WE News:
2025-11-03@19:31:46 GMT

کیا حکومت 15 سال سے پرانی گاڑیوں کو ختم کرنے جا رہی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

کیا حکومت 15 سال سے پرانی گاڑیوں کو ختم کرنے جا رہی ہے؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی فضائی آلودگی کا شکار ہے، آلودہ ترین شہروں میں لاہوراورکراچی سر فہرست رہتے ہیں، فضا کو آلودہ کرنے میں دیگرعوامل کے علاوہ پرانی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں 15 سے 20 سال پرانی گاڑیوں کے استعمال کو روک دیا جاتا ہے، جبکہ تمام نئی گاڑیاں الیکٹرک یا ہائیبرڈ تیار کیا جا رہا ہے جبکہ سخت ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ہی پرانی گاڑیوں کے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں نصف صدی پرانی گاڑیاں بھی سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نئی 5 سالہ الیکٹرک وہیکلز پالیسی جاری، 2030 تک پاکستان میں الیکڑک گاڑیوں کی شرح کتنی ہوگی؟

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق 15 سال سے پرانی گاڑیوں کے استعمال کو روکنے کے لیے قومی لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے اور اس کے لیے وزارت صنعت و پیداوار سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔

اس سلسلے میں حال ہی میں منعقدہ ایک اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار اور انجینیئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کے مطابق گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکلز پر منتقل کرنے کے لیے سہولت فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی کلائمٹ سائنس پر گرفت نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ

فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کم کرنے کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی نے سب سے پہلے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بہتری لانے کا فیصلہ کیا ہے، یورو 5 اور اس سے بھی بہتر ایندھن کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے بھی لائحہ عمل ترتیب دیا جارہا ہے جبکہ پرانی گاڑیوں کے لیے لازمی فٹنس سرٹیفکیٹ کے اجرا کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

صوبائی حکومتیں بھی فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو بہتر کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور میں 1997 ماڈل اور اس سے بھی پرانی چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی ٹیسٹنگ کے لیے اسٹیشن قائم کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں موسمیاتی تبدیلی پر کیا دلائل دیے؟

بلوچستان حکومت نے کوئٹہ شہر سے پرانی بسیں مرحلہ وار بند کر دی ہیں، 2 اسٹروک رکشوں کی بڑی تعداد کو  1 اسٹروک ماڈلز سے تبدیل کردیا گیا ہے، آزاد کشمیر حکومت نے ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے اشتراک سے گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی جانچ کا نظام قائم کیا ہے۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے 4 مختلف پالیسیاں مرتب کی ہیں، ان میں قومی پالیسی برائے صاف ہوا 2023، قومی پالیسی برائے موسمیاتی تبدیلی 2021، نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی 2019، پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 1997 شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر الیکٹرک وہیکل پالیسی انجینیئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ بلوچستان خیبرپختونخوا فٹنس سرٹیفکیٹ فضائی آلودگی ہائیبرڈ وزارت موسمیاتی تبدیلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الیکٹرک وہیکل پالیسی انجینیئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ بلوچستان خیبرپختونخوا فضائی آلودگی ہائیبرڈ وزارت موسمیاتی تبدیلی وزارت موسمیاتی تبدیلی پرانی گاڑیوں کے فضائی آلودگی کرنے کے لیے کے استعمال

پڑھیں:

زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض

زرمبادلہ کے ذخائر ایک ایسی کہانی ہے جس پر حکومتوں کی سانسیں اور قوم کی امیدیں ٹکی رہتی ہیں اس پر گہری نظر رکھنے والے امپورٹرز بھی ہوتے ہیں کیونکہ ذخائر جتنے زیادہ ہوں گے، روپے کی قدر کو اسی قدر استحکام ملے گا۔ لیکن اسے غارت کرنے میں درآمدات کا ہی ہاتھ ہوتا ہے ملک پر اتنا زیادہ درآمدی بل کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر کی بلند سطح گرنے لگتی ہے۔

اس وقت ملک کے طول و عرض میں یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 19.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ دہائی میں ذخائر 6 ارب ڈالر تک بھی جا پہنچے تھے۔ جب ڈالر اڑنے لگا اور روپیہ تیزی سے گرنے لگا تھا، پھر کہیں یہ ذخائر 24 ارب ڈالر تک جا پہنچے تھے تو حکومت کامیابی کے دعوے کر رہی تھی کہ اچانک معلوم ہوا کہ درآمدات اتنی زیادہ ہو چکی ہیں جوکہ ذخائر کو کھا رہی ہیں۔

اب جب کہ اسٹیٹ بینک کے پاس 13.5 ارب ڈالر ہیں اور کمرشل بینکوں کے پاس 6.4 ارب ڈالر کا ذخیرہ ہے، اس کا پہلا باب آئی ایم ایف کی مہربانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی قسط آئی ہے، دوسری طرف اس قسط کا بڑا حصہ بیرونی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی دریا بھرا ہو اور اگلے لمحے سمندر میں بہہ گیا، یعنی دریا جیسا پہلے خالی تھا اسی طرح قرض لینے کے بعد ادائیگی کرکے پھر خالی ہاتھ رہا۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ درآمدی بل کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ پھر درآمدات گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہوئے چلی جا رہی ہیں جس کا ابھی تک کوئی شافی علاج تجویز نہیں کیا جا سکا۔ غذائی درآمدات کا تعلق زراعت سے گہرا ہے۔

