سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے پر تینوں ججز کی طرف سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط لکھ دیا۔ تینوں ججز نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے۔ خط کے متن کے مطابق ریاست بنام دیوان موٹرز کے کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کر سکتا ہے۔؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی تھی۔ 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو اس بینچ میں شامل کر دیا گیا، جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے۔ خط میں کہا گیا کہ ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے پیش کیا جائے، آج ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے۔

متن کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کر دیا ہے لہٰذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان کے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز آج کسی بھی بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی۔ آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے، اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت آج کے لیے مقرر کر سکتی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے ایک نیا بینچ بھی قائم کر سکتی تھی، کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ آج 20 جنوری کے لیے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی، ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو بغیر کسی آسر کے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کئے گئے آرڈر پر عمل درامد ہونا چاہئے۔ آفس کو ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ آج ایک بجے مذکورہ کیس کو فکس کرے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس عقیل عباسی کے مترادف ہے مذکورہ کیس نے کہا کہ کے سامنے عدالت کے اور جسٹس جنوری کو انہوں نے گیا کہ

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ، پولیس نے عمران خان کی بہنوں کو چیف جسٹس کے چیمبر میں جانے سے روک دیا
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • سپریم کورٹ؛ پولیس نے عمران خان کی بہنوں کو چیف جسٹس کے چیمبر میں جانے سے روک دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف شکایت، ایمان مزاری نے اضافی دستاویزات جمع کرادیں
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود کو جج کے اختیارات سے روک دیا گیا
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