کے ساتھ برسوں سے محلہ داریاں، دوستی یاریاں تھی،ں وہ آج ایک دوسرے کے دشمن بن چکے تھے۔ برسوں سے رواداری کی میراث سے بھرپور علاقہ عجب نفسانفسی اور تعصبات سے آلودہ ہو چکا تھا۔

جہاں تک میری نوکری کا تعلق ہے تو اپنے میمن سیٹھ کے ایکسپورٹ امپورٹ کے کاروبار میں میری دلچسپی صرف اس حد تک تھی کہ یہ میرے کنبے کی بقا کا ضامن تھا۔ دفتر سے واپس آنے کے بعد چھت پر بنا چھوٹا سا کمرہ میرا گوشہ سکون تھا، جہاں میں ایک سگریٹ سلگا کر کچھ گھنٹے گوشہ نشینی کے گزارتا اور ادبی شہ پاروں اور شاعری سے محظوظ ہوا کرتا تھا۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی زندگی کے بے مقصد جھمیلوں اور بے مصرف بکھیڑوں سے فرار روح کی تسکین کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا دل کے لیے خون کی روانی۔

رات کے 8 بجنے کو آئے تھے، لیکن کھانا کھانے کا من نہیں ہو رہا تھا،  گھر کا ماحول بہت بوجھل تھا اور گھر سے باہر ہُو کا عالم تھا۔ نہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ بیٹے کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور بیگم کو آواز لگائی:

’دروازہ لاک کر لو میں سولجر بازار سے بہاری کباب اور پراٹھے لینے جارہا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں ـ بس یوں گیا اور یوں آیا‘۔

یہ بھی پڑھیں:نقاب

پیچھے سے بیگم کی غصے اور خوف کی ملی جلی آوازیں آتی رہیں لیکن میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے بیٹے کو بائیک کی ٹنکی پر بٹھایا اور موٹر سائیکل کو ہوا سے باتیں کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

گھاس منڈی سے نشتر روڈ کا رستہ پکڑا، ہر جا ویرانی کے ڈیرے تھے۔ نشتر روڈ کراس کرکے چڑیا گھر کے عقب والی سڑک پر ہو لیا کہ یہ شارٹ کٹ راستہ جلدی سولجر بازار پہنچا دے گا۔ سڑک سنسان پڑی تھی اور ماحول پر ایک عجیب وحشت طاری تھی۔

ارے یہ کیا ہوا، بائیک چلتے چلتے جھٹکے لینے لگی۔ میں بار بار کک لگاتا لیکن کچھ دور چل کر وہ پھر جھٹکے لے کر رک جاتی۔ بائیک کا پٹرول خاتمے کے قریب تھا، میں نے بیٹے کو فوراً نیچے اتارا اور  بائیک کو زمین پر پورا لٹا دیا تاکہ بچا کچھا پٹرول بائیک کے حلق کو کم از کم  اتنا تر کر دے کہ میں اور میرا بچہ بحفاظت سولجر بازار پہنچ سکیں۔

دور دور تک نہ بندہ نہ بندہ ذات۔ اب کفِ افسوس مل رہا تھا کہ اپنے چٹورے پن کی خاطر  ناحق اپنی اور اپنی اولاد کی جان کو خطرے میں ڈالا۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے ناگ کی طرح پھن پھیلائے مجھے ڈرا رہے تھے۔

اگر کسی نے اغوا کر لیا تو؟

یا گولی مار دی؟

گھر پر پیچھے رہ جانے والی دو جانوں کا پرسان حال کون ہوگا؟

میرے پرووڈنٹ فنڈز کا کیا بنے گا؟

میرا کھڑوس سیٹھ کہیں میرے پیسے ہی نہ ہڑپ کر جائے۔  میری بیوی کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ میرے بینک اکاؤنٹ کا نمبر کیا ہے؟ اور اس میں  کتنے پیسے ہیں؟

میں مستقبل کی منظر کشی کرتے ہوئے لرز سا گیا۔

ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ دور سے ایک رکشے کی پھٹ پھٹی سی آواز سنائی دی۔ مجھ پر خوشی اور خوف، دونوں جذبات غالب آگئے۔ رکشہ ایک گلی سے نکل کر اب سڑک پر ہماری جانب آ رہا تھا۔

میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ رکشہ والا کوئی بلوچ ہی ہو ورنہ تو مارے گئے آج۔

رکشہ پھڑپھڑاتے ہوئے پرندے کی طرح لہراتا ہوا ہمارے پاس آ کر رک گیا۔

’ہاں بھائی اتنی رات کو کیا ہوریا ہے؟  پھٹپھٹیا بند ہو گئی ہے کیا؟‘

یہ بھی پڑھیں:مادر ملت کی جمہوری جدوجہد

میں سمجھ گیا کہ اگلا اردو اسپیکنگ ہے۔ میں نے شستہ اور رواں اردو میں مدعا بیان کیا۔