اس مرتبہ اس بات کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید 25 یا 30 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کم ہوگی جس کے لیے پھر درآمد کنندگان درآمد کرکے منافع کمانے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ اتنی گندم کی درآمد جب چند سال قبل 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تو ایک ارب ڈالر خرچ ہوگئے تھے۔ اس مرتبہ یہ تو سوچا جا رہا ہے کہ گندم کی پیداوار کم ہوگی اور درآمد کی ضرورت پیش آئے گی۔

گندم کی 8 فی صد یا 10 فی صد کمی کا آسان علاج ہے۔ ہر وہ جگہ جوکہ قابل کاشت ہو سکتی ہے، وہاں پر گندم کی کاشت کرکے اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر مقام پر خالی قطعہ زمین وافر مقدار میں موجود ہے کسی طرح سے اس پر گندم کی کاشت کی جائے۔ خاص طور پر بعض علاقے ایسے ہیں جہاں گندم کی کاشت ممکن ہے مجھے نورپور تھل قصبہ ’’چن‘‘ کے زمیندار فہیم راجپوت نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کبھی سفیدے کے درخت لگائے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے۔

لیکن اب سفیدے کے درختوں کی زیادتی کے باعث گندم کی فصل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کے باعث پہلے کے مقابلے میں گندم کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اس طرح کے بھی مسائل ہیں محکمہ ریلوے اور دیگر محکموں کے پاس وافر مقدار میں زمین موجود ہے جس پر گندم کاشت کی جا سکتی ہے۔ ہمیں درآمدات کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے اس طرح ملک اور عوام پر قرض کا بار بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پھر ڈالرز میں اس کی ادائیگی حکومت کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔

رواں مالی سال 23 ارب ڈالرز کی ادائیگی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر رہ جائے گی۔ اتنی رقم کی ادائی کے لیے معیشت پر بہت بڑا بوجھ پڑے گا اور اس بوجھ کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبے برداشت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں پر ایسے منصوبے بھی ہیں جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں۔ کہیں تمام منصوبے مکمل کرنے کے بعد معمولی کام کے رہنے کے باعث پورا منصوبہ ہی جام کر دیا جاتا ہے۔

اب ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس مرتبہ امداد بہت کم رکھی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے سیلاب کے بعد بحالی کی خاطر بہت کچھ کرنے کے منصوبے ہیں لیکن حکومت کو ان منصوبوں کے مکمل کرنے کی خاطر اچھی خاصی رقوم درکار ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک کے مختلف منصوبوں کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں، پھر ان معلومات کی روشنی میں جو منصوبے اعلان کر دیے گئے ہیں اولین ترجیح ایسے منصوبوں کے لیے دینی چاہیے اور ایسے منصوبے جیسا کہ پانی کی سپلائی قائم کرنے کے لیے K-4 کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح سرکولر ٹرین کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے جسے چلانے کے لیے ان علاقوں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق سرکار کے ساتھ تعاون کریں۔

یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔البتہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 5.8 ارب روپے کا فوری ریلیف پیکیج منظور کیا گیا ہے اور 4 ارب روپے فوری جاری کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی صوبائی سطح پر امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے مزید یہ کہ 2855 دیہاتوں کے لیے آبیانہ اور زرعی آمدنی ٹیکس معاف کرنے کا کہا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کے گھروں کے بجلی کے بل برائے اگست معاف کر دیے گئے ہیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے 3 ملین ڈالر کی ایمرجنسی گرانٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی 30 کروڑ وفاقی حکومت کو فوری ملنے کا امکان ہے۔ حکومت کو ماحولیاتی مزاحمت اور تیاری کے طریق کار لائحہ عمل اور منصوبے کا اعلان کرنا چاہیے اور تمام شہریوں کو اس میں شمولیت آگاہی پروگرام تیاری اور دیگر اقدامات سے آگاہ کرنا چاہیے۔

اس وقت ایک بار پھر قرض کا مسئلہ اور زرمبادلہ کے برائے نام بڑھتے ذخائر کا کس طرح سے استعمال کیا جائے یہ مسئلہ اہم ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے غیر ضروری اخراجات جس سے ڈالر کی برآمد ہوتی ہے یعنی بعض اوقات درآمد کے ذریعے ڈالر جاتا ہے اور کبھی بہت سی غیر ملکی کمپنیاں اپنا منافع ڈالر کی شکل میں لے کر چلے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جتنے بھی تجارتی معاہدے کیے جائیں اس بات کو ترجیح دی جائے کہ بارٹر سسٹم کا استعمال ہو، یعنی ہم ان سے جو چیز خریدیں اس کے بدلے میں اپنا مال ان کو دیں۔ اس طرح مال دے کر مال حاصل کرنے سے ڈالر کی بچت ہو گی اور یوں جتنے بھی زرمبادلہ اسٹاک میں ہوں گے اس کا انتہائی مناسب استعمال کیا جاسکے گا۔ اس طرح بار بار ڈالر کو اڑان کا موقع نہیں ملے گا اور بار بار روپے کی کم قدری نہیں ہوگی، لہٰذا اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں معمولی اضافہ ہوا ہے تو اب خرچ میں بھرپور احتیاط کی جائے تو یہ معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے اور زیادہ قرض لینے کی ضرورت میں کمی واقع ہو کر رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • فوج کو سیاست سے دور رکھیں، جنرل کی جرنلسٹوں کو شٹ اپ کال
  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • میری دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • نمبر پلیٹس کا ڈیزائن  تبدیل کرنے  کی تجویز
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
  • بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