Express News:
2025-11-04@04:43:53 GMT

بانی پی ٹی آئی… معصوم یا مجرم؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

کیا بانی پی ٹی آئی اس مقدمے میں بے گناہ ہیں، آئیں کیس کے واقعات اور حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ پورے ملک میں یہ تاثر عام تھا کہ بانی پی ٹی آئی شاید دولت مندوں کے قابو نہ آسکیں۔ مگر کچھ عرصے بعد باتیں نکلنا شروع ہو گئیں کہ بانی پی ٹی آئی کے بڑے بڑے جلسوں کا خرچہ ان کی پارٹی میں شامل ’’اے ٹی ایم‘‘ مشینیں اٹھا رہا رہی ہیں۔ اورپھر سب کو معلوم ہوگیا کہ بانی پی ٹی آئی کا بھی دولت سے ویسا ہی تعلق بن چکا ہے جیسا دوسرے سیاستدانوں کا ہے۔

القادر یونیورسٹی اور 190 ملین پونڈ کا کیس بھی اس زمرے میں ہی آتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو تی اور اسے عوام کے لیے استعمال کیا جاتا۔ ایسے معاملات کے لیے ’’ایماندار وزیراعظم‘‘ نے شہزاد اکبر جیسا مشکوک کردار کا حامل رکھا ہوا تھا۔

ویسے ان کے زیادہ تر مشیر ایسی ہی شہرت رکھتے تھے۔ شہزاد اکبر برطانیہ سے آیا ہوا خط لے کر بانی پی ٹی آئی سے ملا اور دونوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہوا کہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے یا اس کا کوئی ’’بہتر‘‘ استعمال کیا جائے۔ اتفاقِ رائے ہوگیا مگر ایک رکاوٹ آن پڑی۔ اس کے لیے کا بینہ کی منظوری ضروری تھی۔ چنانچہ کابینہ سے منظوری کی کوشش ہوئی مگر کیبنٹ میٹنگ میں شیریں مزاری صاحبہ بول پڑیں اور ان کی مخالفت کی وجہ سے منظوری نہ ہو سکی۔

اگر بانی پی ٹی آئی معصوم ہوتے اور ایماندار ہوتے تو شیریں مزاری کی بات مان لیتے اور یہ پیسہ قومی خزانے میں جمع کرا دیتے۔مگر ان کے ذہن میں فوائد تلملا رہے تھے۔یقینا گھر میں بھی مشاورت ہوئی ہوگی اور وہاں سے بھی دباؤ ہو گا، دیگر بہت سی چیزیں ذھن میں آئی ہوںگی۔ چنانچہ بانی پی ٹی آئی نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ کابینہ سے منظور کرانے کی کوشش کی۔ دوسری بار کوشش ہوئی اور لفافہ دکھایا گیا مگر کھولا نہیں گیا۔

ایک دو وزیروں نے پھر کہا کہ ’’سر! آپ ہم سے جس چیز کی منظوری لے رہے ہیں،وہ ہمیں بتا تو دیں کہ وہ ہے کیا؟‘‘ اس پر انھوں نے کہاکہ آپ یہ مت پوچھیں۔ سیکیورٹی کا کوئی انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے، اس لیے بتایا نہیں جا سکتا۔یعنی جس کام کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ میرے تابعدار قسم وزیر بھی اس پر اعتراض کریں گے، اسے انتہائی مشکوک طریقے (in a clandestine manner) سے منظور کرا لیا گیا اور اُن سے زبردستی دستخط کرا لیے۔ پھر وہ پیسہ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا گیا ، بعد میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ سے نکلوا کر قومی خزانے میں جمع کرایا تھا جس پر بانی پی ٹی آئی کے ٹائیگرز نے ناراضی کا اظہار کیا اور اسے بانی پی ٹی آئی سے دشمنی قرار دیا۔

خان کے حامی سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کا دفاع کرنا شاید اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس سوال پر سارا زور لگادیتے ہیں کہ ’’ خان کو اس کارروائی کے نتیجے میں کیا ملا؟‘‘ فوری طور پر القادر یونیورسٹی اور کروڑوں روپے کی عمارتوں اور فرنیچر کی ملکیت وغیرہ مل گیا ہے۔ حالات ٹھیک رہتے تو مزید آگے بڑھنا تھا۔ عوام کو یہی بتایا گیا کہ یہ ایک ٹرسٹ ہے جس سے خان صاحب کا کوئی تعلق نہیں مگر اس مقدس کام کے لیے جن نام نہاد ’’اولیائے کرام ‘‘کو ٹرسٹی مقرر کیا گیا، ان میں حضرت مولانا زلفی بخاری، حضرت مولانا عمران احمد نیازی اور حاجن بی بی بشریٰ شامل ہیں۔