’ہاں بھائی گھر میں دودھ ختم تھا اور بچے کی دوا بھی لینی تھی اسی لیے رات کو اس سناٹے میں نکلنا پڑا۔ پتا نہ تھا کہ بائیک میں پٹرول کم ہے۔ بس یہاں پہنچ کر بائیک نے جواب دے دیا‘۔

’او بھیا حالات بہت خراب چل رییے ہیں اور تم کو بچے کے ساتھ رات کو مستی سوجھ رہی ہے۔ یہ کنجر سالے بلوچ چن چن کر مہاجروں کو اغوا کر رہے ہیں۔ کتنوں کو تو مار مور کے ادھر ادھر لڑھکا دیا ہے۔ ان کم بخت بلوچوں نے تو اَپُن کی سالی بینڈ بجا دی ہے‘۔

کشہ ڈرائیور نے پورا زور لگا کر منہ سے پان کی پچکاری ماری۔

’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو بھائی، مجھے پتا ہے کہ ان حالات میں باہر نکلنا موت کے منہ میں جانا ہے۔ بس آپ ایک مہربانی کریں کہ 2-3 کلومیٹر دور پٹرول پمپ سے مجھے تھوڑا پٹرول لا دیں، میں آپ کو پیسے دیے دیتا ہوں‘۔

 یہ کہہ کر میں جیب سے بٹوہ نکالنے لگا۔

’نہیں بھیا حالات مافق نہیں چل رہے۔  ایسے سناٹے میں اکیلے دیکھ کر یہ حرام جادے بلوچ تم دونوں کا ایسا تیا پانچا کریں گے کہ چیل کوے کو بھی  ماس نہ ملینگا۔ چلو تم رکشے کے پیچھے راڈ کو پکڑ لیو میں تمہیں سولجر بازار کے کسی پٹرول پمپ تک چھوڑ دیتا ہوں‘۔

یہ کہہ کر رکشے والے نے ایک ہاتھ سے رکشہ اسٹارٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے رکشے کی پشت پکڑنے کا اشارہ کیا۔

’سالا کب یہ مار کاٹ رُکے گی؟ فالتو میں جانیں لے ریئیں ایک دوسرے کی۔ اندھی مچا رکھی ہے سالے بلوچوں نے‘ ۔۔۔ میں دم سادھے رکشے کے سہارے اپنی بائیک گھسیٹتا رہا، جبکہ رکشے والا پورا رستہ بے نقط بکتا اور لعن طعن کرتا رہا۔ اور بالآخر اس نے بحفاظت مجھے منزل مقصود پر پہنچا دیا اور میں نے سُکھ کا سانس لیا۔

’بھیا احتیاط کریو ورنہ کسی دن فالتو میں بلوچوں کے ہاتھوں جان سے جائیو گے‘۔

میں نے ممنونیت سے اپنے محسن اور اس کے پھٹیچر رکشے کو دیکھا اور جیب سے پیسے نکال کر اس کی جانب بڑھائے۔

’ارے بھیا،  پیسے رکھیو اپنے بٹوے میں۔ جلدی سے کام بھگتائیو اور نکل لیو فوراً گھر کی طرف۔ حالات مافق نہیں چل رہے اَپُن لوگوں کے لیے‘۔

رکشے والے نے پان کا بیڑا اپنے کلّے میں دباتے ہوئے تنبیہہ کی اور دوسرے ہی لمحے اپنا رکشہ موڑا اور پھٹ پھٹاتا ہوا اپنے رستے ہو لیا۔

میں نے آناً فاناً بائیک میں پٹرول بھروایا، کھانا پیک کروایا، چند ضرورت کی چیزیں خریدیں اور موٹر سائیکل ایسی دوڑائی کہ گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔

یہ بھی پڑھیں:خبردار! بھولنے نہ پائیں

بچے چاکلیٹ مزے لے کر کھانے لگے۔ کھانا کھاتے ہوئے میرے ذہن میں اس رکشے والے کی بدزبانیاں سر اٹھنانے لگیں تو وہیں اس کا میری اور میرے بچے کی جان بچانے کا احسان بھی یاد آنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ مختلف قومیتوں کے لوگ کم و بیش ایسی ہی کڑوی کسیلی زبان دوسروں کے خلاف بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ خصلتیں تو ایک ہی ہیں۔

رکشے والے کی گالیاں اس کے احسان تلے دب چکی تھیں۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ مَیں ہڑبونگ میں اپنے دوست نما دشمن کا نام بھی نہیں پوچھ سکا، جو آج رات رکشہ لیے ہمارے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔ اسی لمحے میرے دل سے آواز آئی

