امن معاہدے کے بعد کی صورتحال
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
فلسطین اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ جس پرعمل درآمد شروع ہوگیا ہےاس معاہدے کا اعلان ہوتےہی فلسطینی عوام اوردنیا بھر میں حماس مجاہدین سے محبت رکھنے والے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی خاص طور پر غزہ کے کوچوں اور گلیوں میں 470 دنوں سے بارود اور بموں کی بارش میں عارضی خیموں یا کھلے آسمان تلے دن رات گزارنے والے معصوم بچوں اور شہریوں کی خوشی کا عالم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ وہ سب سمجھ رہے تھے کہ مکمل فتح سے پہلےحالیہ امن معاہدہ فتح کی جانب ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےجبکہ دوسری سائیڈ یعنی اسرائیل کی جانب واضح طور پہ شام غریباں کا منظر ساری دنیا کو نظر آرہا تھا گو کہ اسرائیلی عوام میں امن معاہدے پر خوشی منائی گئی لیکن وہاں کے وزراءاورحکومتی لوگ سخت پریشان اورحیران نظر آرہےتھے بعض وزراء نے یہاں تک بیانات دئیے کہ یہ معاہدہ ہم پر مسلط کیا گیا ہےاگر اس معاہدے کو منسوخ نہ کیا گیا تو ہم مستعفی ہوجائیں گےچنانچہ آج کی خبروں میں یہ آرہا ہےکہ انتہائی دائیں بازو کے انتہائی متعصب یہودی بن گویر نے اپنا استعفی پیش کردیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ امن معاہدہ پورے اسرائیل کے یہود کے گلےکاکانٹا بن چکا ہےنہ اگلا جا رہا ہےنہ نگلا جا رہا ہے ۔ اسرائیلی ریڈیو کےمطابق معاہدےکے توثیقی اجلاس کے دوران کئی حکومتی وزراء ، سرکاری سیکرٹری اور دیگرحاضرین روتے رہے۔ موساد سربراہ نے کہاکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نہایت ہی کڑوا گھونٹ ہے، مگر اسرائیل اس حال تک پہنچ چکا ہے کہ اب اسے پیئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ (دجالی فوجی ریڈیو)محترم قارئین۔ تقریباً دوماہ قبل ایک انڈین ٹی وی چینل نے اسرائیلی ریڈیو کےحوالے سے اسی سے ملتی جلتی ایک اوررپورٹ بھی نشر کی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسرائیلی حکام یہ سمجھتے ہیں اگر ہم اس جنگ سے مکمل فتح حاصل کئےبغیر پیچھے ہٹ گئے تواسرائیل اور یہود کا کچھ بھی نہیں بچے گا جبکہ اہل ایمان تو اس مقدس فلسطینی جنگ کے پہلے دن سے ہی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل اب آگے بڑھ کر لڑے یا دم دبا کر پیچھے بھاگ جائے ہر صورت میں اسرائیل کا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ امن معاہدے کے بعد اسرائیل کے سورمائوں کو اپنی مکمل شکست اور نیست و نابود ہو جانے کا یقین پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہے ۔
معززقارئین دنیا بھر کے مسلمانوں کی اس امن معاہدے پر خوشی کی مختلف وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ مسلمان دیکھ رہے ہیں اللہ پاک مسلسل مجاہدین کی مدد فرما رہے ہیں سب سے پہلے افغانستان میں عالمی اتحادی لشکروں کو 20سالہ جنگ کے بعد اللہ پاک نے مجاہدین کو فتح مبین عطا فرمائی اور پھر شام کے محاذ پر 54 سال سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنےوالے اسدخاندان کے مقابلے میں تحریرالشام کےجانباز مجاہدین کو اللہ پاک نے واضح کامیاب عطافرمائی اور اس کےبعد ڈیڑھ سال کی شدید جنگ کے بعد جس میں ساری دنیا اسرائیل کا ہرلحاظ سے ساتھ دے رہی تھی جبکہ حماس مجاہدین ساری دنیا کے مکمل طور پر محاصرے میں تھے، اور تو اور کئی مسلمان ممالک بھی فلسطینی جانبازوں کا ساتھ دینے کی بجائے اسرائیل کا عسکری اور معاشی لحاظ سے ساتھ دے رہے تھے مگر اللہ پاک نے اس جنگ میں بھی مجاہدین کو سرخرو فرما دیا۔ اتنی واضح کامیابی کے باوجود بھی کئی لوگ یہ پوچھ رہے ہیں ہمیں مختصر الفاظ میں بتائیں اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا تو پھر کون ہارا کون جیتا‘‘ تاریخ سے نابلد لوگوں نےجنگ آزادی کو کرکٹ اور فٹ بال میچ سمجھ رکھاہے۔ ہر معرکہ کے بعد پوچھتے ہیں کون ہارا کون جیتا۔ انہیں کوئی بتائے کہ قوموں کی زندگی میں ہارجیت کے پیمانےکرکٹ کے رنزاور فٹ بال کے گول نہیں ہوتے۔ غزہ کے صحافی انس الشریف کے الفاظ میں بس یہ جان لیں کہ ’’طاقتور، اگر نہیں جیتتا، تو ہار جاتا ہے،اور کمزور، اگر نہیں ہارتا، تو فاتح ہوتا ہے۔ ہم فلسطینی اپنی ثابت قدمی، استقامت اور اپنی سرزمین کو ترک کرنے سے انکار کی وجہ سےفتح یاب ہوئے ہیں۔ نسل کشی کے باوجود بقاء (مطلب)ثابت قدمی اور فتح‘‘ اس امن معاہدے کے بعد فلسطینی مسلمانوں کی کامیابی کو رہائی پانے والے قیدیوں کے اینگل سے چیک کرتے ہیں،جن کو فلسطین کی ’’ف‘‘کا بھی علم نہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ گھاٹے کا سودا ہے۔ تصورکیجئے کہ اس معاہدے کی رو سے وہ شخص بھی رہاہو رہا ہے، جسے انسانی تاریخ کی سب سے طویل سزا کا سامنا ہے۔ یہ تحریک مزاحمت کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ فلسطینی اسے محبت سے ’’امیر الظل‘‘ (سائے کا شہزادہ) اور’’الشہید الحی‘‘(زندہ شہید)پکارتے ہیں۔ ابو اسامہ عبد اللہ غالب البرغوثی کی رہائی کی شرط بھی جانبازوں نے منوالی ہےحالانکہ پہلےکئی بار یہ کوشش ناکام ہو چکی تھی۔
ابو اسامہ 1972ء میں کویت میں پیدا ہوئے۔ مجاہد، مقاوم، جانباز، قائد، انجینئر اور مغربی کنارےمیں کمانڈر۔ عربی، کورین، عبرانی، انگلش کا ماہر، بم سازی میں طاق۔ جنوبی کوریا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وہیں کورین لڑکی سے شادی بھی۔ اہلیہ کو لے کر واپس آئے اور اپنے کاروبار میں لگ گئے لیکن ان کا کزن بلال برغو ثی جانباز تھا۔ اس سے متاثر ہو کر تحریک مزاحمت کاحصہ بنے اور پھر مرکزی کمانڈر بن گئے۔ (بلال کو 16 بار عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے) غالب تاریخ کی سب سے سخت اور طویل سزا 67 بار عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ 5200سال کی اضافی سزابھی دی جاچکی۔ مجموعی طور پر 6808سال قید کی سزا، یہ سزائیں انہیں مہلک ترین کارروائیوں کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے دی گئی ہیں۔ انہیں دھماکہ خیز کارروائیوں کی قیادت کے حوالے سے انجینئر یحییٰ عیاش کا جانشین سمجھاجاتا ہے۔ ان کا تعلق فلسطین کے گائوں بیت ریما سے ہے۔ صرف تل ابیب کے قریب ’’ریشون لتسیون‘‘ کے ایک نائٹ کلب کی کارروائی میں 35دجالیوں کو جہنم رسید اور 370کو زخمی کیاتھا۔ ایک سال میں 67 صہیونیوں کو ہلاک اور 500 سے زائد کو زخمی کیا۔ ان کی زندگی ایک پوری کتاب کا موضوع ہے۔ اب جانباز اپنے اس عظیم کمانڈر کو رہا کرا رہے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے ہیروز بھی رہا ہو رہے ہیں۔ ہر ایک پر الگ لکھیں گے۔ ان شااللہ۔ اب بتائیے کہ قابض ریاست نے کیسا کڑوا گھونٹ پی کر ایسے افراد کی رہائی کی شرط تسلیم کی ہوگی۔ لوگ پھر بھی کہتے ہیں کہ حماس نے گھاٹے کا سوداکیا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امن معاہدے اللہ پاک رہے ہیں رہا ہے کے بعد
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