بانی پی ٹی آئی کے پیروکار شاید نہیں جانتے کہ آغاز میں تو یہ سب کچھ ٹرسٹ کے نام پر تھا مگر 2020 میں یہ ٹرسٹ ختم ہوگیا، زلفی بخاری کو بھی بیچ میں سے نکال دیا گیا اور اب یہ ساری زمین اور جائیداد کسی ٹرسٹ کے نام پر نہیں بلکہ صرف بانی پی ٹی آئی اور ان کی بیوی کے نام پر ہے یعنی اِس وقت صرف وہ دونوں اس جائیداد کے مالک ہیں۔ القادر کے نام پر کروڑوں روپے کے عطیے بھی آتے رہے، وہ ساری رقم بھی بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ملکیت میں ہے۔ وہ دونوں اس رقم کا جس طرح چاہیں استعمال کریں، کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں کیونکہ اب وہ ٹرسٹ کی نہیں ان کی ذاتی ملکیت ہے۔

چونکہ پارٹی کا سوشل میڈیا وِنگ ہر وقت جھوٹ گھڑنے میں مصروف رہتا ہے اس لیے فیصلے سے پہلے تو ’’ بانی پی ٹی آئی نے اس سے کیا مالی فائدہ اٹھایا؟‘‘ کا ڈھول بجایا گیا، وہ نہ چل سکا تو اب فیصلے کے بعد نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ ریاستِ پاکستان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک دس سالہ بچہ بھی جانتا ہے کہ حکومت سے تعلق نہیں تھا تو وزیراعظم کو انتہائی مشکوک اور خفیہ طریقے سے کابینہ سے منظوری لینے کی ضرورت کیوں پڑی؟ دراصل ان کا کام ہے جھوٹا بیانیہ بناؤ، چل گیا تو ٹھیک۔ نہ چلا تو کوئی اور گھڑ لو۔ اگر ریاستِ پاکستان سے تعلق نہ ہوتا تو معاملہ کابینہ میں ہرگز نہ آتا اور کابینہ میں وزراء اعتراض بھی نہ کرتے اور غیر جانبدار وکلاء پہلے دن سے ہی اسے "open and shut case" قرار نہ دیتے۔

اگر بانی پی ٹی آئی کے بجائے یہی کام نواز شریف نے کیا ہوتا اور اسی طرح بند لفافہ لہرا کر کابینہ سے منظوری لی ہوتی تو کیا بانی پی ٹی آئی کے حامی نوازشریف کو بے گناہ قراردیتے؟ ہر گز نہیں، پی ٹی آئی نوازشریف کو گردن زدنی قرار دیتی اور خود بانی پی ٹی آئی نوازشریف کو زیادہ سے زیادہ سزا دلانے کے لیے خود ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے۔

اب آئیں سیرت النبی صل اللہ علیہ وصلم سے روشناس کرانے کے لیے کسی یونیورسٹی کے قیام کا اِشو ۔ سیرت النبیؐ کے کسی بھی ماہر سے یا کسی بھی اسلامی اسکالر سے پوچھیں تو وہ سب یہی کہتے ہیں کہ ایسی یونیورسٹی اسلام آباد میں قائم ہونی چاہیے تھی تاکہ پورے ملک سے طلبا اور اساتذہ کو وہاں پہنچنے میں آسانی ہوتی یا نئی یونیورسٹی کے بجائے اسلام آباد میں قائم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں یا لاہور کی کسی بڑی یونیورسٹی میں ایک بہت بڑا نیا ڈیپارٹمنٹ قائم کردیا جاتا۔ایسا ادارہ سرکاری زمین پر بنتا یا عطیہ کی گی وراثتی جائیداد ر بنتا۔۔ اور پھر اسے حکومت کے کنٹرول میں دیا جاتا۔وہ ایک گھرانے کے بجائے ملک کا اثاثہ ہوتا اور اسے زلفی بخاری یا بانی پی ٹی آئی اور اس کی بیوی کے بجائے وزارت تعلیم یا وزارتِ مذہبی امور چلاتی، سوال یہ ہے کہ کیا اس نام نہاد یونیورسٹی میں سیرتُ النبیؐ کی تعلیم دی جا رہی تھی؟کیا وہاں دعوے کے مطابق عالمی شہرت کے اسکالر پڑھاتے ہیں؟ کیا بانی پی ٹی آئی نے کبھی وہاں جا کر تعلیمی ماحول اور معیار کا معا ئنہ کیا تھا؟ ان سب کا جواب ناں میں ملتا ہے۔