‘پیارا دشمن’

میں بہاری کباب کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے زیر لب مسکرانے لگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

بلوچ بہاری سولجر بازار گھاس منڈی گینگ وار لیاری میمن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچ بہاری سولجر بازار گینگ وار لیاری موٹر سائیکل سولجر بازار رکشے والے رہا تھا تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

ایک بھیانک جنگ کا سامنا

اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

دنیا میں ایک خاموش اور بے رحم جنگ جاری ہے۔ سوچ پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ۔ یہ جنگ دماغ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی جنگ ہے اور اس جنگ کا آخری نتیجہ ذہنی سرحدوں پر قبضہ کرنے کے بعد جغرافیائی سرحدوں پر بلاچون و چرا اور بغیر کسی فوجی کارروائی کے قبضہ کرنا ہے۔ اس جنگ میں دشمن ہماری سرزمین کو فتح کرنے کے لیے پہلے ہمارے قلب و ذہن کے دروازے کو عبور کرتا ہے اور اس کے لئے نت نئے ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ آج کی جنگ معلومات، افواہوں اور ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ آج کے اس نئے دور میں قوموں کے ذہنوں اور ادراک کی سرحدوں پر موجود مورچوں کو فتح کرنے کے لیے نظریاتی میزائل اور ڈرونز استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر دشمن کے دل و دماغ کے مورچے فتح ہو جائیں تو ایک بھی گولی چلائے بغیر وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا۔ منصوبہ یہ ہے کہ انگلستان اور امریکہ کے لیڈروں کی رائے تمام دنیا کی رائے بن جائے۔۔۔۔ یہ سوچ اور دماغوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ پر قبضہ ہو جائے تو وہ قوم اپنی سرزمین کو دونوں ہاتھوں سے پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے حوالے کر دیتی ہے۔ سوچ و فکر پر غلبے کے لئے نوجوانوں کے قلب و ذہن کو سب سے پہلے نشانہ پر لیا جاتا ہے۔ تحریف اور بہتان اسی کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ یہ انداز جنگ دشمن کی نفسیاتی کارروائیوں کے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک خفیہ جنگ جس کا مقصد علاقوں پر فوجی قبضہ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو فتح کرنا ہے۔ علمی جنگ، سادہ الفاظ میں، انسانی ادراک، عقیدہ اور فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہے اور متاثر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جنگ میں انسانی دماغ اہم میدان جنگ ہوتا ہے۔

مغربی فوجی ماہرین کے الفاظ میں، ’’انسانی دماغ اکیسویں صدی کا  اصلی میدان جنگ ہے۔‘‘ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے، دشمن طاقتیں ٹارگٹ معاشرے کے خیالات کو اپنی مرضی کی ہدایت دینے کے لیے معلومات، میڈیا اور سائنسی آلات کا استعمال کرتی ہیں۔ نیٹو کے محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیورو سائنس، نفسیات، ڈیٹا مائننگ اور مصنوعی ذہانت میں پیشرفت نہ صرف انسانی ادراک کو فوراً متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے نظریاتی ہتھیاروں کو بھی بے کار بنا سکتی ہے۔ اس کے خیالات، یادوں اور فیصلوں کو اس طرح بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ اسے خود یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ یہ سب فیصلے خود کر رہا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ کو کلاسیکل نفسیاتی جنگ (پروپیگنڈا) سے الگ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں پیغام کے مواد میں براہ راست ہیرا پھیری کرنے کے بجائے مخاطب کے ذہن میں معلومات کو اس طرح منتقل کیا جاتا ہے کہ پیغام موصول کرنے والا اس میں باہر کی مداخلت کو محسوس ہی نہیں کر پاتا۔

دوسرے لفظوں میں، دشمن کے ذہن پر اس کے علم کے بغیر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگلے مرحلے میں اسے ریموٹ کنٹرول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ تزویراتی نقطہ نظر سے، کسی قوم کے ذہن پر قبضہ اس کی سرزمین پر قبضے کا متبادل بھی ہوسکتا ہے۔ نیٹو نے اپنی دستاویزات میں اس علمی جنگ کی تعریف اس طرح کی ہے: "رویوں اور طرز عمل کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں کے ذریعے حقیقت کے ادراک کو تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر معاشرے کے حقائق میں ہیرا پھیری کرنا۔ درحقیقت علمی جنگ میں حقیقت کو مسخ کرنا اور مخالف کو کمزور کرنے کے لیے سچائیوں کو الٹ پلٹ کر بیان کرنا ہے۔ یہ ترقی یافتہ نرم جنگ کسی ملک کے لوگوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سے روکتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے یا نہ چاہتے ہوئے بھی دشمن کے خیالات اور خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے۔

