بل کلنٹن سے واش روم میں کیا بات ہوئی، سابق چیف جسٹس ارشاد حسن نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ریٹائرڈ ارشاد حسن خان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف دور میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو واش روم میں نواز شریف کو پھانسی نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو پھانسی سے بچانے کے لیے صدر کلنٹن کی چیف جسٹس سے واش روم میں ملاقات کا انکشاف
یاد رہے کہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے نسیم اشرف نے اپنی کتاب ’رنگ سائیڈ‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ سنہ 1999 میں نواز شریف کی معزولی کے بعد ان کی ممکنہ پھانسی رکوانے کے لیے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے نے اپنے پاکستان کے دورے کے دوران ایوان صدر کے ٹوائلٹ میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ارشاد حسن خان سے ملاقات کرکے معاملہ نمٹایا تھا۔
نسیم اشرف کے مطابق سابق چیف جسٹس نے بل کلنٹن کو واش روم میں یقین دلایا تھا کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ خبرمیں مزید کہا گیا تھا کہ امریکی صدر نے پرویز مشرف کے ظہرانے کے دوران واش روم جانے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہی لمحے چیف جسٹس ارشاد حسن خان بھی واش روم پہنچ گئے دونو ں کے درمیان ملاقات 5 منٹ تک جاری رہی۔
اس بات کے لیے واش روم جانے کی کیا ضرورت تھی؟وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ارشاد حسن خان نے کہا کہ یہ بے بنیاد خبر ہے کیوں کہ جب وہاں کھانے کا کمرہ بھی موجود تھا اور جس میز پرہم بیٹھے تھے تو وہاں بھی بات ہو سکتی تھی اس کے لیے واش روم جا کر ایسی بات کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں بہت مؤدبانہ عرض کروں گا کہ ڈاکٹر نسیم اشرف صاحب کے مبینہ انکشافات فسانہ ہیں نہ کہ حقیقت‘۔
مزید پڑھیے: نواز شریف امریکی مداخلت پر پھانسی سے کیسے بچے؟ مشرف کے دیرینہ ساتھی نسیم اشرف کے انکشافات
صدربل کلنٹن نے 25مارچ 2000 کو پاکستان کا ایک مختصر دورہ کیا تھا جو تقریباً 5 گھنٹے جاری رہا تھا۔ یہ ان کے جنوبی ایشیا کے دورے کا حصہ تھا جس کے دوران انہوں نے 5 دن بھارت میں اور صرف چند گھنٹے پاکستان میں گزارے۔
صدر بل کلنٹن کے دورے میں مشرف کی فوجی حکومت کے لیے امریکی حمایت کا اشارہ نہیں تھا۔ انہوں نے مشرف سے ملاقات کی لیکن پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا۔
کلنٹن نے پاکستانی عوام کے لیے ایک ٹیلیویژن خطاب ریکارڈ کرایا تھا جس میں ملک کو جمہوری طرز حکمرانی کی طرف لوٹنے اور انتہا پسندی کے خطرات سے خبردار رہنے پر زور دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: پاک امریکا ٹوائلٹ مذاکرات
سابق امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خصوصاً دونوں ممالک کی جوہری صلاحتیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
وہ دورہ انتہائی علامتی تھا اور سخت سیکیورٹی میں کیا گیا تھا۔ وہ مشرف کے ٹیک اوورکے بعد امریکا اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
کھانے کی میز پر کلنٹن سے کیا بات ہوئی؟جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کہتے ہیں کہ بل کلنٹن نے واش روم جانا چاہا تو میں بھی ان کے ساتھ اپنی ضرورت کے تحت چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے راستے میں یا واش روم ہال میں کوئی بات نہیں ہوئی تاہم کھانے کی میز پر ان کی اور میری ذاتی نوعیت کی گفتگو ضرور ہوئی جس میں نواز شریف کی سزا کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بل کلنٹن اور جسٹس ارشاد حسن پاک امریکا ٹوائلٹ مذاکرات جنرل پرویز مشرف نواز شریف پھانسی معاملہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بل کلنٹن اور جسٹس ارشاد حسن جنرل پرویز مشرف سابق چیف جسٹس واش روم میں پرویز مشرف امریکی صدر نواز شریف انہوں نے کلنٹن نے بل کلنٹن مشرف کے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-2
پاکستان کے لیے یہ خبر کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 23 آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے مطابق ان بلاکس کا مجموعی رقبہ 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جب کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جو ڈرلنگ کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ پیش رفت انرجی سیکورٹی اور مقامی وسائل کی ترقی میں ایک بڑی کامیابی ہے، جو پاکستان کی توانائی خودکفالت کے سفر میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کامیاب بولی دہندگان میں پاکستان کی بڑی اور تجربہ کار کمپنیاں شامل ہیں، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، پرائم انرجی، اور فاطمہ پٹرولیم، جنہوں نے مقامی سطح پر اپنی تکنیکی صلاحیت اور مالی ساکھ کو مستحکم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ترکیہ پٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی اور اورینٹ پٹرولیم جیسے بین الاقوامی اداروں کی شمولیت اس منصوبے کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بناتی ہے۔ یہ اشتراک پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر میں غیر ملکی اعتماد کی بحالی اور اس کے پوٹینشل کے بڑھتے ہوئے اعتراف کی علامت ہے۔ امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن کی جانب سے حالیہ بیسن اسٹڈی میں پاکستان کے سمندر میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ممکنہ ذخائر کا عندیہ دیا گیا ہے، جو اگر حقیقت میں تبدیل ہو جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات خود پوری کر سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر ہی حکومت نے ’’آف شور راؤنڈ 2025‘‘ کا آغاز کیا، جو شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے اشارے بھی اس پیش رفت کی بنیاد بنے۔ 2024 میں ڈان نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے ایک دوست ملک کے تعاون سے تین سالہ سمندری سروے مکمل کیا ہے، جس سے تیل و گیس کے بڑے ذخائر کے مقام اور حجم کی نشاندہی ہوئی۔ اسی طرح 2025 میں نیوی کے ریئر ایڈمرل (ر) فواد امین بیگ نے چین کی مدد سے سمندر کی تہہ میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی تصدیق کی، جس سے پاکستان کے سمندری وسائل کی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔ یہ تمام شواہد اور اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس توانائی کے میدان میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ بدقسمتی سے ماضی میں کئی بار ایسے مواقع سیاسی عدم استحکام، پالیسی کے فقدان، اور تکنیکی کمزوریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