پوری یونیورسٹی میں کل 200 طلباء تھے اور سیرت النبی پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس میں تو کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے قوم اور ملک کے پیسے کے امین ہوتے ہوئے خیانت کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا وہ اس جرم پر سزا کے حقدار تھے۔ مگر میرے خیال میں سزا زیادہ دی گئی ہے۔ سزا کم ہونی چاہیے تھی۔ البتہ سزا پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے لوگ خوشامدی، جاہل اور ناعاقبت اندیش ہیں۔ یہ خوشیاں منانے کا نہیں عبرت حاصل کرنے کا موقع ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی نے کہ بانی پی ٹی ا ئی بانی پی ٹی ا ئی کے بانی پی ٹی ا ئی یونیورسٹی میں کابینہ سے کے نام پر کے بجائے کا کوئی اور اس ئی اور کے لیے بھی اس

پڑھیں:

’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک

 دنیا میں عورت کو قدرت نے جس انداز میں تخلیق کیا ہے، وہ محبت، قربانی، احساس اور استقامت کی ایک علامت ہے، مگر جب یہی عورت زندگی کے کسی موڑ پر اکیلے اپنی اولاد کی پرورش کا بیڑا اٹھاتی ہے، تو وہ صرف ایک ماں نہیں رہتی، بلکہ ایک عزم و حوصلے کی داستان بن جاتی ہے۔

تنہا ماں یا ’سنگل مدر‘ ہونا بہ ظاہر ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے، لیکن اگر غور کیا جائے، تو ان مشکلات کے اندر ہی بہت سی برکتیں اور آسانیاں بھی پوشیدہ ہیں۔ وہ خواتین جو حالات، قسمت یا فیصلوں کے باعث تنہا اپنی زندگی اور بچوں کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں، ان کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آزمائش کے ساتھ ساتھ رب کی رحمت بھی ہمیشہ شاملِ حال رہتی ہے۔

سنگل مدر کا سب سے پہلا مسئلہ معاشرتی اور سماجی دباؤ ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کا تنہا زندگی گزارنا یا بچوں کی پرورش کرنا کسی ’اچنبھے‘ سے کم نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کو کچھ عجیب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں، چے مگوئیاں کرتے ہیں اور اکثر ہمدردی کے لبادے میں دل دُکھانے والی باتیں بھی کر جاتے ہیں۔

تنہا ماں یا ’ سنگل مدر‘ کو اکثر ’ادھوری عورت‘ کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں، حالاں کہ وہ ایک مکمل کردار ہیں، جو دو افراد کا بوجھ تنہا اٹھا رہی ہوتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ معاشی تنگی ہے۔ اکثر تنہا ماں کو گھر چلانے کے لیے ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ صبح سے شام تک کام، پھر بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم، اور گھریلو ذمہ داریاں، یہ سب کچھ ایک ساتھ سنبھالنا کسی مرد کے لیے بھی آسان نہیں، تو ایک عورت کے لیے یہ جدوجہد دُگنا ہو جاتی ہے۔

اسی طرح ایک اکیلی ماں کو جذباتی دباؤ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ جب وہ اکیلے زندگی کے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کرتی ہے، تو اسے اپنی کمزوریوں کو چھپانا، غم کو مسکراہٹ میں بدلنا، اور دکھوں کو قوت میں تبدیل کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے سامنے کبھی کمزور نہیں پڑتی، کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آنسو ان کے حوصلے توڑ سکتے ہیں۔

