اسلام آباد:

بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا ہے کہ ساری کنفیوژن 26 ویں ترمیم کی آئینی حیثیت کیخلاف سماعت سے انکار کا نتیجہ ہے۔

عدلیہ کا ڈھانچہ مکمل تبدیل کرنیوالی اس ترمیم کے فوری سماعت ہونا چاہیے تھی، اس کے برعکس 3ماہ سے سرد خانے میں پڑی رہی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے بینچز اپنے دائرہ اختیار کے حدود پرمحو حیرت ہیں۔

سپریم کورٹ کی صورتحال پر ردعمل میں ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ معاملے پر آئینی بینچ میں سماعت کی تاریخ مقرر کرنا حل نہیں کیونکہ اس بینچ کی آئینی حیثیت ہی چیلنج کی گئی ہے، ایک آئینی بینچ اپنی حیثیت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ موجودہ صورتحال 1997 میں سپریم کورٹ  پر حملے سے زیادہ ابتر ہے، 26 ویں ترمیم اور اس کے حامیوں نے اعلیٰ عدلیہ اور اس کا کردار انتظامیہ کے ماتحت کر دیا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے اندر امتیاز پیدا کرکے ججوں میں گروپ بندی کر دی گئی ہے جس میں بعض جج دوسروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں، جس کا نتیجہ میں چیف جسٹس سمیت بیشتر کو  عدالتی نظرثانی سے روک دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

فوجی عدالتوں کا دائرہ کار متنازع، لاہور ہائیکورٹ بار نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 7 مئی 2024 کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں باضابطہ درخواست دائر کر دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نہ صرف آئین پاکستان بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل 10-اے جو ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے اور آرٹیکل 175(3) جو عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 لاہور ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں شہریوں کو بنیادی قانونی تحفظات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، جہاں شفاف ٹرائل اور اپیل کا حق دستیاب نہیں ہوتا۔

درخواست گزاروں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی عام شہریوں پر فوجی عدالتوں کا اطلاق نہیں کیا گیا، اور ایسے اقدامات آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مجروح کرتے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ شہریوں کے قانونی حقوق، عدالتی انصاف، اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے، جس سے متاثرہ افراد کے لیے شفافیت، آزادانہ دفاع اور منصفانہ اپیل کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، یہ تمام عوامل نہ صرف آئینی تقاضوں بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

درخواست میں بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہے، جس میں ہر شخص کو آزاد، غیرجانبدار اور عوامی عدالت میں ٹرائل کا حق دیا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کے ٹرائل کو غیرآئینی، غیرقانونی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، اور سویلین افراد کو صرف آئینی و قانونی عدالتوں میں ہی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے۔

یاد رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی اجازت دی تھی، جس پر ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز، انسانی حقوق تنظیموں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست اسی فیصلے کے خلاف قانونی کارروائی کا تسلسل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ آف پاکستان نے عوامی مفاد پر مبنی خدمات کی فراہمی کیلئے جامع آئی ٹی اصلاحات کا آغاز کر دیا
  • سپریم کورٹ: پختونخوا حکومت نے مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی
  • 26ویں ترمیم سے پوری عدلیہ کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ، عالیہ حمزہ
  • فوجی عدالتوں کا دائرہ کار متنازع، لاہور ہائیکورٹ بار نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی
  • سپریم کورٹ؛ لاہور ہائیکورٹ بار کی فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کیلئے درخواست
  • ایک احتجاج کرتی7مقدمات ہوجاتے،26ویں ترمیم سے پوری عدلیہ کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے، عالیہ حمزہ
  • 26ویں ترمیم سے پوری عدلیہ کو چھٹی پر بھیج دیا گیا: عالیہ حمزہ
  • 26 ویں آئینی ترمیم نے نظامِ انصاف کو جکڑ کر رکھ دیا ہے، بیرسٹر سیف
  • 26ویں ترمیم سے پوری عدلیہ کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے، عالیہ حمزہ
  • وفاقی بجٹ دکھاوا ہے، عوام کو ریلیف نہیں ملا، صدر سپریم کورٹ بار