مشرق وسطیٰ، امن کے امکانات روشن
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
15ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا آغاز ہوگیا ہے، جس سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ یہ جنگ بندی معاہدہ فلسطین میں کئی ماہ سے جاری خونریزی کے خاتمے کی ایک اہم کوشش ہے۔
بلاشبہ بیالیس روزہ امن معاہدے پر اگر اسرائیل عملدرآمد کرتا ہے، تو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے حوالے سے بھی نئے امکانات روشن ہوجائیں گے، عوام پر کیا گزرتی ہے، اس کے مناظر غزہ کے علاوہ یوکرین، غزہ ،لبنان اور یمن میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہوں اور کھانے کے لیے دنیا بَھر سے امداد مانگی جا رہی ہو، تو جنگوں کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔
گو اسرائیل نے خطے کے ممالک کے خلاف مسلسل ایک بڑی جنگ چھیڑ کر غزہ پر اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے عالمی ممالک کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی، تاکہ اس عمل کے دوران وہ ’’عظیم اسرائیل‘‘ بنانے کی خواہش بھی کرے گا جو اس کا ہمیشہ سے خواب رہا ہے لیکن وہ اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کرسکا۔
مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام بڑی طاقتوں کی سیاست اور خطے کے ممالک کے مفادات کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے جس کی بدولت خطے کے لاکھوں مکین مصائب کا شکار ہیں، جب تک انسانی زندگی، انسانی حقوق کا احترام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری نہیں کی جاتی غیر معمولی تباہی کی طرف دنیا کا سفر جاری رہے گا۔ مسئلے کے ایک ریاستی حل کا سراب امن فراہم کرے گا نہ سلامتی۔ درحقیقت آزاد فلسطینی ریاست مسئلے کا مستقل حل ہے۔
پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ اور بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر تنازعات کے حل اور کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ خطے کے عوام، بشمول فلسطین اور لبنان کے شہری، خوف اور تشدد سے آزاد زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
عالمی سطح پر مروجہ ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے جب کہ نیا عالمی توازن قائم ہونا باقی ہے۔ امریکا، تیزی سے عالمی منظر نامے میں عالمی قوت کے طور پر ابھرنے والے چین اور دوبارہ عالمی طاقت بننے کے خواہاں روس سے طاقت کے حصول میں کوشاں ہے۔ امریکا جسے عسکری صلاحیتوں کے اعتبار سے واضح برتری حاصل ہے، کوشش کرے گا کہ چین کو ایک تنازع کا حصہ بنائے تاکہ چین نے جو معاشی اور عسکری استحکام حاصل کیا ہے، وہ اسے گنوا دے۔ ماسکو کو یوکرین میں الجھا دینے کے بعد واشنگٹن دو عالمی تنازعات جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان یا مشرقِ وسطیٰ میں سے ایک میں چین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔
امریکا کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود چین نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کے تنازع سے گریز کیا ہے۔ چین مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں بھی ملوث ہونے سے اجتناب کررہا ہے جب کہ اس کے بجائے چین نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد اور اس سے قبل ایران، سعودی سفارتی مفاہمت میں ثالثی کا کردار ادا کرکے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایران، امریکا اور تمام عرب ممالک نہیں چاہتے کہ خطے میں بڑی پیمانے پر جنگ ہو کیونکہ ایسی جنگ کے خطے اور اس سے باہر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک چین کی شمولیت کی بات ہے، اس کی ہمیشہ سے یہی ترجیح رہی ہے کہ وہ کسی ایسی جنگ کا حصہ نہ بنے جو اس کی قومی ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بن سکتی ہو۔
درحقیقت جنگ کی سب سے بڑی قیمت اقتصادی طور ہی پر ادا کرنی پڑتی ہے، جو عوام ادا کرتے ہیں کہ عوام جان سے بھی جاتے ہیں اور اُن کے گھر بار، روزگار بھی تباہ ہوتے ہیں، صرف ایک سال کی جارحیت نے اسرائیل کو تقریباً 59ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا، جب کہ اس کی کُل سالانہ آمدنی530 ارب ڈالرز ہے۔