اشفاق احمد صاحب نے ایک بار کہا تھا: ’’کوشش کرو جس چیز کے لیے تم خود ترس رہے ہو، کوئی دوسرا آپ کی وجہ سے نہ ترسے، پھر چاہے وہ رشتے ہوں، خوشیاں ہوں یا سکون۔‘‘ یہ قول ’تنہا ماں‘ کی زندگی پر خوب صورتی سے صادق آتا ہے۔ ایسی مائیں، جو اپنی زندگی میں محبت، توجہ یا سکون سے محروم ہو جاتی ہیں، وہ اپنی اولاد کے لیے یہ سب چیزیں بھرپور دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیتیں، جس کا سامنا وہ خود کرتی ہیں۔ ان کی یہی قربانی ان کی روحانی طاقت بن جاتی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔‘‘ یہ حدیث ’تنہا ماں‘ کے لیے ایک عملی راہ نمائی دیتی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کا اصل امتحان باہر کی دنیا نہیں، بلکہ اپنے گھر میں ہے، اپنے بچوں کے ساتھ صبر، محبت، اور حسنِ سلوک سے پیش آنا۔

اگرچہ ’تنہا مائیں‘ بے شمار مشکلات سے گزرتی ہیں، لیکن ان کے حوصلے اور کردار میں ایسی برکتیں ہیں، جو عام حالات میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکیلی ماں ہر دن اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ وہ اپنے گھر، مالیات اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے خود مختار ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس خودمختاری کو اپنی طاقت بھی بنا سکتی ہے۔ اس کے اور اس کے بچوں کے درمیان ایک خاص تعلق قائم ہوتا ہے۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ ان کی ماں نے مشکلات میں ہمت نہیں ہاری، تو وہ بھی زندگی میں عزم، صبر اور حوصلے کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ مشکلات انسان کو تراشتی ہیں۔ ’تنہا ماں‘ ان مشکلات سے گزر کر ایک مضبوط، پُراعتماد اور دانا شخصیت میں ڈھل جاتی ہے۔

جب انسان اکیلا ہوتا ہے، تو اسے اپنی اصل طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ ’تنہا ماں‘ کا اللہ سے تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر کام یابی کو اپنے رب کی مدد سمجھتی ہیں اور ہر مشکل میں اس کے سہارے کو محسوس کرتی ہیں۔ ان کے اندر پیدا ہونے والی یہ روحانی قربت انہیں ایک نئی روشنی عطا کرتی ہے۔ وہ سمجھ جاتی ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں اس وقت تک شکست نہیں دے سکتی، جب تک اللہ ان کے ساتھ ہے۔ ان کی دعائیں، ان کے سجدے اور ان کا صبر ان کے بچوں کے لیے ڈھال بن جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ابھی تک ’سنگل مدرز‘ کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی خواتین ہمدردی نہیں، بلکہ احترام کی مستحق ہیں۔ انھیں ترس کی نگاہ سے دیکھنے کے بہ جائے ان کے عزم کو سراہنا چاہیے۔ اسکولوں، دفاتر، اور سرکاری اداروں میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جانی چاہیئں، تاکہ وہ بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ میڈیا اور نصابِ تعلیم میں بھی ’تنہا ماں‘ کو منفی انداز میں پیش نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ماں ہر صورت میں اہم اور بلند مرتبہ ہوتی ہے۔

’تنہا ماں‘ کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ خود کو کمزور یا تنہا نہ سمجھیں۔ ان کے اندر وہ قوت موجود ہے، جو پہاڑوں کو ہلا سکتی ہے۔ وہ صرف اپنی نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ زندگی کی ہر آزمائش کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت چھپی ہوتی ہے۔ شاید اللہ انھیں اس لیے مضبوط بنانا چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشنی کا چراغ بنیں۔

سنگل مدر کی زندگی بلاشبہ ایک جہدِ مسلسل ہے، مگر اسی جدوجہد میں کام یابی، محبت اور قربانی کی حقیقی روح چُھپی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے ماں بھی ہے، باپ بھی، دوست بھی اور راہ نما بھی۔ ان کا تنہا ہونا یقیناً ایک المیہ اور ایک ناخوش گوار واقعے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے اس تلخ حقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی خواتین کی قربانیوں کو مانا جانا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • مشترکہ لائحہ عمل کے تحت بانی پی ٹی آئی کو رہا کروائیں گے،وزیراعلیٰ سہیل آفریدی
  • اسلام آباد پولیس کی کارروائی، دہرے قتل کا مجرم گرفتار
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • سابق رہنماؤں کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سیاسی جماعتوں و دیگر سے رابطوں کا فیصلہ
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • عمران خان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل