Express News:
2025-09-18@13:16:22 GMT

سزا کے بعد احتجاج کیوں نہیں ہوا

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

بانی تحریک انصاف کو 190ملین پاؤنڈ میں سزا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔ فیصلے کے بار بار ملتوی ہونے اور مذاکرات نے ایک ماحول ضرور بنایا تھا کہ کچھ طے ہو رہا ہے ۔ اس لیے فیصلے ملتوی کیے جا رہے ہیں۔پھر بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات ہوگئی۔

اس ملاقات کو بانی تحریک انصاف نے خوش آیند قرار دیا ۔ ایک ماحول بن گیا کہ بات ہو گئی ہے۔ بیک چینل مذاکرات کی بھی بہت بات چل رہی تھی۔ پھر حکومت سے بھی بات چل رہی تھی۔ ایسے میں ایک ماحول بنایا گیا کہ شاید سزا نہ ہو تاہم دوسری طرف یہ بات بھی تھی کہ سزا پکی ہے۔ کیس میں بہت جان ہے، اس لیے سزا ہو ہی جانی ہے۔

تا ہم میری رائے یہی تھی کہ سزا ہوگی۔ مجھے بیک چینل بھی ایک فاؤل ہی لگ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ سزا ہوگی۔ مجھے مذاکرات کی کامیابی کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ ابھی مفاہمت کا کوئی ماحول نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا چارٹر آف ڈیمانڈ دیکھ کر بھی لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا بریک تھرو ممکن نہیں۔ مجھے ڈیڈ لاک ہی نظر آرہا تھا۔ شاید بیرسٹر گوہر کی ملاقات کو بھی غلط رنگ دیا گیا۔ اس ملاقات کے ذریعے اسٹبلشمنٹ سے بریک تھرو کا ماحول بنایا گیا جو غلط تھا۔

سزا ہو گئی مجھے اندازہ تھا کہ سزا کے بعد تناؤ اور کشیدگی بڑھے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سزا کے بعد ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ احتجاج کی کوئی کال بھی نہیں دی گئی۔ مذاکرات کے خاتمہ کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن بہر حال کشیدگی بڑھی ہے۔ یہ درست ہے کہ پورے ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا ہے۔

لیکن میرا موقف ہے کہ جب ملک کے اتنے مقبول لیڈر کو چودہ سال سزا ہو جائے تو احتجاج کی کوئی کال دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو خود ہی نکلنا چاہیے تھا۔ عوامی غصہ کسی کال کا محتاج نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے طورپر خود ہی اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔

اگر تحریک انصاف کا موقف ہے کہ نو مئی کی گرفتاری پر لوگوں نے خود ہی اپنے طور پر غصہ کا اظہار کیا تھا۔ ایسی کوئی کال نہیں تھی تو پھر چودہ سال سزا کے بعد بھی عوامی غصہ نظر آنا چاہیے۔ ملک میں کہیں کسی ایک جگہ کوئی چھوٹا بڑا احتجاج ہونا چاہیے تھا۔

چلیں پنجاب میں سختی کی وجہ سے لوگ نہیں نکلتے۔ کے پی میں بھی کوئی عوامی احتجاج نظر نہیں آیا، کے پی میں تو احتجاج کی کھلی اجازت ہے۔ کوئی نہیں روکتا۔ کوئی گرفتاری نہیں ہوتی۔پھر کے پی میں بھی کوئی نہیں نکلا۔ سزا کے بعد اس قدر خاموشی اور امن یقیناً کوئی نیا پیغام دے رہا ہے۔ کیا تحریک انصاف کے اندر سے احتجاجی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے، لوگ اب احتجاج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد پر چڑھائی کی جو متعدد کال دی گئی ہیں، ان سب کے بارے میں تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی یہی رائے رہی کہ یہ سب احتجاج کے پی کی حکومت کی طاقت پر کیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کے پی کی حکومت کی طاقت سے کیا جاتا ہے۔ لوگ خود اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے نہیں آتے ، لائے جاتے ہیں۔

اسلام آباد پر چڑھائی کروائی جاتی ہے، ہوتی نہیں ہے۔اب سزا والے دن حکومت کا اعتماد بھی چیک کریں۔کہیں کوئی گرفتاری نہیں کی گئی، کہیں کوئی کنٹینر نہیں لگایا گیا، کوئی راستہ نہیں بند کیا گیا، کوئی سڑک نہیں بند کی گئی، کوئی دفعہ 144نہیں لگائی گئی۔ شاید حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔ لوگ سزا پر کوئی عوامی رد عمل نہیں دیں گے، سب پر امن رہے گا اور سب پر امن رہا۔

اس کو کیا سمجھا جائے۔ کیا یہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اور حکومت کے موقف کی توثیق نہیں کہ لوگ نہیں نکلتے انھیں کے پی حکومت کے سر پر نکالا جاتا ہے۔ پنجاب میں امن تو قابل دید تھا ہی ۔ لیکن کے پی کا امن تو قابل دید سے بھی آگے کی کوئی چیز تھا۔ کراچی بھی پر امن رہا، وہاں بھی تحریک انصاف مقبولیت کی دعویدار ہے۔ لیکن وہاں بھی کوئی نہیں نکلا سب پر امن رہا۔

ویسے تو سننے میں آیا ہے کہ سزا کے دو دن بعد جو کور کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔اس میں بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ کور کمیٹی کے ممبران ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالی گئی کہ آپ کی وجہ سے احتجاج نہیں ہوا۔ سب احتجاج نہ ہونے پر پریشان ہوئے۔ تاہم کور کمیٹی کے لوگوں کے پاس احتجاج نہ ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ بس سوال موجود تھا کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔

لیکن اس سب کے بعد آٹھ فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلا ن بھی موجود ہے۔ اب آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کا اعلان کیا گیا۔ بانی تحریک انصاف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کے پی سے تمام قافلے آٹھ فروری کو پشاور پہنچیں ۔ میرے لیے یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کی ہدائت کی گئی ہے۔ اسلام آباد کی کال نہیں دے گئی پورے ملک سے قافلوں کو نہیں بلایا گیا۔ صرف کے پی سے قافلوں کو پشاور آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اب آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کے اعلان کو بھی سیاسی طورپر کمزور اعلان ہی تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال موجود ہے۔

کیا اسلام آباد کی کال نہ دینا کمزوری کی نشانی ہے۔ یا اس میں کوئی مفاہمت کا پیغام ہے۔ کیا بیک چینل چل رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد پر چڑھائی کی کوئی کال نہیں دی گئی یا آخری فائنل کال کے نتائج کے بعد اسلام آباد کال نہیں دی گئی۔

سزا کے بعد وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی بانی تحریک انصاف سے طویل ملاقات ہوئی۔ یقیناً ان سے آٹھ فروری کے یوم سیاہ پر مشاورت ہوئی ہوگی۔ ایک اندازہ ہے کہ گنڈا پور اب اسلام آباد پر مزید چڑھائی کے حق میں نہیں ہیں، اس لیے اسلام آباد کی کال نہیں دی گئی۔ جہاں تک پشاور میں جلسہ کی بات ہے وہاں احتجاج کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں، یہ مفاہمت کا احتجاج سمجھا جائے۔

بہر حال ایک رائے یہ بھی ہے کہ ابھی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ جب تک امریکا سے اشارہ نہیں آئے گا۔ پاکستان میں حالات خراب نہیں کیے جائیں گے۔ سزا کے بعد امریکا سے بھی کوئی خاص رد عمل نہیں آیا۔ رچرڈ گرنیل کا بھی کوئی ٹوئٹ نہیں آیا۔ اس لیے رائے یہی ہے کہ جب تک امریکا سے اشارہ نہیں آئے گا، اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے آٹھ فروری کو اعلان نہیں کیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: احتجاج کیوں نہیں ہوا بانی تحریک انصاف پشاور میں جلسہ احتجاج نہیں نہیں دی گئی سزا کے بعد احتجاج کی بھی کوئی نہیں تھی کال نہیں کوئی کال کے بعد ا کیا گیا نہیں کی کی کوئی رہا تھا ہے کہ ا کہ سزا تھا کہ اس لیے سزا ہو کی گئی رہا ہے کال نہ نہیں ا

پڑھیں:

بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 

کراچی:

’’یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘  جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز  ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو  ٹیم منیجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔

تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کے لیے  ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور  ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کو جانے کا کہہ دیا، انہیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا، بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ  آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔

 چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو  انہیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا، اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بیحد منفی رہا، بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے، اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔

 نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا، پی سی بی نے  سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔

 پائی کرافٹ  کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہوگی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ  کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے، شاید آئی پی ایل  میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے، پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا۔

 البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟ کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جا رہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا، ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی۔

 جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں،  جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے  سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے، ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم  ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی  پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرنا ہے  تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔

 اب  یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں، البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے، ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟ ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز  کوئی فائٹ تو کرتے، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟۔

آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے، پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا، فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل رائونڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان  کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا۔

 صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا، بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آئوٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے، یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔

 کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت  نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ڈی چوک احتجاج کیس میں علیمہ خان کی عبوری ضمانت میں توثیق
  • اٹک فیلکن سیمنٹ کمپنی انتظامیہ کی من مانیاں عروج پر،ملازمین سراپا احتجاج
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • اسلام آباد: 26 نومبر احتجاج کیس میں 11 گرفتار ملزمان پر فردِ جرم عائد
  • پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • 26 نومبر احتجاج کیس،عامرکیانی ، عمران اسماعیل کی بریت درخواستوں پر سرکار کو نوٹس
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین