بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے ججز کا چیف جسٹس کو خط
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے پر تینوں ججز کی طرف سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط لکھ دیا۔ تینوں ججز نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے۔ خط کے متن کے مطابق ریاست بنام دیوان موٹرز کے کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کر سکتا ہے۔؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی تھی۔ 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو اس بینچ میں شامل کر دیا گیا، جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے۔ خط میں کہا گیا کہ ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے پیش کیا جائے، آج ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے۔
متن کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کر دیا ہے لہٰذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان کے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز آج کسی بھی بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی۔ آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے، اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت آج کے لیے مقرر کر سکتی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے ایک نیا بینچ بھی قائم کر سکتی تھی، کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ آج 20 جنوری کے لیے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی، ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو بغیر کسی آسر کے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کئے گئے آرڈر پر عمل درامد ہونا چاہئے۔ آفس کو ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ آج ایک بجے مذکورہ کیس کو فکس کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس عقیل عباسی کے مترادف ہے مذکورہ کیس نے کہا کہ کے سامنے عدالت کے اور جسٹس جنوری کو انہوں نے گیا کہ
پڑھیں:
توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سرکاری ملازمین کی بحالی کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملے پردائرتوہین عدالت کی درخواستوں کے دوران بینچ کے رکن جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد ہائی کورٹ کیسے جائیں گے، درخواست گزار ایف پی ایس سی کے ٹیسٹ سے کترارہے ہیں، ٹیسٹ پاس کرلیں، 59سال عمر والاتوزیادہ تجربہ کارہوگا۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ہوتی ، اگر ایف پی ایس سی سے کوئی نوٹس آیا توکیوں ٹیسٹ میں نہیں بیٹھے۔ جبکہ بینچ نے وفاقی حکومت سے عدالت عظمیٰ کے حکم پرمن و عن عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے عدالت عظمیٰ کے 2021کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پردائر توہین عدالت کی درخواستوں اور برطرف ملازمین ایکٹ 2010کے قانون کوچیلنج کرنے کے معاملے پر دائر 25درخواستوں پرسماعت کی۔