یہ اس کی طویل ترین جنگ ہے، ورنہ وہ ہمیشہ اپنی جنگیں دنوں اور ہفتوں میں نمٹاتا رہا ہے۔ اِس سال بَھر کی جنگ سے اِس کی ترقی کی رفتار کم ہوئی۔ خاص طور پر ہیومن ریسورسز پر بہت دباؤ پڑا ہے، جو پہلے ہی بہت کم ہے۔ اسرائیل کی کُل آبادی نوے لاکھ ہے۔ اُسے جنگ میں ریزرو فوجیوں کو بھی بُلانا پڑا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو صنعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی، ٹیکنیکل اداروں اور کاروبار سے منسلک ہیں، جن پر اسرائیل کی ترقی کا دارومدار ہے۔ ایسے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک بتائی جاتی ہے، اب اِتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کی جنگ میں شمولیت اور اِتنے لمبے عرصے تک اپنے اصل کام کاج چھوڑنے سے مختلف شعبے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
اِن دنوں اکانومی وار، ملٹری سائنس کا ایک اہم ترین سبجیکٹ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی بار مُلک، جنگیں جیت کر اور ممالک پر قبضے کر کے بھی ہار جاتے ہیں، کیوں کہ وہ اقتصادی طور پر اُنھیں سنبھال نہیں پاتے۔ اِس ضمن میں برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس کی حُکمرانی میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ کی فتح کے باوجود، وہ ہار گیا اور اُسے اپنی تمام نوآبادیاں آزاد کرنی پڑیں۔ وجہ یہ ہے کہ اقتصادی طور پر انھیں اپنے قابو میں رکھنا اُس کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔ جیسا کہ یوکرین میں جنگ جاری ہے، جس میں ایک بڑی عالمی طاقت اور ویٹو پاور، روس براہِ راست ملوث ہے۔ دوسری طرف غزہ ، لبنان، شام اور یمن میں جو فوجی تصادم ہو رہے ہیں، اُن میں امریکا اور یورپ، اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
یہ بات تو کُھل کر سامنے آ چُکی ہے کہ ایران ہو یا اسرائیل یا پھر اُن کے اتحادی، کوئی بھی بڑی جنگ نہیں چاہتا۔ یہ بات بھی بار بار ذہن میں آتی ہے کہ کیا یہ بڑی طاقتیں بھی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنا کوئی خاص ایجنڈا رکھتی ہیں؟ دوسری جانب ایران اور اسرائیل کی دشمنی کے درمیان جو ایک پردہ سا تھا، وہ بھی اب ہٹ چُکا ہے۔ پہلے ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے اسرائیل سے زور آزمائی کر رہا تھا اور اب دونوں ایک دوسرے پر براہِ راست حملے کررہے ہیں، گو مقامی اور عالمی رہنماؤں کو بھی سخت تشویش لاحق ہے، لیکن وہ صُورتِ حال میں بہتری کے لیے کچھ کر بھی نہیں رہے اور یہ بہت اچنبھے کی بات ہے۔ پہلے سب امریکا کو کوستے تھے، اب سمجھ نہیں آتا کہ روس، چین اور یورپ کیا کر رہے ہیں؟ وہ مغربی ممالک جو فخریہ انداز میں عالمی انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو اس کا درس دیتے ہیں، وہ بھی غزہ کی نسل کشی پر چپ سادھے رہے۔ تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر امریکا اور دیگر یورپی ممالک اسرائیل کی اس قدر مضبوط حمایت کیوں کررہے ہیں؟ یہ اشاریے مل رہے ہیں کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ کھونے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے جو اس نے کئی سالوں میں اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کے ذریعے حاصل کیا ہے۔
علاقائی سطح پر ایران جب کہ عالمی سطح پر روس اور چین امریکا کے اثر و رسوخ کو سخت مقابلہ دے رہے ہیں۔ اسرائیل اب بھرپور کوشش کررہا ہے کہ وہ ایران کو اپنے ساتھ جنگ میں الجھا دے جس کا اصل مقصد ایران کو قابو میں کرنا ہوگا جوکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی تسلط کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم ایران کو شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اپنی حالیہ انٹیلی جنس ناکامیوں کے باوجود وہ عراق سے شام، لبنان تک، علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یمن کے معاملے پر تنازعات کے باوجود ایران سعودی عرب کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات کا خواہاں ہے۔ یہ سب اسرائیل کے لیے اچھی خبر نہیں۔ اسرائیل کی جانب سے پہلے بھی ایران کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جب اس نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر میزائل حملہ کیا۔
