سزا کے بعد احتجاج کیوں نہیں ہوا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
بانی تحریک انصاف کو 190ملین پاؤنڈ میں سزا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔ فیصلے کے بار بار ملتوی ہونے اور مذاکرات نے ایک ماحول ضرور بنایا تھا کہ کچھ طے ہو رہا ہے ۔ اس لیے فیصلے ملتوی کیے جا رہے ہیں۔پھر بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات ہوگئی۔
اس ملاقات کو بانی تحریک انصاف نے خوش آیند قرار دیا ۔ ایک ماحول بن گیا کہ بات ہو گئی ہے۔ بیک چینل مذاکرات کی بھی بہت بات چل رہی تھی۔ پھر حکومت سے بھی بات چل رہی تھی۔ ایسے میں ایک ماحول بنایا گیا کہ شاید سزا نہ ہو تاہم دوسری طرف یہ بات بھی تھی کہ سزا پکی ہے۔ کیس میں بہت جان ہے، اس لیے سزا ہو ہی جانی ہے۔
تا ہم میری رائے یہی تھی کہ سزا ہوگی۔ مجھے بیک چینل بھی ایک فاؤل ہی لگ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ سزا ہوگی۔ مجھے مذاکرات کی کامیابی کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ ابھی مفاہمت کا کوئی ماحول نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا چارٹر آف ڈیمانڈ دیکھ کر بھی لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا بریک تھرو ممکن نہیں۔ مجھے ڈیڈ لاک ہی نظر آرہا تھا۔ شاید بیرسٹر گوہر کی ملاقات کو بھی غلط رنگ دیا گیا۔ اس ملاقات کے ذریعے اسٹبلشمنٹ سے بریک تھرو کا ماحول بنایا گیا جو غلط تھا۔
سزا ہو گئی مجھے اندازہ تھا کہ سزا کے بعد تناؤ اور کشیدگی بڑھے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سزا کے بعد ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ احتجاج کی کوئی کال بھی نہیں دی گئی۔ مذاکرات کے خاتمہ کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن بہر حال کشیدگی بڑھی ہے۔ یہ درست ہے کہ پورے ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا ہے۔
لیکن میرا موقف ہے کہ جب ملک کے اتنے مقبول لیڈر کو چودہ سال سزا ہو جائے تو احتجاج کی کوئی کال دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو خود ہی نکلنا چاہیے تھا۔ عوامی غصہ کسی کال کا محتاج نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے طورپر خود ہی اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔
اگر تحریک انصاف کا موقف ہے کہ نو مئی کی گرفتاری پر لوگوں نے خود ہی اپنے طور پر غصہ کا اظہار کیا تھا۔ ایسی کوئی کال نہیں تھی تو پھر چودہ سال سزا کے بعد بھی عوامی غصہ نظر آنا چاہیے۔ ملک میں کہیں کسی ایک جگہ کوئی چھوٹا بڑا احتجاج ہونا چاہیے تھا۔
چلیں پنجاب میں سختی کی وجہ سے لوگ نہیں نکلتے۔ کے پی میں بھی کوئی عوامی احتجاج نظر نہیں آیا، کے پی میں تو احتجاج کی کھلی اجازت ہے۔ کوئی نہیں روکتا۔ کوئی گرفتاری نہیں ہوتی۔پھر کے پی میں بھی کوئی نہیں نکلا۔ سزا کے بعد اس قدر خاموشی اور امن یقیناً کوئی نیا پیغام دے رہا ہے۔ کیا تحریک انصاف کے اندر سے احتجاجی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے، لوگ اب احتجاج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد پر چڑھائی کی جو متعدد کال دی گئی ہیں، ان سب کے بارے میں تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی یہی رائے رہی کہ یہ سب احتجاج کے پی کی حکومت کی طاقت پر کیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کے پی کی حکومت کی طاقت سے کیا جاتا ہے۔ لوگ خود اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے نہیں آتے ، لائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد پر چڑھائی کروائی جاتی ہے، ہوتی نہیں ہے۔اب سزا والے دن حکومت کا اعتماد بھی چیک کریں۔کہیں کوئی گرفتاری نہیں کی گئی، کہیں کوئی کنٹینر نہیں لگایا گیا، کوئی راستہ نہیں بند کیا گیا، کوئی سڑک نہیں بند کی گئی، کوئی دفعہ 144نہیں لگائی گئی۔ شاید حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔ لوگ سزا پر کوئی عوامی رد عمل نہیں دیں گے، سب پر امن رہے گا اور سب پر امن رہا۔
اس کو کیا سمجھا جائے۔ کیا یہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اور حکومت کے موقف کی توثیق نہیں کہ لوگ نہیں نکلتے انھیں کے پی حکومت کے سر پر نکالا جاتا ہے۔ پنجاب میں امن تو قابل دید تھا ہی ۔ لیکن کے پی کا امن تو قابل دید سے بھی آگے کی کوئی چیز تھا۔ کراچی بھی پر امن رہا، وہاں بھی تحریک انصاف مقبولیت کی دعویدار ہے۔ لیکن وہاں بھی کوئی نہیں نکلا سب پر امن رہا۔
ویسے تو سننے میں آیا ہے کہ سزا کے دو دن بعد جو کور کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔اس میں بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ کور کمیٹی کے ممبران ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالی گئی کہ آپ کی وجہ سے احتجاج نہیں ہوا۔ سب احتجاج نہ ہونے پر پریشان ہوئے۔ تاہم کور کمیٹی کے لوگوں کے پاس احتجاج نہ ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ بس سوال موجود تھا کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔
لیکن اس سب کے بعد آٹھ فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلا ن بھی موجود ہے۔ اب آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کا اعلان کیا گیا۔ بانی تحریک انصاف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کے پی سے تمام قافلے آٹھ فروری کو پشاور پہنچیں ۔ میرے لیے یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کی ہدائت کی گئی ہے۔ اسلام آباد کی کال نہیں دے گئی پورے ملک سے قافلوں کو نہیں بلایا گیا۔ صرف کے پی سے قافلوں کو پشاور آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اب آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کے اعلان کو بھی سیاسی طورپر کمزور اعلان ہی تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال موجود ہے۔
کیا اسلام آباد کی کال نہ دینا کمزوری کی نشانی ہے۔ یا اس میں کوئی مفاہمت کا پیغام ہے۔ کیا بیک چینل چل رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد پر چڑھائی کی کوئی کال نہیں دی گئی یا آخری فائنل کال کے نتائج کے بعد اسلام آباد کال نہیں دی گئی۔
سزا کے بعد وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی بانی تحریک انصاف سے طویل ملاقات ہوئی۔ یقیناً ان سے آٹھ فروری کے یوم سیاہ پر مشاورت ہوئی ہوگی۔ ایک اندازہ ہے کہ گنڈا پور اب اسلام آباد پر مزید چڑھائی کے حق میں نہیں ہیں، اس لیے اسلام آباد کی کال نہیں دی گئی۔ جہاں تک پشاور میں جلسہ کی بات ہے وہاں احتجاج کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں، یہ مفاہمت کا احتجاج سمجھا جائے۔
بہر حال ایک رائے یہ بھی ہے کہ ابھی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ جب تک امریکا سے اشارہ نہیں آئے گا۔ پاکستان میں حالات خراب نہیں کیے جائیں گے۔ سزا کے بعد امریکا سے بھی کوئی خاص رد عمل نہیں آیا۔ رچرڈ گرنیل کا بھی کوئی ٹوئٹ نہیں آیا۔ اس لیے رائے یہی ہے کہ جب تک امریکا سے اشارہ نہیں آئے گا، اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے آٹھ فروری کو اعلان نہیں کیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: احتجاج کیوں نہیں ہوا بانی تحریک انصاف پشاور میں جلسہ احتجاج نہیں نہیں دی گئی سزا کے بعد احتجاج کی بھی کوئی نہیں تھی کال نہیں کوئی کال کے بعد ا کیا گیا نہیں کی کی کوئی رہا تھا ہے کہ ا کہ سزا تھا کہ اس لیے سزا ہو کی گئی رہا ہے کال نہ نہیں ا
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کے لیے اسلام اور عربی زبان کی تعلیم لازمی کیوں قرار دی گئی؟
اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) نے انٹیلی جنس ونگ کے تمام فوجیوں اور افسران کے لیے عربی زبان اور اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دے دی ہے۔
بھارتی میڈیا یروشلم پوسٹ کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اقدام 7 اکتوبر 2023 کے انٹیلی جنس ناکامی کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’ آپریشنل واقعہ‘، شمالی غزہ میں 8 اسرائیلی فوجی زخمی
نئی تربیت کا مقصد انٹیلی جنس اسٹاف کی تجزیاتی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ہے۔ آئندہ سال کے اختتام تک اسرائیلی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جسے عبرانی میں ’آمان‘ کہا جاتا ہے) کے تمام اہلکار اسلامیات کی تعلیم حاصل کریں گے، جب کہ ان میں سے 50 فیصد عربی زبان کی تربیت بھی لیں گے۔
یہ تبدیلی آمان کے سربراہ میجر جنرل شلومی بائنڈر کے حکم پر کی جا رہی ہے۔
تربیتی پروگرام میں حوثی اور عراقی لہجوں کی خصوصی تربیت بھی شامل ہوگی، کیونکہ انٹیلی جنس اہلکاروں کو حوثیوں کی مواصلاتی زبان سمجھنے میں دشواری کا سامنا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یمن اور دیگر عرب علاقوں میں سماجی طور پر چبائے جانے والے ہلکے نشہ آور پودے ’قات‘ کے استعمال سے بولنے میں ابہام پیدا ہوتا ہے، جس سے گفتگو کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی فوج کے لیے دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی فیکٹری ہیک کر لی گئی
آمان کے ایک سینیئر افسر نے آرمی ریڈیو کو بتایا کہ اب تک ہم ثقافت، زبان اور اسلام کے شعبوں میں کافی اچھے نہیں تھے۔ ہمیں ان میدانوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
سینیئر افسر کےمطابق ہم اپنے فوجیوں کو عرب دیہاتی بچوں میں تو نہیں بدل سکتے، لیکن زبان اور ثقافت کی تعلیم کے ذریعے ہم ان میں شک، مشاہدہ اور گہرائی پیدا کر سکتے ہیں۔
آرمی ریڈیو کے ملٹری رپورٹر دورون کادوش کے مطابق عربی اور اسلامیات کی تعلیم کے لیے ایک نیا شعبہ قائم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہIDF نے TELEM نامی اس تعلیمی شعبے کو دوبارہ فعال کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے، جو اسرائیلی مڈل اور ہائی اسکولوں میں عربی اور مشرقِ وسطیٰ کی تعلیم کو فروغ دیتا ہے۔
ماضی میں یہ شعبہ بجٹ کی کمی کے باعث بند کر دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں عربی زبان سیکھنے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی آئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
IDF آمان اسرائیل اسرائیلی فوج اسلام قرآن