روایتی جنگوں کے برعکس جس کا دائرہ کار محدود اور صرف فوجی مقاصد تک محدود ہوتا ہے، اس جنگ کا دائرہ کار زیادہ وسیع، پائیدار اور پورے معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے۔ یہ پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل سے یہ تصور فوجی میدان سے آگے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ نئی انفارمیشن ٹیکنالوجیز کا ہر صارف علمی جنگ میں ممکنہ ہدف ہے اور یہ جنگ کسی قوم کے تمام انسانی سرمائے کو نشانہ بناتی ہے۔ سیدھے الفاظ میں، آبادی کے تمام افراد، خاص طور پر نوجوان، اس چھپی ہوئی جنگ کی فائر لائن میں ہیں۔ دشمن اپنی علمی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے کلاسک نفسیاتی آپریشنز اور نئی میڈیا ٹیکنالوجیز کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔ ان تمام تکنیکوں کا مشترکہ مقصد براہ راست فوجی تصادم کے بغیر لوگوں کے جذبات اور عقائد کو متاثر کرنا ہے۔

جھوٹ پھیلانا اور حقائق کو مسخ کرنا نفسیاتی آپریشن کے سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک خطاب میں اشارہ کیا ہے کہ افواہوں، جعلی خبروں اور بہتانوں کا ایک سیلاب معاشرے کے فعال ذہنوں بالخصوص نوجوانوں پر اثر انداز ہونے کی نیت سے پیدا کیا اور پھیلایا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سائبر اسپیس میں جھوٹی معلومات اور افواہیں سچ سے کہیں زیادہ تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیلتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ "جھوٹ سچائی سے کافی دور، تیز اور گہرا سفر کرتا ہے۔" اس بات کو افسوس کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں، غلط معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ سچائی کے سامنے آنے سے پہلے رائے عامہ کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے الفاظ میں، جب غلط معلومات زور پکڑ لیتی ہیں تو اس سے پہلے کہ  سچائی مخاطب تک پہنچنے جھوٹ عوام پر اپنا اثر مرتب کرچکا ہوتا ہے۔

کیا اس جنگ کا مقابلہ ممکن ہے۔؟ اس سوال کا جواب رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کے اقتباس میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے نفسیاتی جنگ کے حوالے سے ایران کے بدخواہوں کی چالوں کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی قوم کو مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے بچنے کو اس جنگ کے مقابلے کا اہم ذریعہ قرار دیا اور کہا: شہداء اپنی قربانیوں اور جدوجہد سے اس نفسیاتی جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ناکام بنا دیا۔ لہذا شہداء کے ایام مناتے وقت اس سچائی کو اجاگر کیا جائے اور اسے زندہ رکھا جائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغہ آمیزی کو ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی وہ ہماری قوم کو مختلف طریقوں سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونیوں سے ڈرانے کے حربے استعمال کرتے آرہے ہیں۔

انہوں نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے کمزوری اور تنہائی کے احساس اور دشمن کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو سیاسی میدان میں اس کی طاقت کی وسعت کے اثرات قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ حکومتیں جو آج بڑی اور چھوٹی قوموں کے ساتھ مل کر استکبار کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہیں۔ وہ اپنی قوموں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور دشمن کے کھوکھلی طاقت کا ادراک حاصل کر لیں تو وہ دشمن کو ”آنکھیں“ دکھا سکتی ہیں اور اس کے مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتی ہیں۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمن کی ثقافت سے مرعوب ہونے اور اپنی ثقافت کو حقیر سمجھنے کو ثقافتی میدان میں دشمن کی برتری تسلیم کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی کمزوری کا نتیجہ دوسرے فریق کے طرز زندگی کو قبول کرنے اور یہاں تک کہ اغیار کی زبان کو استعمال کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جگن کاظم نے علیزے شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
  • جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
  • ایک بھیانک جنگ کا سامنا
  • لپ فلرز ختم کرانے کے بعد عرفی جاوید نے نئی تصویر شیئر کردیں، اب کیا حال ہے؟
  • مجھے تینوں بڑی جماعتوں نے آفر دی تھی، مگر میں نے جے یو آئی کا انتخاب کیا، فرخ خان کھوکھر
  • علم ہی نہیں تھا کہ شاہ رخ خان کے ساتھ پرفارم کرنا ہے، ہمایوں سعید نے یادگار واقعہ سنا دیا
  • شاہ رُخ کو گوری یا بالی ووڈ کیرئیر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو کیا کریں گے؟
  • مجھے فی الحال تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں، مجھے 5 اگست کی تحریک کا مومینٹم نظر نہیں آرہا :عمران خان