اس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی بھی کی تھی لیکن یہ کشیدگی، جنگ میں تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت امریکا تصادم کی صورت میں جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔اسمعٰیل ہنیہ کی شہادت کی حالیہ پیش رفت ایران کو جنگ کے لیے اُکسانے کی دوسری اسرائیلی کوشش ہے اور اسے گمان ہے کہ امریکی حمایت کی بدولت وہ یہ جنگ جیت بھی سکتا ہے۔ اسرائیل کے لیے مایوس کُن یہ تھا کہ امریکا اور ایران دونوں ہی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر جنگ سے اجتناب برتے ہوئے ہیں۔تارکینِ وطن اور اس سے جڑے مسائل خود بخود پیدا نہیں ہوئے، لوگ اِتنے پاگل تو نہیں ہیں کہ بغیر کسی وجہ کہ اپنا ملک چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھاتے پِھریں۔ غزہ، پھر لبنان اور اب براہِ راست ایران اور اسرائیل میں فوجی تصادم، عالمی طاقتوں کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دونوں بڑی طاقتوں، امریکا اور روس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب جنگوں کو خیرباد کہہ دیا جائے اور تمام ممالک کی توجہ اپنے عوام کی خوش حالی پر ہو۔ ’’سرد جنگ‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی، چھوٹے اور کم زور مُلک ایک دوسرے سے لڑتے اور تباہ ہوتے رہے۔اِن میں تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ بڑی طاقتیں ہوں یا یورپ اور دیگر اہم خطوں کے ممالک، اب ان میں سے کوئی بھی جنگوں میں اُلجھنا نہیں چاہتا، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی، جو بار بار فوجی تصادم کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اِس ساری کمٹ منٹ پر پانی پھیر دیتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل کی کے باوجود میں اپنا ایران کو رہے ہیں ہے کہ ا اور اس کے لیے کیا ہے خطے کے
پڑھیں:
فلسطین سے دکھائوے کی محبت
58 سالوں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پر طاقت کے زور پر قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے یہودی ملک اسرائیل نے حالیہ 17 مہینوں میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنی بربریت بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ وحشیانہ بربریت سے شہید اور غزہ سمیت فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کے رہائشی علاقوں، عمارتوں، تعلیمی اداروں، امدادی کیمپوں کو ہی ملبے کے ڈھیر میں نہیں بدلا بلکہ غزہ کا آخری اسپتال بھی اپنی بم باری سے تباہ کر دیا اور مریضوں کو جبری طور پر باہر نکال کر فلسطین میں کوئی ایسی جگہ تک نہیں چھوڑی کہ لاکھوں فلسطینی کہیں اپنا علاج ہی کرا سکیں۔
جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھی غزہ میں اسرائیلی بربریت رکنے میں نہیں آ رہی۔ تیس فیصد علاقے پر اسرائیل قبضہ کرچکا اور اسرائیلی وزیر دفاع واضح کرچکا ہے کہ کوئی انسانی امداد غزہ میں داخل نہیں ہونے دی جائے گی اور ہماری فوج زیر قبضہ علاقوں میں غیر معینہ مدت تک موجود رہے گی۔ غزہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً تباہ ہو چکا اور اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے اب تک بچ جانے والوں تک اسرائیل اب غذا اور ادویات تک پہنچنے نہیں دے رہا جس پر فرانسیسی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی تکالیف کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر اسرائیلی بربریت کی مذمت میں متفقہ قرارداد منظور کر لی جس میں حسب روایت اسرائیل پر کڑی تنقید کی گئی۔ ارکان نے لمبی چوڑی مذمتی تقاریر کیں اور حکومت نے حسب معمول فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا اور ہر ممکنہ امداد و تعاون کا بھی یقین دلایا مگر یہ امداد، خوراک، خیمے، ضرورت زندگی کی اشیا، ادویات وغیرہ متاثرین تک پہنچیں گی کیسے؟ یہ اہم سوال ضرور ہے جس کا حل حکومت، پارلیمنٹ ملک کے عوام سمیت کسی کے پاس نہیں ہے سب بے بس و مجبور ہیں صرف مذمت پر ہی اکتفا ہے۔
رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ہمارے ارب پتی ارکان پارلیمنٹ نے فلسطین کی ایک ٹکے کی بھی مدد نہیں کی اور حکومت نے بھی متاثرین فلسطین کی کوئی مدد نہیں کی۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کے ارکان فلسطین کی محبت میں مرے جا رہے ہیں اور ان کی ہمدردی میں بڑی تقاریر کے ساتھ بعض پر کڑی تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے تو یہ سچ بھی کہہ دیا کہ اسرائیل کے 80 لاکھ یہودیوں سے زیادہ تعداد میں ہمارے ملک میں علمائے کرام موجود ہیں جو فلسطینیوں کے لیے دعائیں اور اسرائیل کے لیے بددعائیں کر رہے ہیں مگر دعا اثر ہی نہیں کر رہی۔
ملک میں مذہبی جماعتیں اور فلسطینی مسلمانوں کے بے بس ہمدرد الگ الگ بڑی بڑی ریلیاں اسرائیل کے خلاف سخت گرمی میں نکال کر فلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی اور اظہار یکجہتی کر رہے ہیں جہاں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں لاکھوں لوگ نعرے لگاتے ہیں۔ اسرائیلی پرچم پیروں تلے روند کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جماعت اسلامی نے شارع فیصل پر اور جے یو آئی نے شاہراہ قائدین پر بڑی بڑی ریلیاں نکال کر اسرائیل سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ فلسطینیوں کی امداد کی اپیلیں بھی ہوئیں جن میں لوگوں نے دل کھول کر عطیات بھی دیے۔ بعض جماعتوں نے امدادی سامان جمع کرکے بھجوایا بھی مگر اسرائیلی وزیر دفاع نے سنگدلی سے کہہ دیا کہ فلسطین کے مسلمانوں اور زخمیوں تک کوئی بیرونی امداد پہنچنے ہی نہیں دی جائے گی۔ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر میں غیر مسلم بھی فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکال رہے ہیں مگر اسرائیل اور اس کے بڑے حمایتی امریکا پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
مسلمان غیر مسلموں خصوصاً امریکا، برطانیہ، فرانس جو ایٹمی طاقت ہیں اور یورپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے یہاں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں وہاں تو وہ اپنے کتوں کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں تو کیا عشروں سے اسرائیل کی وحشیانہ بربریت کا شکار اور زیر عتاب فلسطینی مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جنھیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا جا چکا اور باقی بچے ہوئے زخمیوں اور تباہ و برباد متاثرین غزہ تک اسرائیل دوائیں اور خوراک بھی پہنچنے نہیں دے رہا اور انسانی حقوق کے دعویدار اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ مل کر بھی اسرائیلی وحشت پر آواز بلند نہیں کر رہے اور انھیں بے گناہ مسلمانوں کے مقابلے میں امریکی ٹیرف کے مقابلے کی زیادہ فکر ہے مسلمانوں کا خون بہتا ہے تو بہتا رہے کیونکہ عرب دنیا اور مسلم ممالک بھی اپنے ان بھائیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں تو انھیں کیا پڑی کہ مسلمانوں کو جینے کا حق ہی دلا سکیں۔
مسلم عوام دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت پر سراپا احتجاج اور مسلمان ممالک خود کو بے بس سمجھ کر خاموش ہیں اور جو مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے وہ بھی سفارتی سطح پر اسرائیل کو اس کی بربریت پر نہیں روک رہے اور ہر ایک صرف اپنے بچاؤ میں مصروف ہے کہ اسرائیل انھیں بھی اپنی جارحیت کا نشانہ نہ بنا دے۔
پاکستان کے عوام جہاد کی حمایت میں فتویٰ دے چکے مگر ہماری حکومت بھی دوسروں کی طرف فلسطینیوں سے دکھاؤے کی محبت اور بیانات پر اکتفا کیے ہوئے ہے جس کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی جیب سے فلسطین کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں نکالا جب کہ اب حکومت نے انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں بھی بڑھا دی ہیں۔ مساجد میں علما بیانات دے رہے ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے لڑنے جا نہیں سکتے۔ امداد کے لیے عطیات دیں تو وہ وہاں پہنچنے نہیں دی جا رہی تو علما کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ یہودی و نصرانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے انھیں مالی نقصان پہنچائیں۔ مسلمان عوام تو بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں مگر عرب و مسلم ممالک اور ان کے سربراہ اپنے ممالک کے عوام کو اسرائیل کے خلاف غصے کا اظہار بھی نہیں کرنے دے رہے۔